شہباز شریف کی ناکامیوں کی وجوہات


موجودہ سیلابی دور میں بھی عمران خان جہاں جلسہ کر رہے ہیں وہاں عوام جمع ہو جاتے ہیں۔ ان پر ابتدائی طور پر اسی طرح کی پابندیاں لگائی گئیں جو ماضی میں بانی ایم کیو ایم پر لگائی گئی تھیں، اس کی وجہ ان کے متنازع بیانات تھے، وہ بھی بانی ایم کیو ایم کی طرح جوش خطابت میں کچھ بھی کہہ دینے لگے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی شہرت میں کمی نہ آئی۔ شہرت کے اس سونامی میں عمران خان کا کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے بھی اپنے دور میں عوام پر مہنگائی کے طوفان برپا کیے، ان کے دور میں بھی بیروزگاری میں اضافہ ہوا، آئی ایم ایف سے کیے جانے والے انہی کے معاہدوں نے عوام اور پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا، صاف چلی شفاف چلی کا نعرہ لے کر آنے والی ان کی تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی تو کرپشن میں بھی اضافہ ہوا۔

عمران خان نے اقتدار میں آنے کے لئے ہر اس شخص کو ساتھ ملایا جس کی ماضی کے ہر جلسے میں وہ مخالفت کیا کرتے تھے۔ عمران خان اپنے نام نہاد اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے اور انتظامی امور سنبھالنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے دور میں ناکام رہے لیکن میاں شہباز شریف کی حکومت عوام کے لئے ان سے بھی زیادہ بڑا عذاب ثابت ہوئی۔ شہباز شریف کی ناکامیوں نے عمران خان کی شہرت میں اضافہ کیا اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عمران خان کی شہرت میں ان سے زیادہ شہباز شریف اور پی ڈی ایم کی حکومت کا کمال ہے۔

یقینی طور پر سیاست پر نظر رکھنے والے احباب کے لئے یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھانے والے، پنجاب میں انتظامی امور کے ماہر سمجھے جانے والے، پنجاب کے ماس ٹرانزٹ سسٹم کو مثالی بنانے والے شہباز شریف بطور وزیراعظم اس قدر ناکام کیسے ہو گئے؟ شہباز شریف اور عمران خان کی حکومت میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ شہباز شریف عمران خان کے مقابلے میں حکومتی معاملات چلانے اور انتظامیہ امور سنبھالنے کے ماہر ہیں۔

وہ عمران خان سے اچھے منتظم ہیں لیکن عمران خان کی طرح وہ بھی اس وقت بے بس ہیں۔ عمران خان بھی اپنے دور حکومت میں اسی طرح بے بس تھے بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس وقت شہباز شریف عمران خان سے بھی زیادہ بے بس ہیں۔ عمران خان کی حکومت بھی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ اقتدار بنانے کے لئے انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کو ساتھ ملا تو لیا تھا لیکن انہیں ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا کہ ان اتحادیوں نے جہاں ساتھ چھوڑا حکومت کا تختہ الٹ جائے گا اور ایسا ہی ہوا اتحادیوں نے مفادات کی خاطر جب عمران خان کا ساتھ چھوڑا تو ان کی حکومت گر گئی۔ عمران خان خود کرپشن سے دور رہنے والے انسان ضرور تھے لیکن ان کی پارٹی میں کئی ایسے افراد شامل تھے جنہوں نے ان کی پالیسیوں کو ناکام کیا۔

شہباز حکومت بھی اس وقت بے ساکھیوں پر ہے۔ ان کے اتحادی انہیں حکومت چھوڑنے نہیں دیں گے اور نہ ہی کامیاب ہونے دیں گے۔ حکومت سے حقیقی طور پر لطف اندوز جمعیت علما اسلام اور پیپلز پارٹی ہو رہے ہیں لیکن عوام کے سامنے ناکامی کا الزام صرف مسلم لیگ نون کے سر ہے۔ حکومت کی ہر ناکامی کا دفاع بھی مسلم لیگ نون کو ہی کرنا پڑ رہا ہے اور اس دفاعی پالیسی میں پوری مسلم لیگ بھی شامل نہیں مسلم

لیگ نون کا ایک دھڑا اپنی سیاست بچانے کے لئے شہباز حکومت کے دفاع سے گریز کر رہا ہے یہ دھڑا آنے والے انتخابات میں حالات کا جائزہ لے کر اڑان بھی بھر سکتا ہے۔ حکومت کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جن جماعتوں نے اتحاد قائم کر کے عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹا ہے یہ اتحادی ماضی کے سخت مخالفین ہیں۔ ان میں سے کسی بھی جماعت میں نظریاتی اتحاد نہیں۔ آج کے اتحادی کسی بھی وقت ایک بار پھر الگ ہوسکتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت سیاسی جماعتوں کے ہجوم کے باوجود صرف چند اراکین کی برتری کے باعث قائم ہے۔

اس کے قائم رہنے کے لئے لازم ہے کہ سب کو خوش رکھا جائے۔ کسی کو ناراض نہ کیا جائے، سب کی مانی جائے، سب کی غلطیوں پر آنکھیں بند کرلی جائیں۔ ظاہر ہے جب ایسا ہو گا تو کرپشن کا بھی عروج ہو گا، انتظامی امور کی انجام دہی میں بھی مشکلات ہوں گی، ترقیاتی کام بھی مفادات کی بھینٹ چڑھ جائیں گے، معیشت بھی تباہ سے تباہ تر ہو جائے گی، مہنگائی میں اضافہ ہو گا، لاقانونیت کا راج ہو گا اور ایسا ہی ہو رہا ہے لیکن اس صورتحال میں شہباز شریف کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں لہذا ان کی شہرت کا گراف گر رہا ہے اور عمران خان کی شہرت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

پی ڈی ایم حکومت کی ناکامی کی دوسری بڑی وجہ صوبائی حکومتیں ہیں۔ شہباز شریف کے پاس کسی بھی صوبے میں حکومت نہیں۔ کے پی اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے ظاہر ہے یہ صوبائی حکومتیں شہباز شریف کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔ سندھ پیپلز پارٹی کے ہاتھ ہے اور پیپلز پارٹی اس پر کسی کی نظر برداشت نہیں کر سکتی ہے۔ وقت سے پہلے حکومت میں آنا سیاسی اعتبار سے شہباز شریف کی سب سے بڑی غلطی تھی اس غلطی کے بعد اب انہیں یہ احساس ہو رہا ہو گا کہ مسلم لیگ نون کو اور ان کی سیاست کو اس غلطی سے کس قدر نقصان ہوا۔ اگر عمران خان کو وقت پورا کرنے دیا جاتا اور وہ اتحادیوں سے بلیک میل ہو کر ناکام ہوتے تو آنے والا وقت مسلم لیگ کا ہوتا جس میں وہ مکمل با اختیار ہو کر کام کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے کیسز میں گھری نون لیگی قیادت کو اپنا آپ ان کیسز سے بھی آزاد کرانا تھا جس میں وہ تاحال مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئے۔

بلا شبہ شہباز شریف عمران خان سے اچھے منتظم ہوں گے لیکن جب تک حکومت کے ساتھ عوامی طاقت نہ ہو، حکومت اپنے فیصلوں میں آزاد نہ ہو وہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔ شہباز شریف اپنے اتحادیوں کی وجہ سے اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں اور نہ ہی وہ عوام کو اپنے مسائل اور گزشتہ حکومت کی غلطی سمجھانے میں کامیاب ہوئے اس لئے عوام کی نظروں میں وہ مکمل طور پر ناکام ہیں۔ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف میڈیا اور سوشل میڈیا پروپیگنڈے میں نون لیگ سے کئی زیادہ آگے ہے جس کا انہیں فائدہ اور مسلم لیگ نون کو نقصان ہو رہا ہے۔

نون لیگ کہ اہم اتحادی جمعیت علما اسلام اور پیپلز پارٹی اپنی جگہ پر کھڑے ہیں، متحدہ قومی موومنٹ، پی ٹی ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور اے این پی جیسی جماعتیں ظاہر ہے ملکی سطح جیسی کامیابیوں کے اب خواب ہی نہیں دیکھتیں لیکن نون لیگ کے گرتے گراف کو بچانے کے لئے شہباز شریف کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ قبل از وقت انتخابات کی جانب قدم بڑھائیں اور عوام میں اتحادیوں کے بغیر تنہا جائیں۔ اپنی ناکامیوں کے ذمہ داروں کا کھل کر ذکر کریں اور ماضی کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھیں اگر انہوں نے اس کام میں مزید دیر کی تو آنے والے انتخابات کے نتائج مسلم لیگ نون کی سیاست کے لئے تباہ کن ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments