یا استاد


مشکل وقت میں انسان یا تو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور یا پھر اپنے استاد کو. لیکن مجھے اپنے استاد کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ وہ میری زندگی کی سرگزشت کا حصہ ہے, میری ہڈ بیتی ہے. میں اسے نہ بھی یاد کروں تو وہ مجھے یاد رہتا ہے. یہ ان استادوں میں سے نہیں جو ہمیں کلاس روم میں درسی کتابیں پڑھاتے ہیں, یہ وہ استاد ہے جو ہمیں زندگی کرنا سکھاتا ہے. میری اس عظیم استاد سے پہلی ملاقات کالج کی کنٹین میں ہوئی.
گورنمٹ کالج لاہور میں پہلے ہی دن مجھے خبردار کر دیا گیا تھا کہ میں سینئر لڑکوں سے ہشیار رہوں کیونکہ یہ فرسٹ ائر کے لڑکوں کو خوب بے وقوف بناتے ہیں. ان سے پوچھو کہ فیس کہاں جمع کروانی ہے تو یہ تمہیں کالج کی لیٹرین میں بھیج دیں گے. اگر پوچھو انفارمیشن کاؤنٹر کہاں ہے تو یہ تمہیں گرلز روم کا رستہ دکھائیں گے جہاں لڑکیاں مل کرتمہاری اچھی خاصی درگت بنائیں گی. اتفاق سے اسی دن کالج کی یونین کی طرف سے تین بجے ایک سیمینار ہو رہا تھا. میں نے اوول گراؤنڈ میں بیٹھ کرایک تقریر لکھی ڈالی لیکن جب ہال میں اپنا نام لکھوانے گیا تو پتہ چلا یونین کے فنکشن میں فرسٹ ائر کے طالب علموں کو حصہ لینے کی اجازت نہیں. سخت مایوسی ہوئی لیکن پھر پتہ چلا کہ یونین کا سکرٹری ہارون کیانی ہے, ہارون جسٹس ایم آر کیانی کا بیٹا تھا اور کیانی صاحب میرے والد کے بہت اچھے دوستوں میں سے تھے. میں نے فوراً ہارون کو والد صاحب کا نام بتایا. اس نے کہا اگر وقت بچا تو تمہیں پانچ منٹ دے دیے جائیں گے. پانچ منٹ بچ گئے اور میں نے جو لکھا تھا دھڑلے سے پڑھ دیا. اس سیمنار میں بڑے سینئر مقرر شامل تھے, علی کاظم, امتیاز جاوید, طارق علی, ارشاد کاظمی اور خالد جاوید. پتہ نہیں منصفین کو میری کیا بات پسند آئی کہ انہوں نے مجھے پہلا انعام دے دیا. اب ایک طرف تو مجھے اس ‘انہونے’انعام پر خوشی ہو رہی تھی لیکن دوسری طرف یہ دھڑکا بھی لگا ہوا تھا کہ یہ سینئر لوگ اب پتہ نہیں مجھ سے کیسا سلوک کریں گے. میں ڈرتے ڈرتے ہال سے باہر نکلا تو سامنے یہی سینئر کھڑے تھے. اس سے پہلے کہ میں واپس مڑ جاتا انہوں نے مجھے دیکھتے ہی ‘مبارک مبارک’کے نعرے لگائے اور بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا, ‘چلو اب تم ہمیں کینٹین میں چائے اور سموسے کھلاؤ.’پہلے تو میں نے سمجھا یہ مجھے فرسٹ ائر فول بنانے کی کوئی چال ہے لیکن جب چائے کا دور شروع ہوا تو ان سے کچھ ایسی بے تکلفی ہوئی کہ لگا وہ سب برسوں سے میرے دوست ہیں.
گورنمنٹ کالج میں داخلہ ملنے کا مطلب ایک مہذب دنیا میں داخل ہونا تھا اور مہذب دنیا کا مطلب انگریزی تہذیب تھا. تقریباً سبھی لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے انگریزی بولتے اور انگریزوں کے سٹائل میں آٹھتے بیٹھتے. لڑکیوں میں کوئی ایوا گارڈنر تھی تو کوئی سوزن ہیورڈ, لڑکوں میں ایلوس پرسلے, گریگری پیک اور راک ہڈسن. دوسرے دن جب میں اپنے انہیں سینئر دوستوں کے ساتھ کینٹین میں بیٹھا گورنمنٹ کالج کی ‘کلونیل گلوری’colonial glory سے مسحور ہو رہا تھا تو دیکھا یک دم میرے گرد بیٹھے سب سینیئرز ایک ایک کر کے کھسک گئے ہیں اور ایک لمبے بالوں والا شخص نیکرپہنے میرے سامنے کھڑا ہے.
‘اوئے کاکا تیری تے اندرے کلاس ہو رہی اے تے توں ایتھے بیٹھا چاء پی رہیا ایں؟’. (بیٹا تیری تو اندر کلاس ہو رہی ہے اور تو یہاں بیٹھا چائے پی رہا ہے؟)

یہ کون ہے جو مجھ سے اتنی بے تکلفی سے بات کر رہا ہے اور وہ بھی پنجابی میں. میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں اس سے کیا کہوں لیکن اس کی شخصیت میں اس قدر دلکشی اور اپنائیت تھی کہ میں کچھ کہے بغیر خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑا. اس نے میرا بازو پکڑا اور مجھے کلاس میں لے گیا. وہاں بھی اسی بے تکلفی سے اس نے پروفیسر سے کہا.

” لو بھئی تسی تے ایتھے کلاس پڑھا رہئے او تے تہاڈا منڈا باہر چاء پی رہیا اے. ‘(لو جی آپ تو ادھر کلاس پڑھا رہے ہیں اور آپ کا شاگرد باہر بیٹھا چائے پی رہا ہے ) میں حیران پریشان, انگریزوں کے کالج میں انگریزی کے پروفیسر کے ساتھ بھی علی الاعلان پنجابی اور ایسی ہی بے تکلفی.
‘یار یہ بندہ کون تھا؟’میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے سے پوچھا
‘یہ ڈاکٹر نذیر ہیں کالج کے پرنسپل’
‘پرنسپل؟’
‘ہاں’


دوسرے دن میں نے یہ واقعہ اپنے سینئر دوستوں کو سنایا تو انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب جب راونڈ پر آتے ہیں تو بھاگ جایا کرو. چنانچہ میں نے جونہی ڈاکٹر صاحب کو آتے دیکھا تو جلدی سے کھسکنے کی کوشش کی لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ مجھے بھاگنا کس طرف ہے.
‘اوئے کاکا ٹھہر جا’. مجھے یک دم ڈاکٹر صاحب کی آواز آئی. وہ میرے پیچھے بھاگ رہے تھے, میں شرمندگی سے رک گیا.
‘چل یار اج میں تینوں چاء پیانا آں. ‘( چل یار آج میں تمہیں چائے پلاتا ہوں ) ڈاکٹر صاحب مجھے اپنے گھر لے گئے جو کالج کی بلڈنگ کے اندر ہی تھا. ان کے ڈرائینگ روم میں کوئی کرسی یا صوفہ سیٹ نہیں تھا, بس چند پیڑھیاں پڑی تھیں. ڈاکٹر صاحب دوسرے کمرے سے ایک بڑا چائے کا گول ڈبا لے کر آئے. ‘ایہ, چاء مینوں بلراج ساہنی نے بمبئے توں بھیجی اے'(یہ چائے بلراج ساہنی نے مجھے بمبئی سے بھیجی ہے) یہ کہہ کر باورچی خانے میں غائب ہو گئے. بلراج ساہنی بھارت کا مشہور اداکار تھا. میں نے اس کی دو فلمیں دیکھ رکھی تھیں, کابلی والا اور ہم لوگ. تھوڑی دیر بعد خود ہی چائے لے کر آئے اور میرے ساتھ پیڑھی پر بیٹھ گئے. چائے واقعی بہت مزے کی تھی. ہم دونوں ان پیڑھیوں پر بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتے رہے, شاعری پر, موسیقی پر. اسی دوران کہیں ڈاکٹر صاحب کی باتوں میں گورنمنٹ کالج کی ‘کلونیل گلوری’چائے کی بھاپ میں بھک سے اڑ گئی تھی.

ڈاکٹر صاحب بلراج ساہنی کے ہمراہ

ڈاکٹر صاحب کی دوستی نے مجھ پرادب اور کلچر کے ہزار دروازے کھول دیے تھے. اب ہم ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں بغیر اجازت چلے جاتے, وہ کبھی ہمیں صوفی تبسم سے ملواتے تو کبھی استاد دامن سے. ڈاکٹر صاحب کی بیٹھک میں اور پھر گورنمنٹ کالج کی میوزک سوسائٹی کی محفلوں میں ہم نے بڑے بڑے مو سیقاروں کو سنا, استاد فتح علی خان, امانت علی خان, استاد سلامت علی خان, نزاکت علی خان, روشن آراء بیگم اور استاد شریف خان پونچھ والے. ڈاکٹر صاحب کبھی ہمارے ساتھ کالج کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر گپ لگاتے اور کبھی کالج کی کنٹین میں. وہ سارا دن ایک درویش کی طرح کالج کے چاروں طرف پھرتے رہتے. ہم لاہور میں رہتے تھے, لیکن ہمیں اس بات کی بالکل کوئی خبر نہیں تھی کہ ہم شاہ حسین کے شہر میں رہتے ہیں اور شاہ حسین روز ہمیں ڈاکٹر نذیر کے روپ میں ملنے آتا ہے.
شاہ حسین فقیر اے, نہ آکھو کوئی پیر اے
ڈاکٹر صاحب سوائے کسی سرکاری تقریب کے کبھی سوٹ ٹائی نہ پہنتے, ہمیشہ اپنے سفید کرتے شلوار میں نظر آتے یا کبھی فلیٹ بوٹ, نیکر اور بنیان میں اوول گراؤنڈ میں لڑکو ں کے ساتھ ریس لگاتے دکھائی دیتے, کبھی کسی مالی کے ساتھ لان میں گھاس پر بیٹھے پھولوں کی کیاریوں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوتے اور کبھی کالج کے پچھواڑے میں چنگڑ محلے کے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے. وہ زیادہ پیدل ہی چلتے اور کبھی کہیں دور جانا ہوتا تو سائیکل پر جاتے. انہیں کسی طالب علم کی بیماری کی خبر ملتی تو سائیکل پکڑ کر اس کے گھر اس کی عیادت کو پہنچ جاتے. ان کی دوستیاں ملک کے سبھی بڑے شاعروں, ادیبوں, دانشوروں اور موسیقاروں سے تھیں. انہیں کسی نے کبھی بھی اپنی کسی بات پر کسی قسم کی سفید پوشی کا بھرم رکھتے نہیں دیکھا تھا. میں ایک دن ان کے کمرے میں گیا تو وہاں ایک بڑا بارعب آدمی سرخی مائل کھدر کا دھوتی کرتا پہنے سر پر پگڑی باندھے بیٹھا تھا. کھدر کا یہ رنگ میں نے اکثر فیشن ایبل اور متمول مارکسسٹوں کو پہنے ہوئے دیکھا تھا. اس کا لباس دھول سے اٹا ہوا تھا. اس کے چہرے کا رنگ سانولا, ڈاڑھی مونچھ گھنی اور آنکھوں میں ایک صوفیانہ خمار تھا.

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سرمد صہبائی
Latest posts by سرمد صہبائی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments