صدر کا جنسی ہراسانی پر پیمرا اہلکار کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ: ’ملزم مقدمے کی کارروائی کے دوران بھی خاتون شکایت کنندہ کو ہراساں کرتا رہا‘


عارف علوی
پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جنسی ہراسانی کے ایک معاملے میں ڈائریکٹر جنرل پیمرا کو ملازمت سے برطرف کرنے اور 25 لاکھ روپے جرمانہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے وفاقی محتسب برائے ہراسانی کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے، جس میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کے افسر کو ایک خاتون کو ہراساں کرنے پر ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔

درخواست گزار نے پیمرا کے ڈی جی ایڈمن و ایچ آر حاجی آدم پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔

واضح رہے کہ برطرف ملازم نے وفاقی محتسب برائے ہراسانی کشمالہ طارق کے گذشتہ برس نومبر کو انھیں ملازمت سے فارغ کرنے اور 20 لاکھ کا جرمانہ کرنے کے فیصلے کے خلاف صدر مملکت کے سامنے اپیل کی تھی۔

وفاقی محتسب نے حاجی آدم پر 20 لاکھ اور ان کے شریک ملزم فخر الدین مغل پر پانچ لاکھ کے جرمانے کی سزائیں بھی سنائی تھیں۔ شریک ملزم کی تنزلی کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔

اس فیصلے کا مقصد کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خوف کا خاتمہ ہے

وفاقی محتسب کشمالہ طارق نے جو 20 لاکھ کا جرمانہ کیا تھا صدر عارف علوی نے اپیل میں اسے بڑھاتے ہوئے 25 لاکھ کر دیا ہے۔ صدر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ بات اب شک سے بالاتر ہے کہ پیمرا کے افسر نے ایک خاتون کو اپنے زبانی، نازیبا، جنسی نوعیت کے گھٹیا تبصروں اور مطالبات سے ہراساں کیا ہے۔

صدر نے کہا کہ جب ایسے کیسز سامنے آتے ہیں اور بلا شک و شبہ ثابت ہو جاتے ہیں تو قانون کی پوری طاقت کا استعمال کرتا ہوں۔ خواتین کے لیے محفوظ ماحول کو یقینی بنانے کے لیے ایسے اقدامات ضروری ہیں۔

صدر مملکت نے لکھا کہ ’ہراسانی کے خوف کی وجہ سے خواتین کی دب جانے والی اقتصادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ایسے اقدامات ضروری ہیں۔‘

صدارتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم سے جرمانے کی رقم ملزم کی تنخواہ، پینشن یا دیگر بقایا جات سے لی جائے۔

صدر مملکت نے خاتون کو دی جانے والی رقم ملزم کی تنخواہ کے بقایا جات، پنشن کی رقم یا کسی دوسرے ذریعے (جائیداد) سے وصول کرنے کا حکم بھی دیا۔

انسدادِ ہراسیت بمقامِ کار ایکٹ کے تحت 25 لاکھ روپے کی رقم خاتون کو ملزم کے ہاتھوں مشکلات کے بدلے معاوضے کے طور پر دی جائے۔

یہ بھی پڑھیے

جنسی ہراس: الزامات کی شفاف تحقیقات کیسے ممکن؟

خواتین ہراسانی کے خلاف آواز کیسے بلند کر سکتی ہیں؟

ہراسانی کے جھوٹے الزام پر ٹیچر کی خودکشی، قصور وار کون؟

’ملزم مقدمے کی کارروائی کے دوران بھی خاتون شکایت کنندہ کے خلاف درخواستیں دائر کرکے ہراساں کرتا رہا‘

صدر مملکت نے اپنے حکم میں لکھا کہ ملزم مقدمے کی کارروائی کے دوران بھی خاتون شکایت کنندہ کے خلاف درخواستیں دائر کرکے ہراساں کرتا رہا۔ ان کے مطابق ملزم کا فعل واضح مثال ہے کہ کن طریقوں سے خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

صدر عارف علوی کے مطابق ہراسانی کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد معاشرے میں ہونے والی بحث کے مقابلے میں بہت کم ہے اور خواتین ممکنہ ہراسانی ی وجہ سے آزادانہ کام کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے مطابق خواتین کے لیے عوامی جگہیں کم کر دی گئی ہیں، تعلیم کے حق سے بھی بعض اوقات محروم رکھا جاتا ہے۔

صدر عارف علوی نے لکھا کہ ’بعض والدین تعلیمی اداروں میں ممکنہ ہراسانی کے خوف کی وجہ سے انھیں صرف لڑکیوں کے اداروں میں تعلیم دلانے پر ترجیح دیتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ہمارے معاشرے میں خواتین زیادہ تر کم تعلیم یافتہ ہیں اور خواتین شدید بے روزگار، مالی طور پر مجبور، وراثت کے حق سے محروم ہیں۔ صدر عارف علوی کے مطابق خواتین کو ملازمت میں ترقی کے وقت بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسلامی تاریخ سے خواتین کے کارناموں کے متعدد حوالے دیتے ہوئے صدر مملکت نے لکھا کہ ’وقت آگیا ہے کہ آئین کے مطابق زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شرکت کی راہ ہموار کی جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments