ٹرانسجینڈر ایکٹ


انسان کو خدا نے پیدا کیا۔ اپنے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے لیے دین اسلام اتارا۔ مرد اور عورت کے علاوہ خواجہ سراؤں کو خدا تیسری جنس کے ساتھ پیدا کرتا ہے۔ پہلی دو جنسوں والے مسلمان مرد اور عورت کہتے ہیں کہ اسلام تیسری جنس والے خواجہ سراؤں کو ان کے حقوق دیتا ہے۔ پھر اسلام کے نام پر ایک ریاست بنتی ہے۔ اس پاکستان میں ایک خواجہ سرا پیدا ہوتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے۔

پیدا کرنے والا بے نیاز ہے تخلیق میں کن کہتے ہوئے وہ کیا پہچان عطا کرتا ہے کہ پیٹ میں رکھنے والی ماں گود میں رکھنے سے انکار کر دیتی ہے۔ یہ پہچان ملنے کے بعد زندگی میں عافیت کے وہ چند ہی مہینے نصیب ہوتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں ملتے ہیں۔ علم ہونے پر اپنے بطن میں رکھنے والی ماں گود میں نہیں رکھ پاتی۔ خدا کی جانب سے اسی بھوکے پیٹ کے لیے تخلیق کیے گئے دودھ کے قطرے اس کے بھوکے پیٹ تلک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ خواجہ سرا ماں کی محبت کی مثال دینے والے خدا سے مل کر یہ پوچھیں گے کہ اس محبت میں اس ممتا میں ہمارا حق کیوں نہیں تھا۔

ایک باپ اپنے صلب سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنی ”عزت“ بچانے کی خاطر گھر سے چلتا کرتا ہے۔ اس سماج نامی جنگل میں ایک باپ کی یہ عزت ہوتی ہے جو تا حیات اس کی اس اولاد سے یہ جنگل میں بسنے والے حیوان کیا کرتے ہیں۔ جس کی خبریں کیا ویڈیوز تک عام ہیں وہ اس باپ کی عزت و غیرت گوارا کرتی ہے لیکن اسے اپنے گھر میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہنے دینا گوارا نہیں ہوتا۔ باپ شفقت کا سایہ ہوا کرتے ہیں لیکن ان بے چاروں کو وہ سایہ خود جفا کے سورج کے سوا نیزے پر چھوڑ آتا ہے۔

ایک ہی باپ کے صلب سے ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے اپنے بہن بھائیوں کی محبت سے محروم کر دیے جاتے ہیں اس جنس کی بنیاد پر جس کو نہ خود ان کے ماں باپ نے اپنے لیے چنا ہوتا ہے نہ بہن بھائیوں نہ ہی ان وحشیوں نے جو زندگی بھر انہیں اس کا خراج ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

وہ جسم جو خدا کی تخلیق کی بنیاد پر ماں کی ممتا سے محروم ہوتے ہیں باپ کے سائے سے عاق کر دیے جاتے ہیں بہن بھائیوں کی محبت جن کی حسرت بنا دی جاتی ہے وہ اس جنگل کے حوالے کر دیے جاتے ہیں جہاں ان جسموں کی مجبوریاں بکتی ہیں۔ انسانی خواہشیں سسکتی ہیں۔ آرزوئیں ماتم کرتی ہیں اور حقوق معصوم دلوں کی قبروں میں زندہ درگور ہو جاتے ہیں وہ قبریں جن کے کتبوں پر عربی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے ”اسلام خواجہ سراؤں کو ان کے حقوق دیتا ہے“ ۔

وہ جن کا پیدا ہونے کے بعد پہلا حق ماں کی ممتا سے محرومی کی صورت سلب ہوتا ہے۔ باپ کی عزت و غیرت پر تیسری جنس کا داغ لگانے کے ناکردہ گناہ کی سزا جنہیں باپ کی شفقت کے حق سے محرومی کی صورت ملتی ہے۔ اپنے بہن بھائیوں کی محبت کا حق جو اس لیے نہیں پا سکتے کہ خدا نے انہیں ان جیسا نہیں بنایا ہوتا۔ اس کے بعد تعلیم کا حق، صحت و علاج کا حق، عزت کا حق، رہائش کا حق، ملازمت کے حصول کا حق، سفری سہولیات کا حق، حتی کہ سماج میں ایک عام انسان کی طرح جینے تو کیا مرنے تک کے حق سے محروم کیے جانے والے ان معصوموں کی ہر حق تلفی کرنے والے مسلمان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام خواجہ سراؤں کو ان کے حقوق دیتا ہے۔

بے شک اسلام حقوق و فرائض ہی کا مجموعہ ہے لیکن یہاں سوال اسلام نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس میں بسنے والے مسلمانوں کا ہے جو یہ حقوق پامال کرتے ہیں۔ جو اپنے اس ناروا رویے کی ڈھال اسلام کو بناتے ہیں یہ سوچے بنا کہ اس سے اسلام کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔

انہی حقوق کی فراہمی کے لیے ایک قانون ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 پر آج کل بہت ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ اس بل کے متعلق اپنی معروضات اس تحریر کے دوسرے حصے میں پیش کرتا ہوں فی الحال سب پڑھنے والوں سے ایک سوال کہ ہم مسلمانوں نے یہ جملہ بجائے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ہر پسے ہوئے طبقے کے حقوق کی پامالی کی ڈھال کیوں بنا رکھا ہے کہ ”اسلام ان طبقات کو سارے حقوق دیتا ہے“ ؟

ٹرانسجینڈر ایکٹ مضمون کے پہلے حصے میں خواجہ سراؤں کی بنیادی محرومیوں کا ذکر کیا تھا۔ جو ظاہر ہے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کوئی شک ہی نہیں کہ دوسرے مظلوم طبقات کی طرح خواجہ سرا بھی ”اسلام خواجہ سراؤں کو سارے حقوق دیتا ہے“ کی منافقانہ آڑ میں پاکستان میں اپنے حقوق سے محروم ایک مظلوم ترین طبقہ ہے۔

پاکستان میں 75 سالوں کے بعد ان بے چارے ”نام نہاد“ انسانوں کے حقوق کا کسی کو خیال آتا ہے اور وہ حقوق جو اسلام خواجہ سراؤں کو دیتا ہے وہ مسلمان دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی پارلیمان میں ایک بل پیش کیا جاتا ہے۔ ”Transgender Act 2018“ اس بل کو جب پاس کیا جاتا ہے تو محض تین ارکان پارلیمان اس کی مخالفت کرتے ہیں یہ بل چار سال قبل سینیٹ سے منظور ہوتا ہے۔ یہ بل ان معدودے چند قوانین میں سے ایک ہے جو کہ پاکستان میں جاری سیاسی رقابت کی آگ سے بچ جاتا ہے اور پارلیمنٹیرینز کے اس اصل کردار کی عکاسی کرتا ہے جو ان سے آئین تقاضا کرتا ہے اور جسے وہ سولنگ گلیوں نالیوں کے ڈھکوسلوں سے پر کرتے ہیں۔

اس بل کے بغور مطالعہ کے بعد میں یہاں اس کے تمام قابل ذکر اور اہم نقاط آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
اس قانون کے مقاصد!

سپریم کورٹ آف پاکستان اور آئین پاکستان کے مختلف قوانین کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں سے جنسی /صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک اور حق تلفی کی روک تھام اور حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا۔

¶ ہر فرد کو صنفی /جنسی شناخت کا حق اپنی محسوسات اور ذاتی تشخص کی بنیاد پر ہے۔

¶ اٹھارہ سال کی عمر میں پہنچ کر اگر کوئی بھی فرد اس تشخص کی بنیاد پر شناختی کارڈ میں اپنی جنس پہلے سے مقرر کردہ جنس سے مختلف درج کروانا چاہے تو یہ اس کا حق تسلیم کیا جائے گا۔

¶ جنس کی بنیاد پر ہر طرح کا امتیازی سلوک جرم قرار۔
¶ 18 سال کی عمر میں شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ بنوانے کی اہلیت حاصل ہو گی۔
¶ خاندان کے ”ب فارم“ میں اندراج لازمی قرار۔
¶ جنسی امتیاز برتتے ہوئے گھر سے نکالنا جرم قرار۔
¶ سفری سہولتوں میں مساوی مقام۔
¶ جرم کی صورت میں علیحدہ جیل کا قیام۔
¶ ماں باپ کی وراثت میں حقوق کی فراہمی۔
¶ تعلیم کا حق۔
¶ صحت کا حق۔
¶ ملازمت کا حق۔
¶ سیاست میں حصہ لینے اور الیکشن لڑنے کا حق۔
¶ عوامی عہدہ رکھنے کا حق۔
¶ اکٹھے ہونے کا حق۔
¶ پبلک پلیسز پر داخلے کا حق۔
¶ بھیک مانگنے یا کسی بھی لحاظ سے مجبور نہ کیے جانے پر تحفظ
¶ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی جبر ظلم پر درخواست دینے کا حق۔

دل پر ہاتھ رکھیے اور سچی گواہی دیجیے کہ کیا یہی وہ تمام انسانی حقوق نہیں جن کی پامالی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو کیا کیمرے کی آنکھ سے ریکارڈ تک کرتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو مذہب پر سیاست کرنے والوں کا کہ جو ہر عقلی، شعوری، استدلالی اور تکنیکی معاملے کو مذہبی جذباتیت کی آنچ پر رکھ جوش خطابت کی پھونکوں سے عوامی حساسیت کی دیگ میں ابال لے کر آتے ہیں اور پھر اسے کھاتے ہیں۔ جب یہ دیگ تیار ہو جاتی ہے تو اس میں سے اپنا حصہ بٹورنے دوسرے سیاسی و مذہبی مفاد پرست بھی آ جاتے ہیں۔

اس تمام بل میں ایک شق میں ممکنہ اطلاقی خرابی موجود ہے کہ اگر آپ جنس کے تعین کو فرد کی اپنی محسوسات پر چھوڑیں گے تو اس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے سماجی اور قانونی مسائل دونوں طرح کے مسائل جنم لے سکتے ہیں جیسے وراثتی قانون میں پیچیدگیاں یا اس کی آڑ میں ہم جنس پرستی ہونا۔

اطلاقی خرابیاں ہر ایک قانون کے ساتھ ہوا کرتی ہیں۔ جن میں بہتری اور ترامیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں بھی بجائے اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے خواجہ سرا کمیونٹی کے لوگوں کو ساتھ ملا کر اس کی اطلاقی خرابیوں سے بچاؤ کا سامان کیا جانا چاہیے۔ طبی قانونی تکنیکی ماہرین کو ٹرانسجینڈر ایکٹ کے سقم دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن مذہبی بڑھک بازی کہ قانون کو واپس لیا جائے وغیرہ محض سیاست ہے۔

مذہبی سیاست کی دکانوں میں فقط وہ چیز سجائی جاتی ہے جس کی بکری اچھی ہو۔ ہر مذہبی سیاسی جماعت اس جذباتیت کی دیگ میں سے اپنا حصہ وصول کرتی پائی جاتی ہے۔

میں یہاں ایک مثال سے اپنی معروضات کو ختم کرنا چاہتا ہوں کہ اگر غریب بچوں کے تعلیمی حقوق کے لیے مدارس قائم کیے جائیں اور ان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز سامنے آنے لگیں اور کوئی طبقہ اٹھ کر کہے کہ بچوں سے زیادتی اور ہم جنس پرستی کا راستہ کھولا گیا گھروں سے دور بچوں کے مدرسے بنا کر تو علما کرام یقیناً اکا دکا واقعات کے لبادے میں چھپا کر اسے اسلام کے خلاف سازش بھی قرار دیں گے۔ یہی اصول یہاں بھی لاگو کیا جائے اور پچھتر سال بعد اگر ایک محروم طبقے کے حقوق کا ریاست کو خیال آ ہی گیا تو اسے واپس کرنے کی بجائے بہتر بنایا جائے اس کے سقم دور کیے جائیں۔

آخری سوال کہ جو علماء کرام اس بل کو احکام الٰہی سے بغاوت قرار دے رہے ہیں اور سیلابوں اور زلزلوں کی وجہ قرار دے رہے ہیں ان سے یہ پوچھنا تھا کہ اس ایکٹ سے پہلے اور خدانخواستہ واپس لیے جانے کی صورت میں آنے والے زلزلے اور سیلاب کس وجہ سے آتے ہیں اور خواجہ سرا بہنوں بھائیوں سے رکھا جانے والا ناروا ترین سلوک احکام الٰہی سے کیا بغاوت نہیں ہے؟

پس تحریر! علماء کرام کے تناظر میں دیکھا جائے تو ٹرانسجینڈر ایکٹ سے ایک مثبت بات برآمد ہوئی کہ مدارس تو کیا مساجد تک میں نماز کی صفوں پر قرآن ہاتھ میں پکڑ کر بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز آتی رہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کا بیان سامنے نہ آیا۔ نہ کسی نے عذاب الہی کی وجہ قرار دیا نہ ہی اسے احکام الٰہی سے بغاوت قرار دیا۔ کسی ایک نے یہ بھی نہیں کہا کہ ہمارے علما نے اس پر غور و خوض کر کے اس کے تدارک کے لیے تجاویز یا متبادل مرتب کیا ہے۔ اب جبکہ تمام سیاسی و غیر سیاسی مذہبی جماعتیں ہم جنس پرستی کے خلاف صف آراء ہیں تو انتظار اس جذبے کو مدارس کی طرف موڑنے کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments