وہ اس لڑکی کی ہوس تھی یا ضرورت؟


کافی سال پہلے ایک شادی کے سلسلے میں انڈیا جانا ہوا، دس دن کا ٹھہرنا تھا خاندان کے قریبی رشتہ دار کی شادی تھی۔ ہر ایک بے حد خوش تھا اتنے عرصے بعد دور دور کے رشتہ داروں سے ملاقات ہو رہی تھی۔

شادی کے مہمانوں کو سنبھالنے کا بہت عمدہ انتظام تھا، جہاں رہنے کے لئے ایک گھر لیا گیا تھا وہیں سب مہمانوں کے کھانے پکانے کے لئے ایک باورچی رکھ لیا تھا۔ دن جے پور شہر کی سیر میں اور شامیں شادی کے گیت گاتے گزرتی رہیں دو ایک دن تو ہلے گلے میں محسوس نہیں ہوا لیکن تیسرے دن بتول باجی جب خود ہم سب کے پاس آئیں اور بات چیت کی تو اندازہ ہوا کہ یہ بھی اسی گھر کا فرد ہیں۔ اتنے دنوں میں ان سے سامنا بھی کم رہا اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ وہ صبح نوکری پر جاتی تھیں اور شام کو گھر پر ہی رک جاتی تھیں۔

مہمانوں کی آؤ بھگت کا سلسلہ جاری تھا۔ آئے روز کبھی کہیں دعوت تو کبھی راجستھان کی سیر۔

ایک دن بتول باجی کے گھر والوں نے بھی دعوت رکھی، ان کے گھر وہاں کی خاص سوغات اردھ کی دال اصلی گھی کا بھگار، چاول اور کرکرے پاپڑ کھانے میں رکھے گئے اس کے علاوہ پنیر کی کئی اقسام کے کھانے دسترخوان پر موجود تھے۔ سب ہی کھانا کھانے میں مشغول تھے کہ مجھے احساس ہوا کہ بتول باجی موجود نہیں ہیں پوچھنے پہ پتا چلا کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ کھانا کھا کر میں ان سے ملنے چلی گئی۔

افف کمرہ تھا یا کٹیا۔ اوپر جانے والے زینے کے نیچے کی جگہ کو کمرے کی شکل دی گئی تھی، جہاں صرف ایک بستر ہی آ سکتا تھا بستر کے نیچے کپڑوں کی پیٹی بس یہ کل اثاثہ ان کے کمرے میں موجود تھا، ایک خاص بات جو محسوس ہوئی وہ اس کمرے سے آنے والی ایک عجیب سی مہک تھی۔

تجسس ہوا کہ یہ ایسے کیوں رہتی ہیں!

ابھی مل کر میں باہر آ کر بیٹھی ہی تھی کہ ہماری ایک خوب صورت سی کزن ان کے کمرے کی طرف سے دوڑتی ہوئی آئی، وہ بہت خوف زدہ تھی، بیٹھتے ہی رونے لگی۔ میرے بہت پوچھنے پر بتایا کہ وہ بتول باجی کو سلام کرنے ان کے کمرے میں گئی اور ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ بڑھایا، ہاتھ ملانے کے بعد انہوں نے میرا ہاتھ سہلانا شروع کر دیا اور مجھے چومنے لگی، کہتی ہیں جب سے دیکھا ہے تم سے ملنے کی اشد چاہ ہے، بتاتی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر کمرے سے باہر بھاگ آئی۔

میں یہ سب سن کر ششدرہ رہ گئی کہ یہ کیا بات ہے وہ تو خود ایک لڑکی ہیں پھر انہیں ایسی حرکت کیوں کرنا پڑی، ان کا کمرہ دیکھ کر تجسس تو تھا ہی اس حرکت کو سن کر مزید تجسس بڑھ گیا۔ میں نے دل میں ٹھان لیا کہ ان سے ایک بار پھر ملو گی اور اپنی تسلی کروں گی کہ آخر ایسا کیوں؟

اس رات تو ہم واپس آ گئے لیکن اگلے دن شام کو میں پھر ان کے گھر گئی، چائے کا گرم کپ کر کرے پاپڑ نمکو کی آؤ بھگت کروانے کے بعد میں سیدھا بتول باجی کے کمرے میں آ گئی۔

آج ان کا موڈ کچھ ناخوش گوار سا لگ رہا تھا، ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد میں مدعے پر آ گئی۔ میں پوچھ ہی بیٹھی کہ یہ خود ساختہ تنہائی اور کل ہونے والی حرکت کی وجہ کیا ہے، انہوں نے جو بتایا انہی کی زبانی بیان کر رہی ہوں۔

میں بچپن سے ہی پڑھنے میں اچھی تھی، لیکن مجھے خوش شکل بچیوں سے دوستی کرنا اچھا لگتا تھا بچپن گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دوستیاں محبت میں بدلنے لگی ہر جماعت میں کوئی خوش شکل لڑکی مجھے اتنی اچھی لگتی کہ میں موقع دیکھ کر اسے پیار کرتی اس طرح پیار کرتی کہ میری شکایت گھر آنے لگی اور مجھے سہیلیوں میں ناپسند کیا جانے لگا۔

گھر پر شکایت آنے کے بعد پہلے تو امی سے مار پڑتی تھی پھر شدت آنے پر والد صاحب بھی ہاتھ اٹھانے لگے۔

میری بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں ایسا کیوں کرتی ہوں میں بھی تو جوان ہو رہی ہوں مجھے کسی لڑکے کو پسند کرنا چاہیے لیکن ہوتا اس کے برعکس تھا مجھے لڑکے برے لگتے تھے اور لڑکیاں اچھی۔ اپنی اس پریشانی کو لے کر میں تنہا ہو رہی تھی اور چونکہ تعلیم میں دلچسپی تھی تو کوشش کرتی رہی کہ کم از کم پڑھتی تو رہوں اس کے ساتھ ساتھ جب کچھ شعور آیا تو اپنی کیفیت کو انٹر نیٹ کے ذریعے پڑھنا شروع کیا تب مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں پیدائشی طور پر جنسی ہارمونل مسائل کا شکار ہوں اور اس کا کوئی حل نہیں ہے لہذا میں نے اپنے آپ کو الگ تھلگ کر لیا، بہت کوشش کے بعد میں نے تعلیم مکمل کی اور نوکری حاصل کی لیکن اب بھی نادانستہ طور پر میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتی۔

یہ کہ کر وہ زار و قطار رونے لگیں۔ کہنے لگی کہ یہ اللہ پاک کی مرضی تھی جس نے مجھے میرے ماں باپ کو آزمائش میں ڈالا میں اس کی اس آزمائش پر شکرگزار ہوں لیکن یہ ایک بھوک ہے جسے برداشت کرنا بس سے باہر ہے اس بھوک کے ساتھ معاشرے میں رہنا ایک آزمائش سے کم نہیں۔ میں پڑھی لکھی تھی اس لئے اپنے پر قابو رکھنے کی کوشش کرتی ہوں مگر جو ان پڑھ ہیں وہ اس معاشرے میں گناہ گار نظر آتے ہیں۔ کاش ایسے لوگوں کے لئے انسانیت کوئی حل نکالے!

میرے پاس ان کو دینے کے لئے کوئی جواب نہیں تھا میں بس بھاری دل کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر چلی آئی
(سچی کہانی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments