سیلاب کے مارے اب اپنوں کی بے رخی سے مر رہے ہیں!


سیلاب کے مارے اپنوں کی بے رخی سے مر رہے ہیں۔ این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے میں سیلاب سے مزید 7 افراد جان کی بازی ہار گئے اور ملک بھر میں اب تک جاں بحق افراد کی تعداد ایک ہزار 576 ہو چکی ہے۔ سیلاب اور بارشوں کے باعث 392 پل اور 13 ہزار 93 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئی ہیں جبکہ 24 گھنٹے میں ایک لاکھ 17 ہزار مویشی مر گئے ہیں، سیلاب کے باعث اب تک 10 لاکھ 17 ہزار 423 مویشی مر چکے ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی سفیر انجلینا جولی نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور اس میں انہوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کے حالات رکھتے ہوئے کہا کہ دنیا کو پاکستان میں ہونے والی تباہی کا اندازہ نہیں ہے۔

اگر آنے والے دنوں میں پاکستان کی مدد نہ کی گئی تو جو پیچھے بچ گئے ہیں وہ بھی نہیں بچیں گے۔ ادھر امریکا کے صدر جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں دنیا سے پاکستان کی مدد کرنے کی اپیل کی ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے نیو یارک میں زوم سیشن سے خطاب میں کہا کہ پاکستان اپنے وسائل سے اس نقصان کو پورا نہیں کر سکتے، اسے دنیا کی مدد درکار ہے۔ سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے دنیا پاکستان کی مدد کر آ رہی ہے، لیکن امداد جا کہاں رہی ہے اور مل کسے رہی ہے۔

اس پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت شازیہ مری کہتی ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اکاؤنٹس ہیک کر کے رقم چوری کر لی گئی ہے۔ یہ صورتحال متاثرین کی پریشانی میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے اور ان کے حوصلے مزید پسند کر رہے ہیں۔ ہمارے اپنے، اپنوں کے احساس کی بھیک مانگ رہے ہیں، نہ سر پر سائبان ہے، نہ پیروں تلے مناسب زمین۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ پیٹ بھر نے کے لئے من و سلوٰی تو دور۔

دو وقت کے لئے دو لقمے تک میسر نہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں زندگی تھم گئی ہے، دکھ اتنے ہیں کہ سننے کے لئے ہزاروں کان بھی کم پڑیں، اور درد ایسا کہ دنیا کی کسی دوا سے شفاء نہ ملے۔ سیلاب نے جہاں املاک تباہ کیے وہیں زندگی بھی مفلوج کر دی ہے۔ سیلابی پانی کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے جان لیوا بیماریاں پھیل چکی ہیں۔ جن میں گیسٹرو، ملیریا، ڈینگی اور بہت سی پیچیدہ جلدی امراض شامل ہیں۔ جن کی وجہ سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی بے حد متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سب تو ایک طرف لیکن ہمارے لئے یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے کہ دنیا کا مستقبل میں کیا لائحہ عمل ہو گا؟ کیا موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لئے کوئی قانون بنائیں جائیں گے؟ یا ان تبدیلیوں کا خمیازہ اسی طرح انسانی املاک اور جان کے عوض ادا کرنا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments