پاکستان انگلینڈ کرکٹ تنازع: جب انگلینڈ کے کرکٹرز نے پاکستانی امپائر ادریس بیگ کو اغوا کر کے ان پر پانی پھینکا

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


یہ 26 فروری 1956 کی شام تھی جب پاکستان کا دورہ کرنے والی ایم سی سی کی کرکٹ ٹیم اور پاکستان کے درمیان پشاور کلب گراؤنڈ میں کھیلے جانے والے تیسرے غیر سرکاری ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو پاکستانی ٹیم جسے 148 رنز کا ہدف ملا تھا دو وکٹوں پر 130 رنز بنا چکی تھی۔

اگلی صبح اسے میچ جیتنے کے لیے محض 18 رنز بنانے تھے لیکن اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اسی شام ایک ایسا واقعہ رونما ہو گا جو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کرکٹ روابط کو زبردست دھچکہ پہنچانے کا سبب بن جائے گا۔

میچ کے تیسرے دن کے اختتام پر دونوں ٹیموں کے اعزاز میں پشاور کرکٹ ایسوسی ایشن نے ایک عشایئے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ یہ دعوت ڈینز ہوٹل میں رکھی گئی تھی جہاں ایم سی سی کی ٹیم ٹھہری ہوئی تھی۔

انگلش کرکٹرز عشایئے میں جانے کے لیے تیار ہو کر نائب کپتان بلی سٹکلف کے کمرے میں جمع ہونا شروع ہو گئے جہاں مے نوشی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک منصوبے کو حتمی شکل بھی دے ڈالی۔

یہ منصوبہ تھا پاکستان کے امپائر ادریس بیگ کو اسی کمرے میں لا کر انھیں پانی سے نہلا دینے کا۔ ان کرکٹرز کا خیال تھا کہ وہ ادریس بیگ کو آسانی سے اپنے کمرے میں مدعو کر لیں گے اور پھر انھیں پانی سے نہلا دیا جائے گا۔

انگلینڈ کے کرکٹر برائن کلوز جو اس منصوبے میں پیش پیش تھے کہتے ہیں کہ ’دو بڑے برتنوں میں پانی بھر کر تیاری کرلی گئی تھی اور اس منصوبے کے کرتا دھرتا ایم سی سی ٹیم کے کپتان ڈونلڈ کار تھے۔‘

ادریس بیگ سے کیا شکایت تھی؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم سی سی کے کھلاڑیوں نے امپائر ادریس بیگ ہی کو اس منصوبے کے لیے کیوں منتخب کیا تھا؟

اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ مہمان ٹیم میچوں کے دوران ادریس بیگ کے بعض فیصلوں سے سخت ناراض تھی اور ان کا خیال تھا کہ یہ فیصلے مبینہ طور پر جانبدارانہ تھے۔

ایم سی سی کی ٹیم کے ساتھ پاکستان آنے والے صحافی برائن چیپمین نے ڈیلی مرر میں لکھا تھا کہ پشاور کے میچ میں بھی انگلش کھلاڑیوں نے ایل بی ڈبلیو کی زور دار اپیلیں کر ڈالی تھیں لیکن ادریس بیگ پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔

اسی دورے کے دوران پشاور سے پہلے ڈھاکہ میں کھیلے گئے میچ میں بھی جب انگلش کھلاڑی ایک دوسرے پر پانی پھینکنے کی اپنی روایتی شرارت میں مصروف تھے تو انھوں نے ایک موقع پر قریب سے گزرنے والے ادریس بیگ کو دیکھ کر یہ کہا تھا کہ ایک دن وہ انھیں بھی اسی طرح نہلا دیں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ادریس بیگ کو سبق سکھانے کے بارے میں وہ پہلے سے تیار تھے۔

ادریس بیگ کو کس طرح قابو کیا گیا؟

عشایئے کے بعد انگلش کھلاڑیوں نے ادریس بیگ کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے معذرت کر لی اور کہا کہ وہ اپنے ہوٹل واپس جانا پسند کریں گے۔ اور وہ قریب ہی واقع سروسز ہوٹل میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔

ادریس بیگ کے انکار کے بعد انگلش کھلاڑیوں کا ایک گروپ سروسز ہوٹل پہنچا اور انھیں زبردستی دبوچ کر تانگے میں بٹھا کر ڈینز ہوٹل لے آئے۔

پیٹر اوبون کی کتاب وونڈڈ ٹائیگر میں لکھا ہے کہ ادریس بیگ نے انگلش کھلاڑیوں کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

ادریس بیگ کو بلی سٹکلف کے کمرے میں لے جایا گیا اور انھیں ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا جس کے اوپر چھت کے ایک حصے میں پانی سے بھرے ہوئے برتن رکھے ہوئے تھے۔ایم سی سی کی تقریباً آدھی ٹیم اس وقت کمرے میں یہ تماشہ دیکھنے کے لیے موجود تھی۔

کپتان ڈونلڈ کار نے ادریس بیگ سے مے نوشی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ شراب نہیں پیتے، صرف پانی پیتے ہیں جس پر ڈونلڈ کار نے کہا کہ پانی حاضر ہے اور اسی کے ساتھ برتنوں سے پانی سیدھا ان پر گرا دیا گیا جس سے ان کے کپڑے گیلے ہو گئے۔ ادریس بیگ پر پانی پھینکنے والے برائن کلوز اور روئے سوئٹمین تھے۔

ایک پاکستانی کھلاڑی نے دیکھ لیا تھا کہ انگلش کرکٹرز ادریس بیگ کو زبردستی لے جارہے ہیں جس پر کچھ کھلاڑی انھیں تلاش کرتے ہوئے ڈینز ہوٹل بھی پہنچ گئے تھے۔

دوسری جانب ادریس بیگ نے انگلش کرکٹرز کے چنگل سے نکلنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری گروپ کیپٹن چیمہ اور کپتان عبدالحفیظ کاردار سے رابطہ کرکے ساری صورتحال بتائی۔

یہ بھی پڑھیے

جب فضل محمود کو چھٹی دینے کے احکامات براہ راست وزیراعظم ہاؤس سے آئے

کرکٹر رئیس محمد: ’بورڈ کے سیکریٹری نے کہا تین، تین بھائیوں کو ایک ساتھ نہیں کھلا سکتا‘

پاکستان کے75 برس: جب انڈین کرکٹ کپتان نے طنز کیا کہ ’پاکستانی ٹیم تو سکول کی ٹیم ہے‘

جب فاسٹ بولر کی گیند سے زخمی ہونے پر بلے بازوں سے پولیس نے رابطہ کیا!

ہم تو مذاق کر رہے تھے

کپتان عبدالحفیظ کاردار نے اس واقعے کو اس طرح بیان کیا: ’بورڈ کے سیکریٹری چیمہ ڈونلڈ کار سے بات کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ میں ڈونلڈ کار کو آکسفورڈ کے زمانے سےجانتا تھا لہذا میں ان کے کمرے میں گیا اور ان سے بات کرنی چاہی۔ لیکن ان کا رویہ تلخ تھا اور ان کا جواب تھا ’میرے منیجر سے بات کرو‘ جس پر میں نے ڈونلڈ کار سے کہا ’تم سے بھی بات ضروری ہے کیونکہ جو کچھ ہوا ہے اس میں تم بھی شریک ہو۔‘

پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان عبد الحفیظ کاردار

پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان عبد الحفیظ کاردار

ایم سی سی کے مینیجر جیفری ہاورڈ کے کمرے میں ہونے والی بات چیت میں ڈونلڈ کار یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے کہ یہ کوئی سنجیدہ معاملہ تھا۔

اس موقع پر ادریس بیگ کا مؤقف بھی سنا گیا جنھوں نے یہ دھمکی دے ڈالی کہ وہ ایم سی سی کے کھلاڑیوں کے خلاف مارپیٹ کا مقدمہ دائر کریں گے جس کے بعد صورتحال نے نیا رخ اختیار کر لیا۔

گروپ کیپٹن چیمہ نے اس موقع پر انگلینڈ کے کرکٹرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر اپنا سامان اٹھائیں اور وطن واپس جائیں۔`

مینیجر جیفری ہاورڈ کے لیے یہ لہجہ غیر متوقع تھا۔ انھوں نے چیمہ سے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ چیمہ کا جواب اس سے بھی زیادہ واضح تھا کہ اس طرح کی صورتحال میں یہ بالکل ممکن ہے۔

صبح تین بجے تک ہونے والی اس طویل گفت و شنید کے نتیجے میں انگلش کرکٹرز ادریس بیگ اور پاکستان کرکٹ بورڈ سے معافی مانگنے پر تیار ہو گئے۔ اس معافی نامے میں کپتان ڈونلڈ کار کا یہی کہنا تھا کہ ’یہ محض چھیڑ چھاڑ تھی۔‘

ایک انگلش صحافی اس واقعے کو دبانے کے حق میں تھے لیکن ان کے ہم وطن دوسرے صحافی نے اسے صحافتی بددیانتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کو رپورٹ ہونا چاہیے۔

اس واقعے پر پاکستان میں شدید ردعمل سامنے آیا۔ اخبارات نے ادریس بیگ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو نمایاں طور پر شائع کیا۔

پشاور کا میچ جب ایک دن آرام کے بعد دوبارہ شروع ہوا تو شائقین انگلش کرکٹرز کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور ٹیم کو گراؤنڈ سے ہوٹل پہنچانے کے لیے پولیس کی مدد لینی پڑی۔

اس واقعے کے بعد ذرائع ابلاغ میں ایم سی سی کی ٹیم کے کھلاڑیوں کی بدتمیزی کے مزید واقعات کی تفصیلات بھی منظر عام پر آئیں جن میں کراچی میں قیام کے دوران ہوٹل کے ملازمین کے ساتھ بدتمیزی اور ڈھاکہ کے ہوٹل میں مہمانوں پر سوڈا واٹر کی بارش کا واقعہ، جسے صرف یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا گیا کہ یہ محض شرارتیں ہیں۔

کمنٹیٹر اور صحافی عمر قریشی نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا تھا کہ اس دورے میں ایم سی سی کے کھلاڑیوں نے ایک ریلوے سٹیشن پر سٹیشن ماسٹر پر بھی پانی پھینکا تھا جبکہ ڈھاکہ میں بلی سٹکلف اور صحافی ران رابرٹس ایک رکشہ لے کر بھاگ گئے تھے جسے تباہ کر دیا گیا تھا۔

لارڈ الیگزینڈر کا سکندر مرزا سے رابطہ

اس معاملے کی سنگینی کو ایم سی سی کے صدر فیلڈ مارشل لارڈ الیگزینڈر نے محسوس کیا۔

انھوں نے ہی ایم سی سی کی ٹیم کو پاکستان کے دورے کے لیے بحری سفر پر الوداع کہتے ہوئے تمام کھلاڑیوں کو اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کی تھی۔

لارڈ الیگزینڈر نے ٹیم کے مینیجر کی رپورٹ کا انتظار کیے بغیر پاکستان کے گورنر جنرل سکندر مرزا کو پیغامات بھیجے جو اس زمانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی تھے۔

لارڈ الیگزینڈر نے ان سے فون پر بھی بات کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ایم سی سی کی ٹیم کو وطن واپس بلانے کے لیے بھی تیار ہیں تاہم سکندر مرزا دورہ جاری رکھنے کے حق میں تھے۔ یوں یہ دورہ بڑے تنازعے کا شکار ہونے سے بچ گیا۔

دورے کے اختتام پر انگلش کھلاڑیوں کو جواب طلبی کا سامنا کرنا پڑا لیکن ڈونلڈ کار کمیٹی کے سامنے بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ انھوں نے غلطی کی ہے بلکہ انھوں نے اسے ایک ایسا واقعہ قرار دیا جس میں مزاح کا پہلو نمایاں تھا۔

تاہم بعد میں انھوں نے دورے میں شامل ایک صحافی رونی ایرڈ سے بات کر کے واقعے کی تمام تر ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔

ایم سی سی نے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ سے بھی رابطہ کیا تھا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم ایم سی سی سے پہلے پاکستان کا دورہ کر کے گئی تھی۔ ایم سی سی نے پاکستان میں امپائرنگ کے بارے میں نیوزی لینڈ کی رائے جاننی چاہی تھی۔ اسے جو جواب ملا اس میں یہ بات واضح تھی کہ پاکستان میں تمام امپائرز بشمول ادریس بیگ غیر جانبدار تھے۔

ادریس بیگ کون تھے؟

مرز ادریس بیگ 1911 میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔وہ دائیں ہاتھ کے بیٹسمین اور تیز بولر تھے۔ ان کا فرسٹ کلاس کیریئر 10 سال پر محیط رہا لیکن اس عرصے میں وہ رانجی ٹرافی کے صرف سات فرسٹ کلاس میچ کھیل پائے جس میں گوالیار کے خلاف ایک سنچری شامل تھی۔ انھوں نے 23 وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔

انھوں نے کیریئر ختم ہونے کے بعد امپائر کی حیثیت میں کھیل سے اپنا تعلق قائم رکھا اور پاکستان کے نو ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کے فرائض سرانجام دیے۔

انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر کھیلے گئے اولین ٹیسٹ میں انھوں نے داؤد خان کے ساتھ امپائرنگ کی۔ یہ ٹیسٹ میچ جنوری 1954 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ڈھاکہ میں کھیلا گیا تھا۔

پشاور واقعے کے بعد ادریس بیگ پاکستان کے دورے پر آنے والی انگلینڈ کی کسی ٹیم کے خلاف ہوم سیریز میں امپائر مقرر نہ کیے گئے البتہ اس واقعے کے ایک سال بعد وہ انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستان ایگلٹس ٹیم کے مینیجر بنائے گئے تھے۔

ادریس بیگ 1975 تک امپائرنگ سے وابستہ رہے۔ وہ پی ڈبلیو ڈی میں سپورٹس آفیسر تھے جس کی کرکٹ ٹیم کو منظم کرنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔

وہ 30جولائی 1986 کو کراچی میں 75 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ادریس بیگ کے سات بیٹے ہیں۔ ایک آرمی سے میجر کے رینک پر ریٹائر ہوئے، ایک آرتھو پیڈک سرجن ہیں جبکہ پانچ بیٹے انجینئر ہیں۔

ان کے بیٹے مرزا سہیل بیگ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’والد صاحب ہمارے کرکٹر بننے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ کہتے تھے کہ کرکٹ میں کوئی مستقبل نہیں۔ وہ ہمیں ہمیشہ تعلیم کی تلقین کرتے تھے۔ ان کی شخصیت رعب دار تھی۔ ہر کرکٹر ان کی عزت کرتا تھا۔ ان کے دوستوں کا خاص حلقہ تھا جن کے ساتھ وہ شام کے وقت باقاعدگی سے برج کھیلا کرتے تھے۔`

ادریس بیگ برٹش آرمی میں بھی شامل ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ ان کی طبعیت خراب ہوئی تو ڈاکٹر نے انھیں 15روز کی چھٹی دے دی لیکن کرکٹ کا شوق حاوی آ گیا اور وہ رانجی ٹرافی کا میچ کھیلنے چلے گئے جس میں ان کی کارکردگی اچھی رہی اور اس کا ذکر اخبار میں آ گیا۔

جب وہ چھٹی گزار کر آرمی میں واپس گئے تو پتہ چلا کہ ان کا کورٹ مارشل ہو گا۔ ادریس بیگ کے والد مہاراجہ پٹیالہ کے یہاں کام کرتے تھے جن کی مداخلت کی وجہ سے وہ کورٹ مارشل سے تو بچ گئے لیکن انھیں فوج سے باہر کر دیا گیا تھا۔

پان کی ڈبیا اور چھالیہ کی پوٹلی

پاکستان کے سینئر امپائر محبوب شاہ کا ادریس بیگ سے بہت پرانا ساتھ رہا ہے۔

وہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ادریس بیگ دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ حاضر جواب تھے اور مزاح کی حس رکھتے تھے۔ میں نے کبھی انھیں ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ متعدد بار ان سے ایم سی سی کے کھلاڑیوں والے واقعے کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتے تھے اور گفتگو کا موضوع بدل دیا کرتے تھے۔`

محبوب شاہ کا کہنا ہے کہ ’ادریس بیگ خوش لباس تھے۔ وہ ہمیشہ اعلیٰ قسم کے لباس پہنا کرتے تھے۔ سخت گرمی میں بھی وہ سوٹ، ٹائی اور ہیٹ کے ساتھ نظر آتے تھے۔`

’چاندی کی ڈبیا اور پوٹلی ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی تھی۔ ڈبیا میں پان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوا کرتے تھے جبکہ پوٹلی میں چھالیہ، الائچی، لونگ اور تمباکو ہوا کرتا تھا۔`

’سب لوگ انھیں بیگ صاحب کی بجائے بھائی کہہ کر پکارتے تھے۔ ہر کوئی بھائی سے چھالیہ مانگتا تھا لیکن بھائی کا اصول یہ تھا کہ وہ جس شخص کو جتنا پسند کرتے تھے اس حساب سے اسے چھالیہ کے دانے پوٹلی میں سے نکال کر دیا کرتے تھے۔`


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments