قدرتی آفات اور قومی سیاستدانوں کا رویہ


ستر برس بیت چکے اور اگر گردش ایام کو پیچھے کی طرف لوٹایا جائے تو عیاں ہو گا کہ ستر برس پہلے مملکت پاکستان جہاں کھڑا تھا آج بھی وہیں موجود ہے۔ وہی مسائل کا انبار ہے، وہی قرض تلے سسکتی عوام ہے اور وہی فرعونیت اور سفاکیت کا راج ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ چہرے بدل گئے ہیں لیکن اندروں نہیں بدلا، بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تاریک ہو گیا ہے۔

یوں تو ہر آفت خواہ آسمانی ہو یا مصنوعی، مملکت خداداد کا حلیہ بگاڑ دیتی ہے لیکن حالیہ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ثابت ہو گا۔ ایک ایسا سیاہ باب جس کی سیاہی، روشن تر چہروں کو آنے والی نسلوں کی نگاہ میں کالک زدہ کر دے گی۔ درجنوں گاؤں صفحہ ہستی سے نیست ہو گئے ہیں، ہزاروں گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں اور سینکڑوں خاندان کھلے آسمان تلے اپنی بربادی پر خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔

ہم چونکہ مسلمان ہیں اس لئے قرآنی آیات کی رو سے یہ سمجھتے ہیں کہ خشک و تر میں تباہی کا سبب حضرت انسان کی نافرمانی ہے (سورۃ الروم) ۔ نیز قرآن کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ رب اپنے بندوں کو یونہی نہیں چھوڑے گا بلکہ انہیں گاہے گاہے آزمائے گا تاکہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہو (سورۃ العنکبوت) ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ باقی ممالک پر عذاب کیوں نہیں آتے تو انہیں جان لینا چاہیے کہ ”یغفر لمن یشاء و یعذب من یشاء“ کی رو سے عذاب و درگزر کا اختیار فقط خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ہم محض اس کے مکلف ہیں کہ عبرت حاصل کریں اور اپنا محاسبہ کر کے اپنے اعمال درست کرنے کی فکر کریں۔ نیز ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مذکورہ بالا نکتہ نظر کے ہوتے ہوئے بھی ظاہری طور پر جو لوگ ذمہ دار ہیں ان کی غیر ذمہ ذمہ داری سے صرف نظر نہ کیا جائے بلکہ انہیں کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے۔

یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ عام پاکستانیوں نے ہمیشہ ایسی آفات میں اپنی بساط سے بڑھ کر دوڑ دھوپ کی ہے اور پہلے سے زیادہ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے جو ایک خوش آئند امر ہے۔ حالیہ سیلاب میں ہم نے دیکھا کہ ہر گھر سے امداد کا سامان روانہ ہو رہا ہے، افراد نکل رہے ہیں، اجتماعی دعائیں ہو رہی ہیں اور ہر پاکستانی سیلاب زدگان کے غم میں شریک ہو رہا ہے۔ یہ عام پاکستانی ہی تھے جنہوں نے اس وقت سوشل میڈیا پر سیلاب کی خبریں اٹھانا شروع کیں جب میڈیا کے بڑے بڑے پلیٹ فارمز مجرمانہ خاموشی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

کسی چینل پر لچر گفتگو اور اخلاقیات سے عاری ٹاک شو چل رہا تھا تو کوئی چینل سیاسی جلسوں کی کوریج میں تن من دھن ایک کیے ہوئے تھا۔ اگر انہیں توفیق نہ ملی تو فقط اس کی کہ سیلاب کی طرف سوئی ہوئی حکومت کی توجہ مبذول کرتا۔ سوشل میڈیا پر جب طوفان اٹھا تو ان چینلز کو تحریک ملی اور یوں ایک بار پھر ریٹنگ کی دوڑ شروع ہو گئی۔ سیلاب زدگان کے زخموں پر نمک پاشی ہونے لگی، فوٹو سیشنز کا بازار گرم ہوا اور بجائے امید کی دیا سلگانے کے خوف و ہراس اور سنسنی خیز مواد دکھایا جانے لگا۔

اگر سیاسی زعماء کے کردار کو تولا جائے تو حسب سابق نتیجہ برآمد ہو گا۔ مریم نواز انجلینا جولی کے انداز و اطوار اپنا کر تصویریں کھنچوانے میں مصروف ہو گئیں جبکہ خان صاحب جلسے پر جلسے کیے جا رہے تھے اور باقی چھوٹے موٹے عمائدین انہی دو کے گرد چکرا رہے تھے۔

عین سیلاب کے دنوں میں پنجاب میں سیاست کے نام پہ ایک الگ سرکس کا ماحول بنا ہوا تھا۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی بجائے سیلاب متاثرین کی داد رسی کے اپنی کرسی بچانے کی کوششوں میں مگن تھے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے تو کیا ہی کہنے، سائیں تو سائیں ان کی سرکار بھی سائیں۔ لوگ پنجاب سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں امداد لے کر پہنچ گئے لیکن کوئٹہ میں بیٹھا وزیراعلیٰ ٹس سے مس نہ ہوا۔ خیبرپختونخوا کے ایک واقعے نے پورے پاکستان کو سوگوار کر دیا کوہستان کے وہ پانچ جوان تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں جنہوں نے کئی گھنٹے سیلابی ریلے کے بیچ خیبرپختونخوا کے ریسکیو آپریشن کی آس پہ زندگی کا انتظار کیا لیکن بیچارگی و بے بسی کی موت ان کا مقدر بن گئی۔

حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر ناکام پالیسی سازوں، بڑے بڑے دعوے کرنے والوں، فلاح و بہبود کی رٹ لگانے والوں کو بے نقاب کیا۔ نہ ہی محکمہ موسمیات نے آنے والے خطرے سے بخوبی آگاہ کیا اور نہ ہی ریاست کے وہ ادارے جو سانحات کے نام پر اربوں ڈکار رہے ہیں، نے عوام کی منتقلی کا بندوبست کیا۔ اگرچہ کچھ جگہوں میں اعلانات کیے گئے لیکن جاننا چاہیے کہ ہزاروں افراد کی یک دم منتقلی بغیر کسی نظم کے ممکن نہیں۔ اکثریت نے قریبی گاؤں اور بستیوں میں پناہ لی جہاں چند دنوں بعد ایک بار پھر سیلاب ان کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا۔ اگر ان کے لئے خاطرخواہ بندوبست کیا جاتا تو عین ممکن تھا کہ کئی المیے جنم نہ لیتے۔ بعد میں جب ریاست نے انگڑائی لی تو ذمہ داران کے وارے نیارے ہو گئے، ٹرک بینرز تلے دب گئے اور ابھی تک وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے۔ امدادی سامان بیچا جانے لگا اور سیلاب زدگان کے نام پر تجوریاں بھری جانے لگیں۔

اگر اس معاملے میں کچھ قابل تعریف ہے تو وہ مجموعی طور پر پاکستانی عوام کی دریا دلی اور بالخصوص مدرسے و مسجد سے تعلق رکھنے والے افراد کی خدا ترسی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر سال کے تین سو پینسٹھ دن زبانیں دراز رہتی ہیں، انہیں جہالت کا طعنہ دیا جاتا ہے، جدید تہذیب سے ناواقفیت کے تیر چلائے جاتے ہیں اور دنیاوی رسوم و رواج سے نابلد قرار دیے جاتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اس طوفان میں یہی لوگ آگے رہے، انہی لوگوں نے امید کی شمع روشن کی۔ کراچی کے مفتی تقی عثمانی صاحب ہوں یا ایک چھوٹے سے مدرسے کا مولوی انوار حیدر، سب نے بساط سے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔ بیت السلام، الخدمت، البرہان اور اس جیسے دیگر درجنوں اداروں نے فلاحی کام کا درست مطلب سمجھایا اور اپنے عمل سے بتا دیا کہ جذبہ صادق ہو تو بے کراں اور پرشور پانی بھی رکاوٹ نہیں بنتا۔

سیلاب زدگان کی مد میں حکومت کو امداد مل رہی ہے لیکن کرپٹ حکام سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ متاثرین کے زخموں کا مداوا ہو گا۔ اگر کچھ کرنا ہے تو ہم عوام نے مل کر کرنا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے روابط رکھنے ہیں، آئندہ کے لئے لائحہ عمل بنانا ہے، مخلص ادیبوں اور دانشوروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تاکہ وہ بروقت آگاہی دے سکے، نیز سوشل میڈیا کو اس قابل بنانا ہے کہ عوام کو شوخ اور سسپنس سے بھرپور سرخیوں میں دلچسپی نہ رہے اور سب سے بڑھ کر اس سرمایہ دار، اس جاگیردار کا احتساب کرنا ہے جو دور حکمرانی میں تو اپنے حصے کا سیلاب بھی ہمارے آشیانوں میں بھیج دیتا ہے اور پھر پانچ سال پورے کرنے کے بعد نہایت ڈھٹائی سے ہمیں مستقبل کے سبز باغ دکھانے پہنچ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments