بیانیہ تبدیل نہیں ہوا


ہر نسل کے وقفہ حیات میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے جسے خاموش خود کلامی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے خیالات جو احاطہ سماعت میں آ بھی جائیں تو گوش سماعت نہیں ملتا۔ جن سے مکالمہ ممکن تھا، ان کے تودہ ہائے خاک پر گھاس اگ آئی ہے۔ نئی دنیا کے اپنے رنگ، اپنے اطوار اور اپنے خواب ہوتے ہیں۔ اقبال گیانی تھے۔ ”آتش رفتہ کے سراغ“ اور ”کھوئے ہوؤں کی جستجو“ کے رموز سمجھتے تھے لیکن انہیں بھی اکتوبر 1937 میں سکندر جناح پیکٹ کا صدمہ اٹھانا پڑ گیا تھا۔ سکندر جناح پیکٹ بھی ہماری تاریخ کا طرفہ باب ہے۔ اس نام نہاد پیکٹ یا میثاق پر تو قائد اعظم نے دستخط تک نہیں کیے۔ سکندر حیات کے ایک بیان کو سول اینڈ ملٹری گزٹ کے نامہ نگار اور سرکار دربار کے مستند ہرکارے میر نور احمد نے ”سکندر جناح پیکٹ“ کا عنوان عطا کر دیا۔ عقبی دروازے سے یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے غیرواضح اتحاد سے شمال مغربی ہندوستان میں ریاستی اشارے پر سیاسی قبلہ نمائی کی ایسی روایت شروع ہوئی جو پاکستان میں آج بھی زندہ ہے۔ آج خیال تھا کہ شعر و ادب پر بات کریں گے مگر قلم بھٹک کر کوچہ سیاست میں جا نکلتا ہے۔ آج کل وزیر اعظم سے لے کر چھوٹے بڑے ناصحان ملت سیلاب اور معاشی بحران وغیرہ کی آڑ میں فرماتے ہیں کہ یہ وقت سیاست کا نہیں۔ گویا سیاست نہ ہوئی، پکنک ہو گئی۔ اگر سیاست کو تج کر ملکی مسائل اور عوام کی مشکلات دور کی جا سکتی ہیں تو سیاست کا بکھیڑا پالنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

آج لاہور کے آسمان پر غبار آلود سی فضا طاری ہے۔ خدا معلوم یہ بادل ہیں یا فضائی آلودگی کی چادر۔ ایسے میں سیف الدین سیف یاد آئے۔ سیف صاحب امرتسر کی مٹی تھے اور اس مٹی کی خوشبو ان کی ذات کا حصہ تھی۔ غزل ایسی سبک گویا ڈھاکے کی ململ ہو لیکن منٹو اور ظہیر کاشمیری کی طرح اقتدار اور اختیار کے بتان سنگی سے پنجہ آزما ہونے سے شغف تھا۔ گداز دلی کا ایک نمونہ دیکھئے۔ پھر پلٹ کر نگہ نہیں آئی / تجھ پہ قربان ہو گئی ہو گی۔ اب دوسرا رنگ ملاحظہ فرمائیں۔ دیکھا تو پھر وہیں تھے چلے تھے جہاں سے ہم/ کشتی کے ساتھ ساتھ کنارے چلے گئے۔ مصرع ثانی کا مضمون تو یگانہ نے بھی باندھ رکھا ہے۔ یہ کنارا چلا کہ نائو چلی۔ شعر کی خواب آگیں دنیا سے نکل کر دیکھئے کہ ملک میں کیا کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ تین کروڑ سے زیادہ عوام پر ٹوٹنے والی ابتلا کے ابتدائی مرحلے میں مشرقی ہمسائے سے مدد کی خبر نکلی۔ تاہم کسی کی طبع نازک نے اسے پذیرائی نہیں بخشی۔ یوں بھی اگر ہم یورپ، امریکا اور خلیجی ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں تو بھارت سے مدد کی کیا ضرورت ہے۔ ادھر مغربی سرحد پر درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ سوات کے پہاڑوں پر دنبوں کا قلیہ اڑانے والے نقاب پوش تو جولائی کے آخری ہفتے میں ادھر ادھر ہو گئے لیکن انتہائی مغربی خطے وزیرستان سے اچھی خبریں نہیں آ رہیں۔ آئے روز دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں۔ فوجی جوان شہید ہو رہے ہیں۔ بھتے کی پرچیاں بٹ رہی ہیں۔ اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جرگہ نما مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ ایک اہم خبر یہ ہے کہ 2016 سے خاموش ایک فرقہ پرست جماعت نے انتہائی اشتعال انگیز بیان کے ذریعے دوبارہ سرگرم ہونے کا اعلان کیا ہے۔ آپ خوب جانتے ہیں کہ اس نوع کے نمونوں کی نمود اور ملک میں سیاسی عدم استحکام میں کیا تعلق پایا جاتا ہے۔ 2018 میں خواجہ سرا شہریوں کے تحفظ کے لیے منظور ہونے والے قانون پر جمی مٹی جھاڑ کر دھول اڑائی جا رہی ہے۔ ماضی میں ان معاملات پر سول سوسائٹی آواز اٹھایا کرتی تھی۔ خانہ برباد نے مدت ہوئی گھر چھوڑ دیا۔ عوامی تائید کی امید ہو تو سیاسی قیادت بھی ہمت پکڑتی ہے۔ ادھر کا عالم یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سعید غنی اور مسلم لیگ کے جاوید لطیف جیسے معتدل سیاستدان تک مذہبی بیانیے پر ہاتھ سینک رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے زہد و ارتقا کی گواہی تو صوبائی اسمبلی کے در و دیوار پر کندہ ہے۔ مذہبی اصطلاحات کے صحیح تلفظ سے ناآشنا عمران خان شرک اور حق و باطل کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔

 اس ملک کی تاریخ میں مذہبی اشتعال انگیزی اور سیاسی سانحات ساتھ ساتھ چلے ہیں۔ مذہبی اشتعال جمہوریت دشمن شعبدہ بازوں کا آزمودہ ہتھیار ہے۔ دسمبر 2016 میں منظور ہونے والا نیشنل ایکشن پلان داخل دفتر ہو چکا۔ ہم نے وہ بیانیہ ختم نہیں کیا جس کے کانٹے اس ملک کے ستر ہزار شہریوں، سات ہزار فوجی جوانوں اور آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو پھولوں میں پیوست ہوئے۔ مذہبی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا لہو مٹی میں جذب ہو چکا۔ نصاب تعلیم بھی وہی ہے۔ رنگ صحافت اور طرز سیاست بھی وہی ہیں۔ معاشرت کے ڈھنگ بھی نہیں بدلے۔ اقلیتیں بدستور اجتماعی زندگی کے حاشیے پر ہیں۔ دہشت گرد واقعات کی مذمت ہم کل بھی کر رہے تھے، آج بھی ہمیں اس میں عار نہیں۔ دہشت گردی کی نظری بنیادوں اور فکری زاویوں کی مزاحمت کا حوصلہ ہم میں کل بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں۔ سامنے کی ایک حقیقت سمجھ لیجیے۔ ہمارے خلاف عزائم رکھنے والی کسی بیرونی طاقت کو ہماری زمین پر کبھی منظم حمایت نہیں مل سکی لیکن مغربی سرحد پر پختون قوم پرستی کی لکیر دھندلی ہے اور مذہب کے نام پر سیاسی بندوبست کے حامی ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف موجود ہیں۔ پاک بھارت مخاصمت ہماری قومی یکجہتی میں ممد رہی ہے لیکن مغربی سرحد پر انتشار ہمارے گلی کوچوں تک آ پہنچے گا۔ حالیہ مہلت کے دوران ہمارے فیصلہ سازوں نے ایسے گروہوں کی بھی آبیاری کر دی ہے جو کالعدم طالبان سے مسلکی اختلاف رکھتے تھے۔ پاکستان سیاسی اور معاشی خلجان کا شکار ہو سکتا ہے لیکن مذہبی بیانیے کے حامی ہمارے دستور کی مخالفت میں یکسو ہیں۔ ملال یہ ہے کہ ہم اپنا بیانیہ کیسے تبدیل کریں، ہم میں تو اس کی مخالفت کا بھی حوصلہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments