”رنگ ہی رنگ، سب رنگ“


سب رنگ ڈائجسٹ وہ رسالہ جس نے عشروں سے لوگوں کو گرویدہ بلکہ دیوانہ بنا رکھا ہے۔ یہ ایسا بے مثال جریدہ تھا کہ اس میں دنیا بھر کا بہترین فکشن شائع ہوا جس کو باذوق قارئین اب بھی پڑھنا چاہتے ہیں لیکن اب سب رنگ کے پرانے شمارے ملنا قریب قریب ناممکن ہے۔ خوش قسمتی سے اب اس بہترین ذخیرے کو وقت کی دست برد سے بچانے کے لیے کتابی سلسلے کی صورت میں محفوظ کیا جا رہا ہے۔ جسے ”سب رنگ کہانیاں“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کتابی سلسلہ بہت کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور حالیہ دنوں میں اس سلسلے کی پانچویں کڑی یعنی ”سب رنگ کہانیاں“ کی پانچویں جلد شائع ہوئی ہے۔

یہ سلسلہ 6 کتب بے مثال عاشق سب رنگ جنھیں سبھی جانتے ہیں یعنی حسن رضا گوندل کا کارنامہ ہے۔ شیریں فرہاد کے قصے میں فرہاد کے پہاڑ کھود کے دودھ کی نہر نکالنے کا ذکر ہے۔ حسن رضا گوندل کا تالیف کردہ شاہکار ”سب رنگ کہانیاں“ دیکھ کر فرہاد کی ان کاوشوں کا خیال آتا ہے جو اس نے شیریں کی خاطر پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر نکالنے کے لیے کیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے حسن رضا گوندل فرہاد کا نیا جنم ہے۔ سب رنگ کے اس عاشق صادق نے بھی اپنے سچے اور بے لوث عشق کے بل پر پہاڑ کاٹنے جیسا بڑا کام کیا ہے۔

سب رنگ کے اجرا 6 کو پانچ عشروں سے زائد کا وقت ہو گیا ہے۔ پھر اس کی اشاعت بھی قریب ڈیڑھ عشرے سے موقوف ہے۔ اس صورت حال میں کوئی اور ڈائجسٹ ہوتا تو کب کا فراموش کیا جا چکا ہوتا لیکن سب رنگ کے ساتھ ایسا نہ ہوا اور سب رنگ ڈائجسٹ کی مقبولیت آج بھی اولین دنوں جیسی ہے بلکہ اس میں روز افزوں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

تراجم کا ہر زبان کے ادب میں خاص مقام ہوتا ہے۔ صرف علاقائی ادب ہی پڑھنے والے کے ذوق کی تسکین نہیں کر سکتا۔ ہر وہ شخص جو مطالعے کا حقیقی ذوق رکھتا ہے وہ دیگر زبانوں کے ادب کا مطالعہ بھی ضرور کرنا چاہتا ہے۔ اب تو نیٹ کی بدولت اس قدر سہولیات ہیں کہ جب دل چاہے من پسند کتاب ڈاوٴن لوڈ کر کے یا پی ڈی ایف کی صورت میں پڑھی جا سکتی ہے لیکن آج سے نصف صدی قبل یہ آسانیاں نہیں تھیں کہ صرف ایک کلک سے آپ گھر بیٹھے دنیا بھر کے ادب کے تراجم پڑھ سکیں۔

ہو سکتا ہے کہ سب رنگ ترتیب دیتے وقت شکیل عادل زادہ کے ذہن میں بھی یہ ہی بات ہو کہ اچھے ادبی ذوق کے حامل قارئین جو مقامی ادب کے علاوہ دیگر زبانوں کے ادب سے بھی لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں ان تک بہترین غیر ملکی ادب ضرور پہنچنا چاہیے۔ اس زمانے میں جب کہ ڈائجسٹوں کو وجود میں آئے ہوئے بہت زیادہ وقت نہیں ہوا۔ رسالے تو پہلے بھی شائع ہوتے تھے لیکن ان کی وضع و ترتیب اس طرح کی نہیں تھی جیسی اب ہے۔ ان رسالوں کے مدیران عموماً کوشش کرتے تھے کہ ان رسالوں میں ادبی رنگ واضح طور پر نظر آئے اگرچہ اس دور میں بھی ادب کے سمندر میں وقتاً فوقتاً جدت اور جدیدیت کے جوار بھاٹے اٹھا کرتے تھے اور ترقی پسند تحریک کا اثر تو بہت دیر تلک رہا لیکن گزرتا ہوا وقت ہمیشہ اپنے ساتھ تبدیلیاں لاتا ہے چناں چہ رسالوں سے بھی خالص ادبی رنگ کم ہونا شروع ہوا۔

قیام پاکستان کے قریب سوا عشرے بعد اردو ڈائجسٹ سامنے آیا۔ یہ دنیا بھر میں مقبول اور سب سے زیادہ پڑھے جانے والے جریدے ریڈرز ڈائجسٹ کی طرز پہ شائع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سیارہ ڈائجسٹ اور پھر عالمی جو پہلے انشا 6 ہوا کرتا تھا، آیا۔ یعنی ریڈرز ڈائجسٹ کے طرز کے رسالوں کو عوام سے اتنی پذیرائی ملی کہ رفتہ رفتہ ڈائجسٹوں کی موجودہ صورت رواج پا گئی۔

تبھی جنوری انیس سو ستر کی ایک صبح بک اسٹالز پر لوگوں کو ایک نیا ڈائجسٹ نظر آیا جس کا نام ”سب رنگ ڈائجسٹ“ تھا۔ اس نئے ڈائجسٹ کے انداز بہت نرالے تھے اور تیور بہت تیکھے تھے۔ چھب اتنی انوکھی اور دل کش تھی کہ جس نے ایک بار پڑھا وہ بس اسی کا اسیر ہوکے رہ گیا۔ سب رنگ کے قارئین آج بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ جب انھوں نے سب رنگ پڑھا اس کے بعد سے انھیں کسی اور ڈائجسٹ میں وہ لطف نہیں آیا جو سب رنگ میں تھا۔

بات یہ تھی کہ سب رنگ میں شاہکار کہانیاں شائع ہوتی تھیں اور ایسی کہانیاں باذوق قارئین کو ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔ کہانی اور قاری کا یہ ہی رشتہ تھا جو سب رنگ نے جوڑا تھا اور ایسا جوڑا تھا کہ نصف صدی بعد بھی وہ ٹوٹ نہیں پایا ہے۔ غالباً یہ ہی وجہ ہے کہ سب رنگ کہانیاں کے کتابی سلسلے کی ہر جلد کو اتنی پذیرائی ملی۔ ٹالسٹائی، موپاساں، ہنری سلاسر وغیرہ جیسے شان دار لکھنے والوں کی کہانیاں بھلا پڑھنے والوں کو کیوں اپنا اسیر نہیں کریں گی۔

سب رنگ کہانیاں کے موٴلف ایک بات کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں کہ ”سب رنگ کہانیاں“ کی ہر جلد میں شامل کی جانے والی کہانیاں اپنے ذائقے اور مزاج کے لحاظ سے انفرادیت کی حامل ہوں چناں چہ جلد پانچ میں اس روایت کو برقرار رکھا گیا۔ اس جلد کی پہلی کہانی توثیق جو ونسٹن گراہم کی تخلیق اور راجپوت اقبال احمد کا ترجمہ ہے، انسان کے منتقم مزاج ہونے کو نمایاں کرتی ہے تو بائزخ بوئل کی کہانی تاحکم ثانی جس کا ترجمہ تصدیق سہاروی نے کیا تھا، آمرانہ طرز حکومت کے ناروا جابرانہ احکامات پہ ایک خوب صورت طنز ہے جسے علامتی اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔

اسے پڑھ کے ہنسے تو ہنسے کیوں اور روئے تو روئے کیوں والی ضرب المثل ذہن میں آجاتی ہے۔ پھر اسٹیفن وپسی لک کی کہانی جس کا ترجمہ جاوید مرتضیٰ نے گرانی الاوٴنس کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ بھی بہت پرلطف کہانی ہے مصنف نے اپنے ان کرداروں یعنی مورلے اور باکوف پر کئی کہانیاں لکھیں جو قارئین میں بہت پسند کی گئیں۔ اسی طرح اگر ہنری سلاسر، ژاں پال سارتر، او ہنری اور موپاساں کی کہانیوں کا ذکر نہ کروں تو تحریر تشنہ رہ جائے گی۔ یہ میرے پسندیدہ مصنفین ہیں۔ یہ رنگارنگ اور دل چسپ کہانیاں جو سب رنگ ڈائجسٹ میں شائع ہوئی تھیں، اب ”سب رنگ کہانیاں“ میں مل جائیں گی۔

سب رنگ کی تحریریں شان دار ہوتی تھیں کیوں کہ اس میں اشاعت کے لیے ٹالسٹائی، چیخوف، موپاساں، سمرسٹ مام، آرتھر کانن ڈائل، جیفری آرچر، او ہنری، سی بی گلفورڈ، ہنری سلاسر جیسے بہترین رائٹرز کی کہانیاں منتخب کی جاتی تھیں لیکن ان بڑے ناموں کے علاوہ غیر معروف مصنفین کی تحریریں بھی سب رنگ کا حصہ بنتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سب رنگ میں بڑے ناموں کو نہیں بلکہ معیار کو اہمیت دی جاتی تھی۔ ان کہانیوں کے مترجم بھی اعلیٰ پائے کے لکھنے والے تھے جن کا کام سب رنگ کے معیار پہ پورا اترتا تھا۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پڑھنے میں ترجمہ وہ لطف نہیں دیتا جو اصل کہانی پڑھنے میں آتا ہے لیکن سب رنگ میں شائع ہونے والی مغربی کہانیوں کے تراجم لاجواب ہیں۔ مثال کے طور پہ ابن انشا، ش م جمیل، حسن ہاشمی، اقبال پاریکھ، اظہر کلیم، احمد صغیر صدیقی، سلیم انور، اخلاق احمد، فیاض الرحمان قادری، راجپوت اقبال احمد اور ایسے دیگر کئی باکمال لوگوں نے سب رنگ کے لیے تراجم کیے اور کیا ہی خوب تراجم کیے۔

حسن رضا گوندل کا یہ کام نہایت ہی قابل تحسین ہے کہ ان بے مثال کہانیوں کو گزرتے وقت کے نہاں خانوں میں دب کر قصہ 6 پارینہ بننے سے بچا لیا اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی محفوظ کر لیا۔ یہ لازوال تحریریں اس خوب صورت کتابی سلسلے کی صورت میں اب ہر باذوق قاری کی پہنچ میں ہیں۔ اردو ادب پہ حسن رضا گوندل کا یہ ایسا احسان ہے کہ کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ امید ہے کہ ”سب رنگ کہانیاں“ کے سلسلے کی مزید کتابیں بھی جلد شائع ہو کر ادب کے باذوق قارئین کی تسکین کا باعث ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments