سڑے دماغ سے خوشبو نہیں آ سکتی


ہمارے کچھ فیس بک کے معزز دوست سارا دن فیس بک میں ظاہر ہونے والی ہر پوسٹ پر شدید ترین تنقید کر کے اپنا دماغی بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی فرد ہر مضمون میں مہارت نہیں رکھتا۔ اس لئے ایسے دوستوں کے کمنٹس سے متعلقہ شعبے میں ان کی کم علمی پورے آب و تاب سے جھلکتی نظر آتی ہے۔

تنقید ہر ایک کا حق ہے لیکن تنقید میں دلیل کا ہونا بہت لازمی ہے اور دلیل کے لئے علم کا ہونا ضروری ہے اور علم تحقیق کے بغیر نہیں آتا جبکہ تحقیق ایک اعصاب شکن اور تھکا دینے والا کام ہے۔

پہلے زمانے میں علم کے لئے دور دراز کا سفر طے کر کے کسی استاد کی مدد لی جاتی تھی یا کسی لائبریری میں جاکر متعلقہ لٹریچر کی چھان پھٹک کرنی پڑتی تھی۔ مذکورہ دونوں کاموں کے لئے وقت اور وسائل درکار ہوتے تھے۔ اس لئے لوگ کسی موضوع کو زیادہ گہرائی میں جاکر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ آس پاس دستیاب کسی بھی تھوڑے بہت پڑھے لکھے فرد یا ایک دو نصابی کتابوں سے استفادہ کیا جاتا تھا وہ بھی میسر نہ ہو تو بس اپنے کسی مفروضے یا خیال کی بنیاد پر کوئی قصہ گاڑھا جاتا تھا۔

معاشرے میں جو چالاک لوگ ہوتے تھے وہ جھوٹ وغیرہ پر مبنی قصے سناتے اور باقی سارے لوگ اس کو سچ سمجھ کے آگے بڑھاتے تھے۔ جیسے ہم نے بچپن میں ایک گاؤں کے کم پڑھے لکھے فرد سے یہ پوچھ لیا کہ اتنے سارے دریاؤں اور نالوں کا بہت زیادہ پانی سارا دن بہتا رہتا ہے یہ آخر جاتا کہاں ہے؟ اس صاحب نے یہ نہیں کہا کہ مجھے اس سائنس کا علم نہیں ہے بلکہ اس صاحب نے انتہائی وثوق اور اعتماد سے یہ کہا کہ

”اس روئے زمین کے آخر میں ایک گرم توا رکھا گیا ہے، یہ سارا پانی اس توے کے اوپر جاکر گرتا جاتا اور سوکھتا جاتا ہے“

ہم نے بڑے عرصے تک اس مفروضے کو سچ مانا۔ بہت عرصے بعد جب ہم نے واٹر سائیکل کا سائنسی علم پڑھا تو گاؤں کے اس آدمی کے خود ساختہ علم پر بہت ہنسی آئی۔

آج انٹرنیٹ نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ آن لائن کروڑوں کتابیں اور تحقیقی مقالے آسانی سے میسر آتے ہیں۔ ایسا موضوع جس کے بارے میں معلومات یا علم کی کمی ہے یا کوئی موضوع کسی کے لئے بالکل نیا ہے تو انٹرنیٹ کی مدد سے کوئی بھی آن لائن کتاب یا تحقیقی مقالہ ڈھونڈ نکالا جاسکتا ہے یا متعلقہ شعبے کے کسی ماہر سے بذریعہ سوشل میڈیا رابطہ کر کے اس کی تفصیلات لی جا سکتی ہیں۔ جس کے لئے تھوڑی سی سنجیدہ کوشش اور وقت دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں بے تکی تنقید کی روش پر قابو پایا جاسکتا ہے اور پارلیمانی زبان میں دلیل پر مبنی مناسب تنقید کی جا سکتی ہے تاکہ علم کا فروغ اور اصلاح کا عمل جاری رہ سکے۔

انسانی معاشرے ہمیشہ ارتقا کے مراحل سے گزرتے رہے ہیں۔ انسانی عقل و علم کبھی بھی حرف آخر یا مکمل نہیں ہوتے، ان کے مختلف پہلووں پر ہر وقت مکالمے اور بحث کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اہل علم جب علمی گفتگو کرتے ہیں تو علم میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ سماجی سائنس کی پرانی تھیوریز اگر فرسودہ ہوجائیں تو نئی تھیوریز جنم لیتی ہیں۔ علم میں بڑھاوا کا یہ عمل مسلسل اور لامتناہی ہے۔

کسی دانشور نے کہا تھا کہ جو شخص روزانہ صبح اٹھ کر اگر کوئی حکمت اور دلیل پر مبنی نئی بات یا علم سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم چکا ہے تو سمجھ لیجیے وہ دماغی طور پر سڑ چکا ہے۔ سڑی ہوئی چیز سے خوشبو کبھی نہیں آ سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments