نسیم شاہ کے دو چھکے اور سافٹ ویئر اپ ڈیٹ


ایشیا کپ 2022 ء کے پاک۔ افغان گروپ میچ میں 19 ویں اوور کے اختتام تک کسی نے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ اگلی دو گیندوں پر دو مسلسل چھکے کرکٹ کی تاریخ کا ایک یادگار واقعہ بن جائیں گے، بالخصوص افغانستان کے لئے یہ ایک دہشت ناک خواب اور پاکستان کے لئے ایک ناقابل یقین، ناقابل فراموش، اور خوشگوار فتح ہوگی۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ناقابل پیش گوئی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ پل میں تولہ، پل میں ماشہ کے مصداق یہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ بھارت کے خلاف 182 رنز کا ہدف 5 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا جبکہ افغانستان کے خلاف 118 کے سکور پر 9 ویں وکٹ گر گئی۔ پاکستان کی آخری چار وکٹیں چند ہی رنز کے عوض گریں جس سے افغانستان ایک ممکنہ فتح کے خواب دیکھنے لگا مگر ان دو چھکوں نے اسے ایک ڈراؤنا خواب بنا ڈالا۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ سب جانتے ہیں۔ اور جنہوں نے یہ میچ نہیں بھی دیکھا، انہیں واٹس ایپ سٹیٹس، ٹک ٹاک، اور سوشل میڈیا ویڈیوز کے ذریعے پتا چل گیا۔ کیا پتہ اب افغانستان میں لوگ بچوں کو ڈرانے کے لئے نسیم شاہ کا نام استعمال کرنا شروع کر دیں۔

اس میچ میں افغانستان فتح کے دہانے پر پہنچ کر بھی نامراد رہا جبکہ پاکستان نے شکست کے جبڑوں سے کامیابی کھینچ نکالی۔ پاکستان کی یہ کامیابی افغانستان سے ہضم نہ ہوئی اور افغان کھلاڑی صدمے سے سرجھکا کر رونے لگے، جبکہ افغان شائقین نے بدتمیزی کی انتہا کرتے ہوئے سٹیڈیم کی کرسیاں اکھاڑ کر پاکستانیوں کو مارنا شروع کر دیا۔ پہلے ایسا انتہاپسندانہ رویہ بھارتی شائقین میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ اب ان کی جگہ افغانوں نے لے لی ہے۔

ورلڈ کپ 2019 ء، ٹی 20 آئی ورلڈ کپ 2021 ء، اور اب ایشیا کپ 2022 ءمیں یہ تیسرا ایسا واقعہ ہے جب افغان شائقین نے کرکٹ میچ میں بدتمیزی اور وحشیانہ پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ ٹی 20 آئی ورلڈ کپ 2021 ء کے پاک۔ افغان میچ میں ہزاروں افغانیوں نے سٹیڈیم پر یلغار کر دی اور ٹکٹ کے بغیر ہونے کے باوجود زبردستی داخلے کی کوشش کی جس سے بدنظمی اور سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوئے۔ بقیہ دو مواقع پر بے حوصلہ اور وحشی افغان روتے پیٹتے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے رہے۔

آصف علی سے چھکا کھانے کے بعد جب افغان بولر فرید احمد نے انہیں آؤٹ کر دیا تو راستے میں آ کر بدزبانی اور نازیبا اشارے کر کے اپنا غصہ اتارا۔ آصف علی نے بھی بیٹ اٹھا کر مارنے کا اشارہ کیا۔ اس پر باقی کھلاڑیوں نے مداخلت کر کے معاملہ رفع دفع کروایا۔ اس وقت نسیم شاہ نان سٹرائیکر تھے۔ انہوں نے پھر اگلے اوور میں، جب گیارہ رنز کی ضرورت تھی اور صرف ایک وکٹ باقی تھی، دو مسلسل چھکے لگا کر نہ صرف نہایت مشکل صورت حال میں ممکنہ شکست کو فتح میں تبدیل کر دیا بلکہ افغانیوں کے قبل از وقت جشن پربھی صف ماتم بچھا دی۔

دوسرے چھکے کے بعد نسیم شاہ نے پہلے بیٹ ہوا میں بلند کیا اور پھر نیچے پھینک کر دیوانہ وار میدان میں بھاگتے چلے گئے۔ انہوں نے غصے سے بے قابو حالت میں دستانے اور ہیلمٹ اتار کر پٹخ دیے۔ ساتھ ہی ڈریسنگ روم سے پاکستانی کھلاڑی بھی وارفتگی کے عالم میں بھاگے آئے اور ایک ناقابل یقین فتح کا جشن مسرت ہماری یادوں کے البم میں محفوظ ہو گیا۔ نسیم شاہ کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ ہوا میں اڑ جائیں اور کسی کے ہاتھ نہ آئیں۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ انہیں آصف علی کے خلاف بدزبانی کا غصہ تھا جس نے ان کے اندر ایک بجلی سی بھر دی تھی۔ چنانچہ میچ کے بعد اس بجلی کو پرسکون ہونے میں کچھ وقت لگا۔ ایسے جذبات نسیم شاہ کی نوجوانی اور کم عمری کا تقاضا بھی ہیں۔

بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش اور افغانستان بھی پاکستان کو دشمن تصور کرتے ہیں اور کرکٹ میں یہ جذبات ان کے کھلاڑیوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایشیا کپ 2012 ءمیں مصباح الحق کی کپتانی میں جب بنگلہ دیش کو فائنل میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو گراؤنڈ میں موجود ان کی وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد اس صدمے کی تاب نہ لا سکیں۔ مہمان خصوصی ہونے کے باوجود وہ تقریب سے اٹھ کر چلی گئیں حالانکہ انہوں نے ہی بدست خود فاتح ٹیم کو ٹرافی دینی تھی۔ وہ یہ ٹرافی اپنی ٹیم کو تھمانے کا خواب لے کر آئی تھیں جو پورا نہ ہوسکا۔

دوسری طرف کچھ کوتاہ نظر پاکستانی بنگلہ دیش اور افغانستان کو برادر اسلامی ملک قرار دیتے ہیں۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے میں جانے کتنا وقت لگے گا۔ چلیں، بنگلہ دیش تو ماضی میں پاکستان کا حصہ رہا ہے تو اس سے کچھ رعایت برت سکتے ہیں۔ لیکن افغانستان، پاکستان سے الگ ایک ملک ہے، تھا، اور رہے گا۔ اگرچہ طالبان دہشت گردوں اور افغانوں کا یہ موقف اور دعویٰ ہے کہ پاکستان نے خیبر پختون خوا اور بلوچستان پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور ان پر افغانستان کا حق ہے۔

خیر، سیاسی معاملات الگ رکھ کر واپس کرکٹ کی طرف آتے ہیں۔ ایشیا کپ 2022 ءکے حالیہ میچ میں شکست کے بعد سٹیڈیم میں لڑائی اور توڑ پھوڑ کرنے والے افغانیوں کو امارات پولیس نے گرفتار کر کے قانونی کارروائی اور جرمانہ کیا ہے۔ اور وہ بجا طور پر اس کے مستحق بھی تھے۔ دنیا کو اس واقعے سے کیا پیغام ملا؟ یہی کہ افغان بے حوصلہ، وحشی، اور تہذیب سے عاری قوم ہیں۔ رمیز راجہ نے بالکل درست اقدام کیا ہے کہ شکست پر ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف آئی سی سی کو احتجاجی مراسلہ لکھا ہے۔

دوسری طرف بھارت کے خلاف میچ میں افغان ٹیم کا رویہ بالکل برعکس تھا۔ ان کے کسی کھلاڑی نے ویرات کوہلی کو سنچری سکور کرنے پر گالی نہ دی۔ ایک افغان فیلڈر نے باؤنڈری کے قریب ویرات کوہلی کا کیچ بے دلی سے صرف ایک ہاتھ سے کرنے کی کوشش کی اور گیند اس کے ہاتھ سے ٹکرا کر چھکے کے لئے باؤنڈری کے پار جا گرا۔ اور تو اور 101 رنز سے ہونے والی بھاری اور ذلت آمیز شکست کو افغانی یوں کھا پی گئے جیسے نسوار کی گولی یا ہیروئن ہو۔

پاکستان سے شکست پر بیوہ عورتوں کی طرح رونا پیٹنا، اور کدورت و کراہت کا ایک طوفان امڈ آیا تھا جبکہ بھارت سے شکست گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس بات پر خوب میمز بنیں۔ کہیں افغان کھلاڑیوں کو ڈالروں سے ڈھکے ہوئے فرش پر خوش ہوتے دکھایا گیا تو کہیں جہاز پر بیٹھ کر ڈالروں کے بیگ کے ساتھ وطن واپس جاتے ہوئے۔ کہیں یہ لکھا ہوا ملا کہ بھارت کو جتوا کر افغان کھلاڑیوں نے آئی پی ایل میں جگہ پکی کر لی۔ یہ باتیں چاہے پچاس فیصد ہی سہی مگر درست ہیں۔

افغان حکومت پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی مخالفت کرے ؛داؤ دخان اور ظاہر شاہ پاکستان میں مسلح شورش کی پشت پناہی کریں ؛طالبان دہشت گرد ہمیں بموں کا نشانہ بنائیں ؛ ہمارے ملک کے دو صوبوں پر اپنا حق جتائیں ؛ہمارے فوجیوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلیں ؛ اور کرکٹ کے میدان میں پاکستان کے خلاف زہر افشانی کریں تو ہمیں کیا پاگل جانور نے کاٹا ہے جو یک طرفہ محبت و اخوت کی ذلت اٹھائیں اور دشمنی کے جواب میں برادر اسلامی ملک کا نعرہ لگائیں۔

نمک حرام افغانی عشروں سے پاکستان میں پناہ گزین ہیں۔ یہاں نوکری اور مزدوری کر کے کھاتے ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر متحدہ عرب امارات، سعودیہ، اور مغربی ممالک میں سفر اور جابز کرتے ہیں اور ساتھ پاکستان کو زہریلی زبانوں سے ڈستے بھی ہیں۔ ہماری حکومتوں اور عوام نے ان آستین کے سانپوں کو خود ہی دودھ پلا کر پالا ہے۔ سانپ کی فطرت ہے ڈسنا۔ افغانوں کی فطرت ہم پر عیاں ہو چکی ہے۔ ان سانپوں کا سر فوراً کچلنا ہو گا۔

پاکستان کے سینئر اور ریٹائرڈ کھلاڑیوں نے افغانستان میں کرکٹ کا انفراسٹرکچر قائم کرنے کے لئے خدمات انجام دیں۔ پاکستان کے دو ریٹائرڈ کھلاڑی، عمر گل اور یونس خان، اس وقت افغان کرکٹ بورڈ کی ملازمت میں ہیں۔ قومی غیرت کا تقاضا ہے کہ یہ نوکری ان کے منہ پر مار کر وطن واپس آ جائیں۔ پی ایس ایل کی ٹیموں میں بھی راشد خان، محمد نبی، اصغر افغان، مجیب الرحمٰن، اور نوین الحق کو لیا جاتا ہے۔ چیئر مین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ پی ایس ایل ڈرافٹنگ اور ہماری ڈومیسٹک کرکٹ میں افغان کھلاڑیوں کی شمولیت کو بند کر دیں۔ آئندہ کوئی سابق پاکستانی کھلاڑی افغان کرکٹ بورڈ میں کوئی عہدہ قبول نہ کرے۔ بھوکے نہیں مریں گے کیونکہ اللہ رازق ہے۔ اور پاکستانی حکومت ان نمک حرام لوگوں کے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردے۔

آخر میں نسیم شاہ کے لئے بہت زیادہ شاباش، تعریف، اور دعائیں جنہوں نے افغان شائقین، حکومت، اور کرکٹ ٹیم کا زہر دو چھکوں میں نہ صرف بے اثر کر ڈالا بلکہ انہی کے منہ پر دے مارا۔ انہوں نے بیٹ سے افغانوں کا جو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیا، اس پر تعریف اور فخر کر نا بالکل بجا ہے۔ نمک حرام، احسان فراموش، اور پاکستان دشمن اس سے بدتر سلوک کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments