ایک تھی ملکہ


اب تک آپ نے ملکہ برطانیہ کے بارے میں بہت کچھ پڑھ لیا ہوگا۔ تھوڑا سا اور پڑھ لیں۔

 ایلزبتھ ڈیوک اور ڈچز آف یارک کی پہلی اولاد تھی۔ اکیس اپریل 1926 کو پیدا ہوئی۔ نام رکھا گیا الیزبتھ الیکسندرا میری۔

یوں تو ہر ایک بات کی کھوج لگائی جاتی ہے اور کہیں نا کہیں سے کچھ چٹ پٹا مواد نکلا لیا جاتا ہے۔ اچھی بات ہے دل لگا رہتا ہے لیکن کھوج میں حقیقت سے زیادہ فسانے ہوتے ہیں

آپ نے شاید پڑھا ہو کہ ملکہ کا شجرہ کھنگالا جا رہا ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موجودہ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کا رشتہ 43 نسلیں پیچھے جا کر پیغمبرِ اسلام سے جا ملتا ہے۔ یہ بات جنگل کی آگ کی طرح تو نہ پھیلی لیکن پھر بھی اس کی تپش کہیں کہیں سے آنے لگی۔

یہ خبر اتنی پھیلی کہ اکانومسٹ، نیوز ویک، ٹائمز لندن، آبزرور، ڈیلی میل اور دنیا بھر کے اخباروں نے اسے صفحۂ اول پر چھاپا۔ مسلمان ملکوں کو جیسے کوہ نور ہاتھ لگ گیا۔ پتہ نہیں کہاں کے قلابے کہاں جوڑے جا رہے ہیں۔

 ایک اخبار نے لکھا کہ چانکہ وہ سید ہیں اس لیے اب ملکۂ برطانیہ کو دنیا کے تمام مسلمان ملکوں پر حکومت کا حق بھی حاصل ہو گیا۔ شاید طنزیہ کہا ہے۔

ملکہ الیزبیتھ ایک عام عورت ہرگز نہیں تھی۔ منہ میں چاندی کا نہیں بلکہ سونے کا چمچہ لے کر دنیا میں آئی۔ شاہی خاندان کی فرد تھی۔ اور اس وقت سلطنت برطانیہ کا راج چار دانگ تھا۔ اور سلطنت برطانیہ کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ لیکن وہ اس تاج کی ولی عہد نہیں تھیں اور نہ ہی ان کے والد بادشاہ تھے۔ سلطنت کے بادشاہ ان کے چچا تھے

ان کے چاچا کنگ ایڈرو ڈ کو تخت سنبھالے سال بھر بھی نہ ہوا تھا کہ وہ ایک امریکن طلاق یافتہ خاتون مسز والیس سمپسن سے دل لگا بیٹھے اور بات شادی تک پہنچی۔ چرچ آف انگلینڈ نے اجازت نہیں دی۔ ایک تو غیر ملکی اور پھر طلاق یافتہ شاہی خاندان کو بھی یہ نامنظور تھا۔ بادشاہ نے تخت و تاج کو لات رسید کی بلکہ وطن بھی چھوڑ دیا اور مسز سمپسن کا ہاتھ تھامے فرانس جا بسے اور وہیں فوت بھی ہوئے۔ بے اولاد ہی دنیا سے گئے ورنہ تخت کے وارث کا ایک اور جھگڑا کھڑا ہو جاتا۔ بادشاہ نے محبت کی داستان رقم کردی۔ یوں الیزبیتھ کے والد اپنے بھائی کے اچانک چلے جانے سے برطانیہ کے بادشاہ جارج بن گئے جس کے لیئے وہ ذہنی طور پر تیار بھی نہیں تھے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ کسی حد تک غیر متوازن تھے اور ذہنی دباؤ اور بے چینی کے مریض تھے۔ اس کے علاہ وہ ہکلاتے بھی تھے۔ اس پارے ایک بہت اچھی فلم بھی بنی ہے۔ دیکھیئے۔  The King’s Speech۔ بادشاہ نے ایک اسپیچ تھراپسٹ کی مدد سے اپنی ہکلاہٹ پر کافی حد تو قابو پا لیا اور ایک شاندار تقریر بھی کی جس سے وہ بچنے کی کوشش کرتے رہے۔ ملکہ نے بھی یہ فلم دیکھی اور اسے سراہا بھی۔

شہزادی الیزبیتھ نے اپنی بہن مارگریٹ کے ساتھ محلوں میں پرورش پائی۔ جنگ عظیم دوم کا زمانہ تھا دونوں بہنوں کو گھر میں ہی تعلیم دی گئی اور انہوں نے کبھی اسکول کا رخ نہیں کیا۔ چودہ سال کی عمر میں الیزبیتھ نے ریڈیو پروگرامز میں حصہ لینا شروع کردیا جس میں وہ برطانوی بچوں کی جنگی مشکل حالات میں ہمت افزائی کرتی اور اچھے دنوں کی امید دلاتی۔ اسکول نہ جانے کی وجہ سے دونوں بہنوں کے دوست بھی کوئی نہ بن سکے وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی بہترین دوست تھیں یا ان کے کھلونے ان کے ساتھی تھے۔۔ الیزبیتھ سنجیدہ مزاج کی تھی جبکہ مارگریٹ چنچل اور چلبلی سی تھی۔ باپ کو دونوں بیٹیاں پیاری تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ الیزبتھ میرا فخر ہے تو مارگریٹ میری مسرت ہے۔ دونوں بہنیں دور سے پارک میں کھیتے بچوں کو حسرت سے دیکھتیں اور سوچتیں کہ انہیں اس کی آزادی کیوں نہیں۔

انیس سو سینتالیس میں اکیس برس کی عمر میں الیزبتھ کی شادی پرنس فلپ سے ہو گئی۔ پرنس فلپ کا تعلق ڈنمارک اور یونان کے شاہی خاندان سے تھا۔ دولت کے لحاظ سے برطانیہ کے شاہی خاندان کے عشر عشیر بھی نہ تھے۔ دونوں آپس میں دور کے کزنز تھے کیونکہ شاہی خاندان سے باہر شادی قابل قبول نہیں تھی اور اس زمانے میں سارے شاہی خاندان کسی نہ کسی حد تک آپس میں رشتے دار تھے۔ یہ جوڑا کچھ عجیب سا تھا۔ الیزبتھ سنجیدہ مزاج کی باوقار شہزادی تھی اور پرنس فلپ کسی حد تک لڑکپن میں تھے اور کچھ کچھ بڑبولے بھی تھے۔ کنگ جارج بھی اس شادی سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے لیکن شاید اس وقت اور کوئی رشتہ نہیں تھا۔

کنگ جارج کی صحت بے تحاشا تمباکو نوشی کی وجہ سے خراب ہوئی اور چھے فروری انیس سو باون کو وفات پا گئے۔۔ اس وقت الیزبتھ چار ہزار میل کی دوری پر کنیا کے سفاری پارک میں اپنے شوہر کے ساتھ چھٹیاں منا رہی تھی۔ وہ فوری طور پر وطن واپس آئی۔ اور دو جون انیس سو باون کو ان کی تاج پوشی ہوئی ملکہ کی عمر پچیس سال تھی۔ ملکہ اور پرنس فلپ کی چار اولادیں ہیں۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی۔

شہزادی مارگریٹ اپنی خوبصورتی اور چنچلتا کی وجہ سے ہر دل عزیز تھی۔ کچھ کچھ دل پھینک بھی تھی۔ بڑی بہن کی تقریب تاج پوشی میں بھی وہ فلرٹ کرتی پائی گئی۔ ایلزبیتھ کو پہلا خاندانی مسئلہ اس وقت پیش آیا جب مارگریٹ نے ایک عام آدمی سے شادی کی خواہش کی۔ کیپٹن پیٹرٹاونسٹیڈ شادی شدہ تھا اور بیوی کو طلاق دے چکا تھا۔ شاہی خاندان نے اس رشتے سے انکار کردی۔ مارگریٹ کو ملکہ کی اجازت درکار تھی لیکن ملکہ چرچ کے فیصلوں کی پابند تھی۔ ملکہ کو سخت فیصلہ لینا پڑا اور بہنوں کے تعلق میں دوری آگئی۔ اس کے بعد مارگریٹ نے ایک فوٹوگرافر سے شادی کا ارادہ کر لیا اور ملکہ نے اسے ایک خطاب سے بھی نواز دیا۔ ان کے دو بچے بھی ہوئے۔ مارگریٹ نے کسی اور سے دل لگا لیا اور عوام کی محبت کھو دی۔ انیس سو اٹھتر میں شوہر سے طلاق لے لی۔ شاہی خاندان کی چار سو سالہ تاریخ میں یہ پہلی طلاق تھی۔ دوہزار دو میں مارگریٹ دل کی بیماری سے فوت ہو گئی۔

تین بیٹے اور ایک بیٹی کی ماں الیزبتھ اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیئے وقت نکالتی رہی۔

سب سے بڑا بیٹا چارلس تھا۔ اسے ملکہ نے ولی عہد قرار دیا اور اس کے تعلیم و تربیت اسی انداز میں کی گئی کہ ایک دن یہ تاج اس کے سر پر سجے گا۔ لیکن اس کی تربیت میں جانے کہاں کوئی کمی کجی رہ گئی کہ عین جوانی میں ایک عورت کامیلا پارکر سے ملے اور اس کے دامن میں ایسے الجھے کہ گرتے ہی چلے گئے۔ ماں نے سمجھایا۔ باپ نے سرزنش کی تو کسی حد تک محبوبہ سے کنارا کر لیا۔ بگڑے بیٹے کو راہ راست پر لانے کے لیا سوچا کہ اس کی شادی کردی جائے۔ نظر انتخاب ڈائینا پر پڑی۔ وہ کم عمر، شرمیلی اور باقار تھی۔ شادی ہو گئی لیکن چارلس پہلی محبت بھی نبھاتے رہے۔ ایک انٹرویو میں ڈایئنا نے کہا تھا’’یہ ایک ایسی شادی تھی جس میں تین افراد تھے’’ ڈایئنا کی زندگی ایک عذاب تھی۔ شوہر کے ساتھ اسے ساس کا بھی سامنا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ شاہی آداب سے ناوقف تھی۔ اس کا خاندان بھی خطاب یافتہ اور باعزت تھا۔ ملکہ ڈاینا کے چھوٹے بھائی کی گاڈ مدر بھی تھی۔ ملکہ نے ساس بن کر ضرور اسے کہا ہو گا کہ اپنا شوہر نہیں سنبھالا جاتا تم سے؟ ذرا بن سنور کر رہا کرو۔ اسے اہمیت دو۔ ڈائنا ان دنوں اپنی بولیمیا کی بیماری سے لڑ رہی تھی ملکہ نے اسے بھی چارلس کے بےوفائی کی وجہ بتایا۔۔ ڈائینا تھک گئی اس نے سامان باندھا اور محل سے نکل گئی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ عوام کے دلوں کی شہزادی کا درد ناک انجام ہوا۔

بچوں میں دوسرے نمبر پر شہزادی این ہے۔ شاید بہت لاڈلی بھی ہو گی۔ لیکن عوام میں غیر مقبول رہی۔ اس کے چہرے پر ایک خشونت اور کرختگی ہے جس کی وجہ سے تاثر اچھا نہیں جاتا۔ این نے خود بھی اپنا یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لوگوں میں گھلنا ملنا ہاتھ ملانا اسے ناپسند ہے۔ فوٹو شوٹس سے بھی بیزاری کا اظہار کرتی۔ وہ ایک اچھی نند بھی ثابت نہیں ہوئی۔ اور ڈائینا کی زندگی تلخ بنانے میں اپنا پورا حصہ ڈالا۔ ملکہ کے بہت نزدیک تھی۔ دونوں ماں بیٹی کے کئی شوق بھی مشترک تھے۔ دونوں کو گھوڑے اور کتے پالنے کا شوق تھا۔

ایک وقت تھا کہ سمجھا جاتا تھا کہ اینڈریو ملکہ کا سب سے چہیتا بچہ ہے اور ماں کا لاڈلا ہے۔ وہ کوئی کام غلط نہیں کرسکتا۔ اس نے شادی کی پھر طلاق ہوئی اور اس کے بعد کئی غلط سرگرمیوں میں مبتلا ہوا۔ نام بدنام ہوا اور جب جیفری ایپسٹین کا اسکنڈل سامنے آیا اور اینڈریو کی حرکات کھلیں تو ملکہ نے اسے تقریبا عاق کردیا۔ اور تمام شاہی سرگرمیوں سے کنارا کشی کرنے کو کہا۔

سب سے چھوٹا بیٹا ایڈورڈ وہ واحد بچہ ہے جس کے کوئی اسکنڈل سامنے نہیں آئے۔ اور وہ ا بھی تک طلاق یافتہ بھی نہیں ہے۔ اس کی شادی صوفیہ سے ہوئی۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ یہ دونوں ایک اچھی زندگی گذار رہے ہیں۔ کسی حد تک ایک پرائیوٹ زندگی گذار رہے ہیں۔ ملکہ سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ شکر ہے کہ ایک اولاد سے تو ملکہ کو بے فکری تھی۔

یہ بات دنیا جانتی ہے کہ ملکہ دنیا کی امیرتین خاتون تھی۔ ان کی امارت کا تو شاید کبھی کوئی صحیح تخمینہ نہیں لگا سکے گا۔ املاک اور بزنس کے علاوہ بیش بہا قالینوں اور مصوری کے شاہکار اور نوادرات شامل ہیں۔

ملکہ کی ملکیت میں تین سو سے زائید جیولری کی آئیٹمز ہیں۔ ان میں سو کے قریب بروچ ہیں۔ چھیالیس گلوبند، سینتیس بریسلٹس۔ چونتیس کانون کے بندے، پندہ انگوٹھیاں، چودہ گھڑیاں اور پانچ لاکٹس ہیں۔ ڈیڑھ کلو سے بھی وزنی تاج بھی ہے۔

ان زیورات میں سب سے زیادہ قیمتی اور شاندار وہ نیکلس ہے جو نظام حیدر آباد نے انہیں دیا تھا۔ اس کی مالیت چھیاسٹھ ملین پاونڈ بتائی جاتی ہے۔ پتہ نہیں ملکہ نے یہ توشہ خانے میں جمع کروایا یا اس کی قیمت لگوا کر اسے اپنے لیئے خرید لیا۔ ویسے یہ ان کی شادی کا تحفہ تھا نظام کی جانب سے۔

ملکہ کا پسندیدہ زیور سفید موتیوں کا تین لڑی والا ہار تھا جو وہ اکثر گلے میں ڈالے نظر آتیں۔ یہ ہار انہیں اپنے والد کی جانب سے ملا تھا۔ ملکہ کو یہ اتنا پسند تھا کہ انہوں نے بالکل اسی طرح کے تین ہار بنوا لیئے۔

ملکہ کی وفات کے بعد اب ان جواہرات پر کس کا حق ہو گا ؟ بات یہ ہے کہ یہ جواہرت ریاست کی ملکیت ہیں۔ شاہی افراد انہیں پہن تو سکتے ہیں لیکن مالک نہیں بن سکتے۔

ملکہ ہمیشہ سجی سنورتی نظر آتیں۔ لباس پر خاص توجہ دیتیں۔ خوب کھلتے ہوئے رنگ پہنتی تھیں۔ بایں ہاتھ میں ایک پرس ضرور لٹکا ہوتا تھا۔ میچینگ کا خیال رکھتیں۔ ان کے ہیٹس بھی دیدہ زیب ہوتے۔ وہ ایک خوش لباس اور خوش ذوق ملکہ رہیں۔ سنا ہے ایک لباس ایک بار سے زیادہ نہیں پہنتیں تھیں۔

یہ تو ہیں وہ باتیں جو منظر عام پر ہیں۔ لیکن کچھ ایسا بھی ہے جو دکھائی نہیں دیتا۔ الیزبیتھ ملکہ تو تھیں لیکن ایک انسان اور ایک عورت بھی تو تھیں۔ ان کا وہ رخ اوجھل ہی رہا۔ شاید اس لیئے کہ رائیلز کو اپنے جذبات چھپا کر رکھنے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔

کیا ملکہ تنہا تھی؟ نہیں تو۔ چاروں طرف ملازموں اور اسٹاف کے لوگ ہاتھ باندھے اشارے کے منتظر تھے۔ ان کی کوئی خواہش کبھی حسرت نہ بنی ہوگی۔

کبھی تو ایسا وقت ملکہ پر آیا ہوگا جب اس منظم اور لگی بندھی زندگی سے دل اچاٹ ہوا ہوگا۔ کبھی تو جی میں آیا ہو گا کہ کاش یہ سب نہ ہوتا اور وہ ایک عام انسان کی طرح اپنی مرضی کر سکتیں۔

کبھی تو دل چاہتا ہوگا کہ کوئی سہلیان ہمجولیاں ہوں جن کے ساتھ وہ خوب باتیں کرے اور زور زور سے ہنسے۔ کسی دن وہ سہلیاں مل کر کافی پینے جایں۔ کسی ویک اینڈ پر وہ شہر سے باہر کوئی میوزک کنسرٹ اٹینڈ کریں۔ کوئی کرکٹ میچ دیکھنے گراونڈ پر جایں۔

بچپن کے کھیل بھی کبھی نہیں کھیلے۔ گلیوں میں کبھی چھپن چھپائی نہیں کھیلی ہوگی۔ بچے جو شرارت میں کسی گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ جاتے ہیں ایسا بھی کبھی نہیں کیا ہوگا۔ اسکول تو وہ گئی ہی نہیں ورنہ وہان شاید کوئی معصومانہ شرارت سرزد ہوتی۔ کبھی کسی کسرتی بند والے لڑکے پر کرش ہوتا۔ سہلیاں کسی کا نام لے کر چھیڑتیں۔ ایسا کچھ بھی ملکہ کے ساتھ نہیں ہوا۔

 کبھی میاں کے ساتھ کچھ ان بن ہوئی تو ایک عام عورت کی طرح اپنی ماں کے گھر جا کر میاں کی شکایتیں کرے۔ فون پر کسی دوست یا بہن سے لمبی بات کرے۔ گوسپ کرے۔

لمبی شادی شدہ کے بعد ساتھی کا بچھڑنا بہت تکیف دہ ہوتا ہے۔ ان کا تو ستر سال کا ساتھ تھا۔ محبت نہ بھی باقی رہے عادت تو پڑ ہی جاتی ہے۔ پرنس فلپ کے بعد وہ اسی اکیلے پن کا شکار رہیں لیکن اپنی ڈیوٹیز آخری وقت تک نبھایں۔ وفات سے دو دن قبل نئی وزیر اعظم سے ملاقات کی مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا حالنکہ وہ اس وقت بھی تکلیف میں تھیں۔ چھیانوے سال کی عمر میں ستر برس ملکہ رہنے کے بعد وہ سکون سے آخری سفر پر روانہ ہو گیں۔

اب چارلس بادشاہ بن چکے ہیں۔ ایک لمبے عرصہ سے انہیں پرنس چارلس کہا جاتا رہا اس لیئے اب کنگ چارلس منہ پر مشکل سے چڑھے گا۔ کامیلا کو کوین کونسورٹ پکارا جائے گا۔ کنگ چارلس نے اپنی پہلے تقریر میں اپنی ماں کو عظیم خراج عقیدت پیش کیا۔ اپنی ڈارلنگ بیوی کو بھی سراہا۔ شہزادہ ولیم کو ولی عہد اناونس کیا اور شہزادہ ہیری اور میگن کے لیئے نیک تمنایں کہ وہ اوورسیز ملک میں خوش رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments