مذکر


اس کی تین بیٹیاں تھیں، صدف اور سارا کی شادی اس نے ایک ساتھ کر دی تھی۔ اب صرف بشریٰ رہ گئی تھی۔ بشریٰ میڈیکل کے آخری سال میں تھی۔ دو سال قبل اس کی منگنی ہوئی تھی اب لڑکے والے شادی کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔

اس روز بشریٰ کالج گئی ہوئی تھی، احسان نے کھا نا مانگا۔ فوزیہ آٹا گوندھنے لگ گئی۔ احسان کی بھوک برداشت سے باہر ہوئی تو وہ بھونکنے لگا۔

دروازے کی گھنٹی پر کوئی ہاتھ رکھ کر بھول گیا تھا۔
آ رہا ہوں آ رہا ہوں۔ احسان تیز تیز چلتا ہوا دروازے پر پہنچا۔

بشری کو دروازے پر کھڑے دیکھا تو فوراً اپنے تاثرات درست کیے۔ آ جاؤ بیٹا آ جاؤ۔ آج جلدی آ گئیں۔ کیوں؟

احسان کے لہجے میں پیار اور نرمی تھی۔
یہ کیا ہو رہا تھا۔ امی ہمیں کچھ بتاتی نہیں، اس کا مطلب، ہم کچھ نہیں سمجھتے!
بیٹا میں نے کیا کہا۔ میں نے کچھ بھی نہیں کہا۔ فوزیہ اس کی کینچلی بدلنے کی عادت سے واقف تھی۔

پاپا آپ ہمیشہ ایسے ہی میسنے بن جاتے ہیں۔ گراؤنڈ فلور سے آپ کی آواز سنتی آ رہی ہوں۔ امی آپ انہیں چھوڑ کیوں نہیں دیتیں۔

فوزیہ پیر پٹختی ہوئی کمرے کی طرف مڑ گئی۔
احسان نے پیچھے سے آ کر فوزیہ کے بال پکڑ لیے۔

تو نے ان کو میرے خلاف کیا ہے۔ میں انہیں کتنا پیار کرتا ہوں، ان کا خیال کرتا ہوں، ان ہی کے لیے اتنی محنت کرتا ہوں اور اب میرے منہ کو آتی ہیں۔ یہ تربیت ہے تیری۔

پاپا چھوڑ دیجیے امی کو۔ بشریٰ چیخی۔
چلیے چھوڑیے، آٹا، ان سے کہیں ان کو بھوک برداشت نہیں ہوتی تو باہر سے کھاتے ہوئے آیا کریں۔
پتہ نہیں آپ اس آدمی کو کیسے برداشت کرتی ہیں۔ بشریٰ نے باپ کو گھورا۔
احسان نے بیرونی دروازہ کھولا، اور غصے سے انہیں گھورتا ہوا باہر نکل گیا۔
امی یہ اتنی زور سے چلاتے ہیں، محلے میں آواز جاتی ہے۔ کیا سوچتے ہوں گے لوگ۔ آپ کو برا نہیں لگتا۔
بیٹا پچیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ سب ہی ان کا مزاج سمجھ چکے ہیں۔ عادت ہو گئی ہو گی۔

اور آپ، آپ بھی تو عادی ہو گئی ہیں۔ میں تنگ آ گئی ہوں۔ جب بھی انہیں لگتا ہے آپ اکیلی ہیں یہ اتنی انسلٹ کرتے ہیں آپ کی۔

خدا کے لیے امی اب تو آپ انہیں چھوڑ دیں۔ آپ ریٹائر ہو نے والی ہیں آپ کو سکون کی ضرورت ہے۔ مگر گھر میں یہ شخص آپ کو سکون سے نہیں رہنے دے گا۔ پلیز امی۔ بشریٰ کی آواز بھرا گئی۔

اچھا اچھا تمہاری شادی ہو جائے تب چھوڑ دوں گی انہیں۔ اچھا نہیں لگتا، تمہاری سسرال میں، میں کس کس کو جواب دوں گی۔

امی، آپ ہمیشہ ہی کوئی بہانہ گڑھ لیتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے آپ کو ان سے شدید محبت ہے، یا پھر ان کی عادت ہو گئی ہے۔

کوئی کیسے ایسے چیپ انسان کے ساتھ رہ سکتا ہے۔
ایسے مت کہو، تمہارے باپ ہیں، تم بیٹیوں میں ان کی جان ہے۔
مگر مجھے نفرت ہے ان سے، صرف اسی وجہ سے۔
دیکھو جب ہی تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں ان کے خلاف کیا ہے۔
امی! آپ اب بھی ان کی فیور کر رہی ہیں آپ کا کچھ نہیں ہو نے والا۔

بشریٰ کی شادی سے دو دن پہلے، فوزیہ نے ہمت کر کے احسان سے کہہ دیا کہ وہ بشریٰ کی شادی کا انتظار کر رہی تھی، بشریٰ کی رخصتی کے بعد وہ اسے طلاق دے دے، ورنہ وہ اس سے خلع لے لے گی۔

فوزیہ نے جس اعتماد سے، احسان سے بات کی، احسان ساکت رہ گیا۔ زار و قطار رونے لگا۔ اس کے پیروں پر گر کر معافی مانگی، اور واقعی حیرت انگیز طور پر اس میں واضح تبدیلی نظر آئی۔

آج بشریٰ کی شادی تھی۔ احسان بھاگ بھاگ کر سارے کام کر رہا تھا۔ صدف اور سارہ پہلی مرتبہ اپنے باپ کو گھر کے کاموں میں ایسا مستعد دیکھ رہی تھیں۔ شادی بیاہ ہو یا کوئی تہوار، ان کے ماموں، اور خا لائیں ہی باہر کے کام کیا کرتیں۔ اگر احسان کسی کام کی ذمہ داری لیتا بھی تو اس میں پیسہ بھی خرچ ہوتا، اور دل بھی جلتا، فوزیہ ہمیشہ اس پر کوئی ذمہ داری ڈالنے سے ڈرا کرتی۔ لیکن دو روز سے وہ بڑے سلیقے سے کام کر رہا تھا۔ کئی بار بچیوں کو اسے آرام کا مشورہ دینا پڑا۔

صدف اور سارا حیران تھیں کہ پاپا میں اچانک اتنا بڑا انقلاب کیسے آ گیا۔

ایسا نہیں کہ چھوڑ دینے کی دھمکی فوزیہ نے کوئی پہلی مرتبہ دی تھی۔ یہ فلیٹ اس کے باپ کی جائیداد میں حصے بخرے کے بعد جو رقم ہاتھ لگی تھی اس سے خرید لیا گیا تھا۔ جو احسان کے نام تھا۔

جب کبھی فوزیہ نے احسان سے علیحدگی کی بات کی، وہ اور شیر ہو جاتا۔

تو ابھی نکل جا، جا اپنی چمچیوں کو بھی لے جا، اگر نہیں گئی تو میں خود تجھے طلاق دے دوں گا۔ تب وہ سوچتی۔

کیا محض ضد بحث میں اپنی بیٹیوں کا مستقبل خطرے میں ڈال دوں، کرائے کے مکان کے کیسے عذاب ہوتے ہیں۔ کہاں کہاں لیے پھروں گی انہیں، وہ ٹھنڈی سانس لے کر رہ جاتی۔ وہ بیٹیوں سے بہت پیار کرتا تھا۔ اسکول سے لانا لے جا نا اسی کی ذمے داری رہا۔ ایک خوبی اور بھی تھی کہ روایتی مردوں کی طرح اس نے کبھی اسے بیٹا نہ ہو نے کا طعنہ نہیں دیا۔

اس کے لیے اکثر اچھے دن بھی آتے تھے جب وہ حیدر آباد اپنے بڑے بھائی کے گھر جاتا۔ حیدر آباد میں وہ پلا بڑھا تھا، سارے دوست احباب وہیں تھے۔ مہینے میں ایک بار وہ ضرور وہاں جاتا اور پانچ چھ روز بعد واپس آتا تھا۔

بیٹیوں کے سامنے ہمیشہ وہ مہذب بنے رہنے کی اداکاری کرتا۔ وہ الگ بات کہ ان کے سامنے اس کا کوئی نہ کوئی جنگلی پن عیاں ہو ہی جا تا تھا۔

احسان کا یہ روپ بالکل نیا تھا۔ یہ وہ احسان نہیں تھا۔ جو ذرا زرا سی بات پر طنز کرتا، تعریف بھی اس طرح کرتا جیسے مذاق اڑا رہا ہو۔ مہذب انداز میں چپلیں پہنے جیب میں ٹشو رکھے وہ ہر ایک سے گھل مل رہا تھا۔ اس نے اپنے ہی نہیں فوزیہ کے کپڑے بھی خود استری کیے۔ سب کے سامنے فوزیہ کی کھل کر تعریف کی۔ اور تو اور کھانا لگا نے میں بھی سب کی مدد کی اور خود سب سے آخر میں کھا نا کھایا۔

جب کبھی اسے فوزیہ نظر آتی وہ اسے مسکرا کر محبت سے دیکھتا۔

بشریٰ رخصت ہوئی، اور ولیمے کے بعد ، سارہ اور صدف بھی اپنے سسرال چلی گئیں۔ جاتے جاتے صدف نے احسان کی طرف دیکھ کر شرارت سے کہا۔ اب آپ دونوں بھی ہنی مون پر چلے جائیں۔

فوزیہ بیڈ روم میں آئی۔ احسان نے تیزی سے آ کر بیڈ کی چادر درست کی۔

میں چائے بنا تا ہوں تم آرام کرو۔ یہ کہ کر وہ فوراً کچن کی جانب چلا گیا۔ فوزیہ اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔

فوزیہ اپنے کمرے میں کتاب پڑھ رہی تھی کہ موبائل بجا، دوسری طرف صدف تھی۔
پاپا کا فون آیا تھا انہوں نے بتا یا کہ آپ نے خلع کی درخواست دائر کر دی ہے۔
اب کیا کروں۔ تم لوگ ہی کہتے تھے۔

مگر اب تو پاپا کا رویہ بہت اچھا تھا، آپ بھی خوش تھیں۔ آپ نے خود ہی تو بتا یا تھا کہ وہ اپنے پچھلے رویے پر شر مندہ ہیں۔

تمہیں معلوم ہے نہ میں نے پینتیس سال تمہارے پاپا کے ساتھ گزار دیے۔ اب یہ اجنبی مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ پہلے سہمی رہتی تھی، اب شرمندہ رہتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں کوئی ملکہ ہوں۔

امی آپ ملکہ ہی ہیں۔ آپ اسی سلوک کی مستحق ہیں۔

میں تمہارے پاپا کو غلام نہیں انسان دیکھنا چاہتی ہوں۔ اتنے پیار، محبت اور احترام کی عادت نہیں۔ ان کے ساتھ میرا دم گھٹنے لگا ہے۔ میں زیادہ دیر ان کے ساتھ رہی تو میں مر جاؤں گی۔

آپ اس وقت کہاں ہیں؟
ایک کمرہ رینٹ پر لیا ہے، کافی ہے میرے لیے۔
اور پاپا۔ پاپا کا کوئی خیال نہیں آپ کو وہ کیسے اکیلے رہ پائیں گے۔
اچھا میں تم سے پھر بات کروں گی۔ تمہاری زینب پھپو کا فون آ رہا ہے۔
بھابی، بھیا کیسے رہیں گے آپ کے بغیر۔ آپ انہیں کیسے اپنی زندگی سے نکال سکتی ہیں۔

میں نے ایک عمر گزاری ہے تمہارے بھیا کے ساتھ، انہیں کیسے اپنی زندگی سے نکال سکتی ہو میں تو ایک غیر مرد کی زندگی سے نکل رہی ہوں۔

فوزیہ نے فون بند کر دیا۔
آزادی کے سکھ نے پچپن سال کی عمر کو بیس سال پیچھے کر دیا تھا۔

نجی کالج کا پرنسپل ثاقب جو کبھی اس کا دوست اور کلاس فیلو رہ چکا تھا، اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔

او مائی گاڈ یہ تم ہو فوزیہ۔ دس سال پہلے جب تم صدف کا اے لیول کا سرٹیفکیٹ لینے آئی تھیں، تب تم کس قدر بوڑھی لگ رہی تھیں۔ یقین نہیں آتا۔ لگتا ہے جیسے صدف میرے سامنے بیٹھی ہے۔

چھوڑو ان باتوں کو یہ بتاؤ آج شام کیا کر رہے ہو۔
اپنی زندگی جینے کی خواہش میں فوزیہ کے قدم الگ راہ پر جا رہے تھے۔
یہاں تک میں نے فوزیہ کی حقیقی کہانی لکھی تھی، البتہ نام و مقام تبدیل کر دیے تھے۔

فوزیہ کی کہانی یہاں ختم کر دی جائے۔ یا اسے کسی دوسرے موڑ پر چھوڑا جائے میں نے سوچا۔ عورت، مرد کو کیسے چھوڑ سکتی ہے۔ کہانی میں اس کے کردار کو توانا دکھائے جانے کی وجہ سے ہی عورت اتنی باغی ہو رہی ہے۔ اب جب کہ اس کا رویہ بھی بہتر ہو چکا ہے، اور ایسے وقت میں جب مرد کو اس کی ضرورت ہے وہ اسے نہیں چھوڑ سکتی۔

میری بیوی مصباح نے ہی مجھے فوزیہ کے بارے میں بتا یا تھا۔ وہ اس کی بچپن کی سہیلی تھی فوزیہ اب میرے گھر بہت زیادہ آنے لگی تھی۔ وہ مصباح کے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتی۔ شادی سے پہلے مصباح ڈراموں میں کام کیا کرتی تھی۔ اسی کی وجہ سے مجھے ٹی وی پر ڈرامے لکھنے کا موقع ملا۔ میری بیمار ماں کی نگہداشت اور تین بچوں کی پیدائش کے بعد وہ گھر بیٹھ چکی تھی۔

میری ڈراموں کی آمدنی سے گھر میں کافی خوش حالی آ گئی تھی۔ وہ میرا حد سے زیادہ خیال رکھتی۔
میں نے فوزیہ کی کہانی میں نام و مقامات تبدیل کر دیے تھے۔
احسان کو ہارٹ اٹیک میں مار دیتا ہوں، ساری دنیا فوزیہ پر لعن طعن کرے گی۔
لیکن اس طرح تو فوزیہ چند دن سوگ کے بعد بالکل آزاد ہو کر اپنی زندگی جیے گی۔

فوزیہ کو ہارٹ اٹیک میں مارنا زیادہ بہتر رہے گا لوگ کہیں گے اکیلی عورت سہ نہیں پائی۔ مگر اچھا بھلا مرد چھوڑ کر عورت تنہا رہے اور صرف ہارٹ اٹیک میں مر جائے تو کون سبق لے گا۔ ساری پذیرائی فوزیہ کے حصے میں آئے گی۔ نہیں فوزیہ کا انجام ایسا ہو نا چاہیے کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں۔

میں نے لیپ ٹاپ کھولا اور لکھنا شروع کیا۔

اب فوزیہ تنہا تھی۔ ایک کمرے میں تنہا، اس کا دم گھٹتا تھا۔ اس نے سوچا میاں کے پاس چلی جائے میاں اب بے دام غلام ہو چکا ہے۔

مگر اب وہ اس کے زن مریدی والے نئے روپ سے سخت بیزار ہو چکی تھی۔

وہ جہاں جاتی لوگ اس سے ایک ہی سوال کرتے اب اس عمر میں کیا ضرورت تھی۔ بیٹیاں بھی اس سے ناراض تھیں۔ تنہائی، مایوسی، ایک روز شدید ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔ اس نے ایک دوپٹہ پنکھے سے لٹکایا، پھندا بنا کر گلے میں ڈالا، اور کرسی پر چڑھ گئی۔

نہیں، میری انگلیاں کی پیڈ پر رک گئیں۔ دماغ میں خیالات نے رینگنا شروع کر دیا۔ وہ مظلوم بن جائے گی۔ احسان کے کردار کو ملامت کیا جائے گا۔ اس کی انگلیاں چلنے لگیں۔

فوزیہ پنکھے سے لٹکی اپنی بدصورت شکل کا تصور کر رہی تھی۔ اس نے پھندا گلے سے اتارا اور گھر سے باہر نکل گئی۔

فوزیہ طاقت پکڑ رہی تھی۔ کہانی پر میری گرفت کمزور پڑ چکی تھی۔

فوزیہ کے کردار کو مرضی سے جینے کا حق ملا تو وہ مضبوط ہو گی۔ مضبوط عورت ہمارے معاشرے میں بد کردار کی حیثیت سے جا نی جاتی ہے۔ مصیبت یہ کہ عورت اب بد کرداری کے الزام سے خائف نہیں ہوتی۔ یہ معاشرے کے لئے اچھا شگون نہیں۔

میں نے ان سطور کو حذف کر دیا۔ انگلیاں دماغ کی طابع ہو گئیں۔ میرے خیالات نے فوزیہ کو انجام کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔

لیپ ٹاپ کی اسکرین پر الفاظ تیرنے لگے۔

فوزیہ گھر میں اکیلی تھی۔ دروازہ بجا، فوزیہ نے جھری سے جھانکا۔ ایک بچہ کھڑا تھا۔ فوزیہ نے دروازہ کھولا۔ بچہ تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا۔ فوزیہ سمجھ گئی کہ بچہ شرارت کر کے بھاگ رہا ہے۔ اچانک چہرہ ڈھانپے ایک مرد کمرے میں داخل ہوا اس نے دستانے پہنے ہوئے تھے۔

تجھے عزت کی زندگی راس نہیں آئی۔ چل اب دفع ہو جا۔
اس نے فوزیہ کی کنپٹی پر پستول رکھ دیا۔
ڈرائیو کرتے ہوئے ثاقب اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا۔ تنہا عورت جی سکتی ہے بھئی۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں تو اکیلے رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

تم کیوں رو رہی ہو سارہ۔ خدا کا شکر ادا کرو۔ کوئی نماز جنازہ پڑھانے پر تیار نہیں ہو رہا تھا۔ احسان انکل نے یہ نیک کام کیا۔ انہوں نے ہی ان کو قبر میں اتارا۔ بڑا صبر ہے ان میں۔ بس رو مت دعا کرو خدا ان کی اگلی منزل آسان کرے۔ سارہ کے شوہر نے اسے تسلی دی۔

تمہاری بھابی اچھی بھلی پر سکون زندگی گزار رہی تھیں، آخر انہیں اس عمر میں کیا سوجھی۔ اکیلی عورت کیسے جی پاتی مرد کے بغیر۔

اب مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔ اچھی بھلی جنت چھوڑ کے حرام موت ہی مرنا تھا انہیں۔ میں نے تو انہیں بہت سمجھایا پر اب ہم مغفرت کی دعا کے سوا کیا کر سکتے ہیں۔ زینب اپنے میاں کے آگے چائے کا کپ رکھتے ہوئے بولی۔

بشریٰ اور صدف فون پر باتیں کر رہی تھیں۔
سمجھ نہیں آتا کیسے لوگوں کی زبانیں بند کریں، امی اس عمر میں پاپا کو چھوڑ کر اکیلی کیوں رہ رہی تھیں۔
وہی تو، صدف بولی، مرد کو چھوڑ کر بھلا کوئی عورت اکیلی رہ سکتی ہے۔

پر امی نے تو اتنے کڑے حالات میں ایسی بہادری سے مقابلہ کیا۔ اب تو وہ من مانی زندگی جی رہی تھیں۔ وہ خود کشی کیسے کر سکتی ہیں۔

لیکن ان کے ہاتھ میں پستول اور کنپٹی سے نکلی گولی۔ بشریٰ کی آواز بھرا گئی۔

میں نے لیپ ٹاپ بند کر کے سگریٹ سلگایا۔ مصباح ہاتھ میں ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئی۔ ایک کپ اس نے میرے سامنے رکھا اور خود دوسرا کپ تھامے بیڈ پر بیڈ پر ٹانگے لٹکا کر بیٹھ گئی۔

احسان بھائی نے خود کشی کر لی۔ اس کے لہجے میں افسوس تھا۔ یہ مرد اتنے کمزور کیوں ہوتے ہیں۔ اس نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

میں نے کندھے اچکا دیے۔ میں اپنی کہانی کے سبق آموز انجام پر مسرور تھا
میں نے سگریٹ سلگاتے ہوئے اپنی مسکراہٹ چھپائی اور سگریٹ کا لمبا کش لے کر ناک سے دھواں خارج کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments