یا استاد


‘ایہ میرا بھرا اے موتی شاہ,'( یہ میرا بھائی ہے موتی شاہ ) ڈاکٹر صاحب نے بڑے پیار سے کہا, ‘روڑی کٹدا اے. ‘(روڑی کوٹتا ہے) گاوندا بہت اچھا اے. ‘(گاتا بہت اچھا ہے ) ڈاکٹر صاحب نے بغیر کسی ہچکچاھٹ کے اپنے مزدور بھائی کو بڑے فخر سے مجھ سے ملوایا. موتی شاہ نے وہیں میز پر ٹھیکہ لگایا اور نہیات سریلی آواز میں ایک پنجابی گیت سنایا. موتی شاہ کی شخصیت میں بڑٰی ائتھنٹسٹی تھی, ایک سچائی جو میں نے شاید ہی کسی سوشلسٹ میں دیکھی ہو.
ایک دن مال روڈ پر ڈاکٹر صاحب کو ایک پولیس والے نے کسی بات پر روک لیا. پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ہیں. اس پر پولیس والے سمجھا وہ اس سے مذاق کر رہے ہیں لیکن چند ہی منٹوں کے بعد وہاں ٖڈاکٹر صاحب کے مداحوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا اور وہیں مال پر محفل جم گئی.
فرسٹ ائر میں جب میں اردو کی کلاس میں گیا تو دیکھا ہمارے استاد ایک بلندی پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں, یہ بشیرالرحمان تھے جن کا بڑا رعب تھا. انہوں نے کتاب سے کچھ پڑھنا شروع کیا. جوانی میں استادوں کو چھیڑنے میں مزہ آتا تھا چنانچہ ایک جگہ انہوں نے پڑھا, ‘اس نے رسی کا سرا پکڑا, ‘میں نے ہاتھ کھڑا کر دیا. بشیر صاحب نے غصہ سے مجھے گھورا اور گرجدار آواز میں بولے. ‘کیا بات ہے؟’
میں نے کہا, ‘سر لفظ سرا نہیں سرا ہے. سر کا مطلب راز ہے اور سر کا مطلب جہاں سے کسی چیز کی ابتدا ہوتی ہے, جیسے سرورق, اس لئے یہ رسی کا سرا ہو گا, سرا نہیں. ‘
‘کیا رول نمبر ہے؟
204 ‘
‘نکل جاؤ میری کلاس سے, انہوں نے غصے کہا اور حقے کی ناڑی کو مونہہ سے لگا لیا.
اب مجھے ایک اور کلاس میں بھیج دیا گیا, وہاں بھی یہی سلوک ہوا کہ استاد ‘مکرو زور’کو ‘مکر وزور’پڑھ رہے تھے, ایک دو کلاسوں کے بعد مجھے ایک ایسے استاد کے پاس بھیجا گیا جن سے غلطی کا ہونا ناممکن تھا. مرزا منور صاحب عربی فارسی کے عالم تھے. میں روز اس انتظار میں رہتا کہ مرزا صاحب کوئی غلطی کریں لیکن میری آرزو پوری نہ ہو تی, آخر ایک دن ان سے غلطی ہو ہی گئی, کہنے لگے میر نے کیا خوب کہا ہے. ‘قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو, کاش کہ تم مرے لئے ہوتے. ‘
میں نے ہاتھ کھڑا کر دیا. کلاس سہم گئی.
‘ہاں کیا بات ہے؟’
‘سر یہ شعر غالب کا ہے میر کا نہیں’
‘خاموش. بیٹھ جاؤ!’
‘تحقیق کر لیجیے گا.’میں نے بیٹھتے ہوئے کہا
مرزا صاحب نے ایک لمحہ سوچا اور کہا,
‘ٹھیک ہے, یہ شعر غالب کا ہی ہے’اور پھر طنزاً مجھ سے کہا. ‘بندہ پروری کا شکریہ’
‘بندہ کس قابل؟’میں نے بھی ذرا طنزاً کہہ دیا. مرزا صاحب کو تھوڑی دیر میں جب پتہ چلا کہ میں ‘بندہ’ان کو کہہ رہا ہوں تو غصے سے بولے,
‘کیا رول نمبر ہے؟ نکل جاؤ میری کلاس سے’

Prof. Muhammad Munawwar Mirza

مرزا صاحب کی کلاس سے بھی چھٹی ہو گئی تو مجھے قیوم نظر کی کلاس میں بھیج دیا گیا جو دوپہر دو بجے ہوتی تھی. اس کلاس میں بہت سے طالب علم ہوتے تھے. میں کلاس میں پچھلے بنچ پر سو جایا کرتا تھا. قیوم صاحب کو میں وہاں سے نظر نہیں آتا تھا. ایک دن انہوں نے مجھے سوتے ہوئے دیکھ لیا. قیوم صاحب اذیت رسائی کے ماہر تھے, چنانچہ خوش ہوئے کہ آج ایک شکار ہاتھ آیا ہے. مجھے حکم دیا کہ میں ساری کلاس کے سامنے آ کر کھڑا ہو جاؤں. وہ چاہتے تھے کہ مجھے ساری کلاس کے سامنے عبرت کا نمونہ بنایا جائے.
‘نظم اور نثر میں فرق بتاؤ’قیوم صاحب نے پوچھا.
‘سر نظم میں بحر ہوتی ہے اور نثر میں بحر نہیں ہوتی’
‘جو فرق میں نے بتایا ہے وہ بتاؤ’قیوم صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ میں ان کے لیکچر کے دوران سویا ہوا تھا.
میں نے کہا, ‘سر آپ نے کیا فرق بتایا ہے؟’
کہنے لگے میں نے جو بتایا ہے وہ تم اس لئے نہیں بتا سکتے کہ تم سوئے ہوئے تھے.
میں کہا ‘سر آخر آپ نے کیا بتایا ہے کیونکہ میرے خیال میں تو اس کے علاوہ کوئی اور فرق نہیں. ‘
‘میں نے بتایا تھا کہ نثر میں ہم کہتے ہیں “وہ آتا ہے” جبکہ نظم ہم “آتا ہے وہ” بھی کہہ سکتے ہیں. ‘
‘لیکن سر میرامن کی باغ وبہار میں تو یہ ہے, “آنا اس کا, جانا اس کا.” قیوم صاحب ایک فرسٹ ائر کے لڑکے سے یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ اس نے کچھ پڑھا لکھا ہو گا.
‘میں نے بتایا ہے تھا کہ نظم میں قافیہ ردیف ہوتا ہے اور نثرمیں نہیں’
‘مگر سر اپ غالب کے خطوط پڑھ لیں اس میں مقفع عبارات بھی ہیں یعنی قافیہ ردیف موجود ہے. سر آپ مان لیں نظم اور نثر کا بنیادی فرق یہی ہے کہ نظم میں وزن ہوتا ہے اور نثر میں وزن نہیں ہوتا.’
‘کیا رول نمبر ہے؟’قیوم صاحب نے بے بس ہو کر کہا. ‘نکل جاؤ میری کلاس سے,

qayyum nazar

اب میر ی قیوم صاحب کی کلاس سے بھی چھٹی ہو گئی, اس دن کے بعد میں کسی اردو کی کلاس میں نہیں گیا. جب داخلے کا وقت آیا تو میرا داخلہ روک لیا گیا اس لئے کہ دو برس میں میرے صرف چودہ لیکچر تھے. میں بہت پریشان ہوا, ڈاکٹر صاحب کو پتہ چلا تو ڈاکٹر صاحب نے اپنے پی اے کو بلا کر کہا, ‘اوئے کوئی بے ایمانی کرو تے سرمد دا داخلہ بھجواؤ! اینوں اردو زبان پڑھن دی کی لوڑ اے'( بھئی کوئی بے ایمانی کرو اور سرمد کا داخلہ بھجواؤ اسے اردو زبان پڑھنے کی کیا ضرورت ہے) میرا داخلہ چلا گیا اور میں اردو میں فیل بھی نہیں ہوا بلکہ بہت اچھے نمبروں سے پاس بھی ہو گیا. ڈاکٹر صاحب اگر وہ ‘بے ایمانی’نہ کرتے تو میرے دو سال ضائع ہو جانے تھے. ہمارا ایک دوست کالج کی ایک ادبی تنظیم کا سکرٹری تھا, وہ کوئی بل اپروو کروانے ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا. اس نے حساب کتاب میں گڑبڑ کی ہوئی تھی. یعنی بے ایمانی, ڈاکٹر صاحب نے اس سے صرف اتنا کہا. ‘بیٹا ربر تو کوئی اچھا سا استعمال کر لینا تھا. جاؤ اور بل ٹھیک بنوا کر لاؤ!’
ھم جب کینٹین میں ڈاکٹر صاحب سے گپ شپ لگاتے تو اس میں کبھی کبھار پروفیسر بھی شامل ہو جاتے. ایک دن ایک پروفیسر  نے جو باہر سے نیا نیا پڑھ کر آیا تھا ڈاکٹر صاحب کو مرعوب کرنے کے جتن میں انگریزی زبان میں بڑی بڑی جناتی اصطحلات استعمال کرتے ہوئے مارکسزم پر لیکچر سا دینا شروع کر دیا. ڈاکٹر صاحب خاموشی سے سنتے رہے اور جب اس نے اپنا لیکچر ختم کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا تو انہوں نے کنٹین کے بیرے کو آواز دیتے ہوئے کہا, ‘او یار ایہ دودھ تے ذرا گرم کر کے لیا'( او یار ذرا یہ دودھ تو گرم کر کے لاؤ) ڈاکٹر صاحب نے ایک ہی فقرے میں اس پروفیسر کی ساری گفتگو کا جواب دے دیا تھا. یعنی انگریزی کے مقابلے میں پنجابی, (ثقافتی مزاحمت / مداخلت / یاد دھانی ) بیرے کو ‘یار’کہہ کر بلانا (انسانی برابری) اور دودھ گرم کرنے کی بات کرنا نمائشی اور کتابی علم کے تکبر کو عام زندگی کی حقیقت سے دوچار کرنا تھا.

اس زمانے میں ٹی وی نیا نیا آیا تھا, لوگ نشریات سے پہلے ہی ٹی وی لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور بلینک سکرین دیکھتے رہتے تھے. کوئی ٹی وی پر آتا تو محلے والے کیا سارا شہر اس کو جان جاتا تھا, پان والا بھی کہتا ‘سر رات کو میں نے آپ کو ٹی وی پر دیکھا تھا.’ہمارے ایک دوست جو اس زمانے میں ٹی وی کراچی سے ایک کوئز پروگرام کرتے تھے لاہور تشریف لائے, وہ بہت رکھ رکھاؤ اور نستعلیق قسم کے دانشور تھے جو اپنی شہرت کو بڑی سنجیدگی سے لیتے تھے. ان کا خیال تھا کہ انہیں سب لوگ جانتے ہیں اور ان کی دانشوری کی دھاک سب پربیٹھ چکی ہے. انہوں نے مجھ سے سے کہا, ‘ہمیں یہاں کے دانشوروں سے ملوائیے گا.’میں انہیں ڈاکٹر صاحب کی طرف لے گیا. ڈاکٹر صاحب اس زمانے میں ایک ادبی انسٹی ٹیوٹ کے ہیڈ تھے. وہ اپنے آفس میں سٹول پر بیٹھتے تھے اور ان کی گھومنے والی افسرانہ کرسی ایک کونے میں پڑی رہتی تھی. اس دفتر میں ایک سکرین بھی تھی جو کمرے میں پردے کا کام دیتی تھی. جب ہم وہاں پہنچے تو میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا, میرے پیچھے اچکن میں جس کے بٹن گردن تک بند تھے وہ نستعلیق شخصیت اس امید کے ساتھ کھڑی تھی کہ ڈاکٹر صاحب ابھی اچھل کر اس کا استقبال کریں گے.

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سرمد صہبائی
Latest posts by سرمد صہبائی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments