کیا آپ اپنے جسم کا احترام کرتی ہیں؟


چار سال پیشتر جب میری ملاقات اپنی مریضہ کیرن سے ہوئی تھی تو وہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار تھی۔ وہ جب اینزائٹی کا شکار ہوتی تو پر سکون ہونے کے لیے وہ وقت بے وقت کھانا کھاتی۔ زیادہ کھانے کی وجہ سے وہ موٹی ہو گئی تھی اور اس کا وزن ایک سو پچاس پونڈ سے بڑھتے بڑھتے تین سو پونڈ ہو گیا تھا۔ اسے بار بار نئے کپڑے خریدنے پڑتے تھے۔ وہ اپنے نفسیاتی مسئلے اور اپنے موٹاپے کی وجہ سے بہت پریشان رہتی۔

کیرن سے نفسیاتی علاج کے دوران پتہ چلا کہ بچپن میں اس کا جسمانی ’نفسیاتی اور جنسی استحصال ہوا تھا جس نے اس کے ذہن اور شخصیت کو حد سے زیادہ منفی طور پر متاثر کیا تھا اور وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئی تھی۔

کیرن نے مجھے بتایا کہ وہ مردوں سے بہت گھبراتی ہے۔ وہ ان پر اعتماد نہیں کرتی اور جب وہ مردوں سے ملتی ہے تو اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آ جاتا ہے۔ اسے احساس تھا کہ اس کے دل میں مردوں کے خلاف کافی غصہ بھرا ہوا ہے۔

کیرن نے ہمارے کلینک کی تھراپی میں حصہ لیا تو وہ آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی۔ اس کی خود اعتمادی بڑھی تو اس نے کھانا کھانا کم کر دیا۔ کم کھانے سے اس کا وزن بھی کم ہونے لگا۔ بعض لوگوں کو یقین نہ آیا کہ تین سالوں میں اس کا وزن ایک سو پچاس پونڈ کم ہو گیا۔ وہ پہلے سے آدھی ہو گئی۔ اس کا وزن اتنا ہی ہو گیا جتنا ذہنی بیماری سے پہلے ہوتا تھا۔ اب وہ صبح اٹھ کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی تو بہت خوش ہوتی۔

اینزائٹی اور وزن تو کم ہو گیا لیکن مردوں سے غصہ کم نہ ہوا۔ اگر وہ کسی مرد سے ملتی اور وہ اسے چھوتا تو اس کے نفسیاتی مسائل لوٹ آتے اور اسے ڈراؤنے خواب آنے لگتے۔ اس لیے وہ مردوں سے دور رہتی۔

ایک دن کیرن نے کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ اس کا کوئی محبوب ہو ’کوئی شریک حیات ہو‘ کوئی شریک سفر ہو جو اس کی عزت کرے اس کا احترام کرے اور اسے انسان سمجھے جنسی گڑیا نہ سمجھے۔

میں نے کیرن سے کہا کہ جب وہ اپنے جسم کا احترام کرنا سیکھے گی تو دوسرے بھی اس کا جسم کا احترام کریں گے۔ کیرن کو میری بات سمجھ آ گئی۔ آہستہ آہستہ کیرن نے اپنے جسم کا احترام کرنا سیکھا۔

پھر ایک دن کیرن کو ایک پارٹی میں اپنے ہائی سکول کا کلاس فیلو ڈیوڈ ملا۔ کیرن اسے شروع سے پسند کرتی تھی لیکن اس نے کبھی اپنے جذبات کا اظہار نہ کیا تھا۔ کیرن نے ڈیوڈ سے کہا کہ ہمیں لنچ پر ملنا چاہیے۔ ڈیوڈ بھی راضی ہو گیا۔ جب کیرن نے ڈیوڈ سے کہا کہ وہ اسے نوجوانی سے پسند کرتی تھی تو ڈیوڈ نے کہا کہ وہ بھی کیرن کو پسند کرتا تھا لیکن شرمیلی طبیعت کی وجہ سے اپنے جذبات کا اظہار نہ کر پایا تھا۔

کیرن اور ڈیوڈ تواتر سے ملنے گئے۔ وہ پہلے دوست بنے پھر محبوب۔
محبوب بننے کے بعد کیرن کی زندگی میں خوشیوں کا اضافہ ہوا۔

جب کیرن ڈیوڈ کے ساتھ ڈیٹنگ کر رہی تھی تو اسے احساس ہوا کہ جب وہ اپنے گھر سے باہر جاتی ہے تو اس کا ایک ہمسایہ شون اسے ہاتھ ہلا کر ہیلو کہتا ہے۔ شیرن بھی ہاتھ پلا کر اس کے ہیلو کا جواب دینے لگی۔

ایک دن شون نے کیرن سے کہا کہ ہمیں کسی چائے خانے میں جا کر چائے پینی چاہیے۔ کیرن راضی ہو گئی اور طے پایا کہ وہ اتوار کے روز چار بجے سہ پہر چائے خانے جائیں گے۔

اتوار چار بجے جب کیرن باہر نکلی تو شون نے کہا کہ وہ کاٹیج سے ابھی ابھی لوٹا ہے اور تھکا ہوا ہے اس لیے چائے گھر پر ہی پی لیتے ہیں۔ کیرن راضی ہو گئی۔

دونوں نے چائے پی اور فلم دیکھی۔
پھر شون کیرن کے قریب آیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

کیرن نے اسے کہا وہ اس کی دوست ہے محبوبہ نہیں اور نہ ہی اسے شون کی محبوبہ بننے کا شوق ہے کیونکہ اس کی زندگی میں ایک محبوب ہے جس کا نام ڈیوڈ ہے۔ شون نے یہ سنا تو معذرت کی اور دور دوسرے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔

کیرن نے مجھے بتایا کہ تھراپی کی وجہ سے اس میں خود اعتمادی آئی ہے اور اس نے اپنے جسم کا احترام کرنا سیکھا ہے۔

میں نے کیرن سے کہا کہ وہ مجھے اس حوالے سے خط لکھے تا کہ میں اس موضوع پر ایک کالم لکھ سکوں۔ امید ہے میرے کالم اور کیرن کے خط سے بہت سی عورتیں اور مرد عورتوں کے جسم کا احترام کرنا سیکھیں گے۔ میری درخواست پر کیرن نے مجھے انگریزی میں ایک تفصیلی خط لکھا جس کی تلخیص اور ترجمہ ’ہم سب‘ کے قارئین کی خدمت میں حاضر ہے

ڈاکٹر سہیل!

مجھے آپ سے تھراپی سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ اب میں اپنے جسم کا احترام کرتی ہوں۔ اب میرا جسم جانتا ہے کہ کون سا لمس مثبت ہے اور کون سا لمس منفی۔ کون سا لمس محبت بھرا ہے اور کون سا لمس شہوت بھرا۔

جب میرے ہمسائے شون نے مجھے چھوا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ منفی لمس ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں نے اسے روک کر بتایا کہ مجھے مت چھوو اور اس بات کی بھی خوشی ہے کہ اس نے بھی میری رائے کا احترام کیا۔ مجھے اس دن اندازہ ہوا کہ مجھے اس سے پہلی بار تنہائی میں نہیں ملنا چاہیے تھا اور کسی چائے خانے میں چائے پینے جانا چاہیے تھا۔

میں یہ بھی جانتی ہوں کہ جب مجھے میرا محبوب ڈیوڈ چھوتا ہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ مثبت لمس ہے کیونکہ وہ مجھ سے محبت ہی نہیں کرتا وہ میرا احترام بھی کرتا ہے۔ اگر میں کسی رات اس سے ہمبستری نہیں کرنا چاہتی تو وہ دوسرے کمرے میں جا کر سو جاتا ہے۔ وہ میرے جسم اور میری مرضی کا احترام کرتا ہے۔ وہ کبھی اپنی مرضی مجھ پر مسلط نہیں کرتا۔

اب میں تھراپی سے اندر سے مضبوط ہو گئی ہوں۔ بہادر ہو گئی ہوں۔ اب میں مردوں سے ڈرتی نہیں ہوں۔ اب میں اپنے آپ کو مردوں کے برابر سمجھتی ہوں۔

جب سے میں نے اپنے جسم کا احترام کرنا سیکھا ہے مرد بھی میرے جسم میری ذات اور میری شخصیت کا احترام کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے میں ان سے دور ہٹ جاتی ہوں اور انہیں اپنی زندگی سے خارج کر دیتی ہوں۔

اب میں جان گئی ہوں کہ مردوں اور عورتوں کے وہ رشتے صحتمند رشتے ہیں جس میں فریقین ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ آپ نے مجھے سکھایا ہے کہ محبت کی بنیاد دوستی ہے۔

میں یہ خط آپ کو اس لیے لکھ رہی ہوں تا کہ آپ اسے اپنے کالم کا حصہ بنائیں اور جو عورتیں اسے پڑھیں وہ اپنے جسم کا احترام کرنا سیکھیں اور جو مرد اسے پڑھیں وہ بھی عورتوں کے جسم اور مرضی کا احترام کرنا سیکھیں۔

مجھے یہ ہمت یہ جرات اور یہ تقویت آپ کی تھراپی سے حاصل ہوئی ہے جس کے لیے میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔

آپ کی صحتمند مریضہ
کیرن
۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments