ہمیں ایک بار پھر دشمنوں کے لیے ہیبتناک ہونا ہوگا: روسی دانشور کی تحریر


روسی سے براہ راست ترجمہ : ڈاکٹر مجاہد مرزا

مشرق میں ایک لوک داستان ہے۔ ایک بار کالے ناگ نے نیک ہونے کا فیصلہ کر لیا اور رینگ کر راہب کے پاس پہنچا تاکہ اس سے مشورہ لے کہ نیک ہونے اور نروان پانے کی خاطر کیا کیا جائے؟ راہب نے کہا کہ تمہیں جارحیت ترک کر دینی چاہیے اور اپنے زہر بھرے دانتوں سے دوسری زندہ مخلوق کو نہیں ڈسنا چاہیے۔ ناگ نے بات مان لی اور ترک رسوم کر دی۔ جونہی جنگل کے جانوروں کو معلوم ہوا کہ ناگ اب انہیں مزید نہیں ڈسا کرے گا، وہ اس کے سر پہ سوار ہو کر اس کا ٹھٹھا اڑانے پہ تل گئے۔

کسی نے پنجے سے کھال چھیل دی، تو کسی نے وہ شاخ ہلا دی جس پہ وہ لپٹا ہوا رینگ رہا تھا تو کسی نے جب وہ سو رہا تھا، اس کے سر پہ ٹھونگ مار دی۔ اور تو اور بزدل ترین خرگوش نے بھی، جو پہلے اس کے نزدیک سے نہیں گزرتا تھا، اسے تنگ کر کے مزہ لیا۔ ناگ نے بہت دیر تک یہ سب برداشت کیا مگر ایک بار پھر تیز تیز رینگتا ہوا راہب کے پاس پہنچا۔ ناگ نے کہا، گرو میں نے وہ سب کچھ کیا جو آپ نے کہا تھا، لیکن میرا تو جانوروں نے جینا اجیرن کر دیا ہے جبکہ میں کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا اور ڈسا تو کسی کو ہے ہی نہیں۔

راہب بولا، ڈسنا ضروری نہیں، مت ڈسنا مگر اپنا پھن پھیلاؤ اور پھنکارو۔ ناگ کو بات سمجھ آ گئی اور وہ پھر سے سکون سے رینگتا ہوا جنگل کی جانب چل دیا۔ راستے میں اسے بندر مل گیا جو کوئی کام نہ ہونے کے سبب عادت کے مطابق نیک ہو چکے ناگ کو تنگ کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ایک لاٹھی اٹھا کے ناگ کو ڈرانا چاہا۔ جونہی بندر ناگ کے نزدیک پہنچا ناگ بلند ہوا، اس نے اپنا پھن پھیلایا، زور سے پھنکارا اور اپنی تیزی سے اندر باہر ہوتی لمبی زبان ہلائی جیسے بندر پر حملہ کرنے والا ہو۔

بندر نے لاٹھی تو وہیں پھینکی اور شاخیں پھلانگتا ہوا جنگل بیچ جا پہنچا اور چیخ کے کہا کہ ناگ نے قسم توڑ دی ہے اب وہ انتقام لینا چاہتا ہے اور سب کو ڈسے گا اور مار دے گا۔ اس کے بعد ناگ کو کسی نے تنگ کرنے کا سوچا تک نہیں۔ ناگ نے رینگنا جاری رکھا مگر کسی نے اس کی نیک بننے والی ریاضت کے دوران اسے چھیڑا نہیں۔ ہم بھول چکے ہیں کہ پیریستروئیکا کیوں کیا گیا تھا، گورباچوو، نے اصلاحات کس لیے کی تھیں، جن کی وجہ سے بیسویں صدی کی ایک بہت بڑی جغرافیائی سیاسی مصیبت شروع ہوئی تھی۔

ہمیں کو آپریٹیوز، پرائیویٹائزیشن کے کوپن اور بیریزووسکی کی نوع کے اٹھنے والے جھاگ سب یاد ہیں مگر سب سے اہم یاد نہیں رکھا۔ مجھے آندرے ردالیوو کی کتاب ”1991۔ وقت انہدام“ میں یہ فراموش کردہ بات مل گئی۔ دنیا سے لڑائی! گورباچوو ”ترک اسلحہ“ اور ” دنیا بھر میں امن کے لیے لڑائی ”کے چکروں میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ معصوم مرحوم نے سوچا کہ وہ دنیا کو ”مثال“ پیش کریں گے اور ساری دنیا ان کی تقلید کرنے لگے گی۔ سب اسلحہ رکھنا چھوڑ دیں گے اور سب امن سے زندگی بسر کیا کریں گے۔ بلکہ نظام سرمایہ داری اور سوشلسٹ نظام میں تصادم تمام ہو جائے گا۔ ایسا کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ پہلے مفروضہ تھا ”پرامن بقا“ پھر تھا ”یگانگت“ اور پھر کیا، کیا؟ بس سوشلزم کو تمام کر دیا گیا اور سرمایہ دارانہ اقدار اپنا لی گئیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ بیریزووسکی اور کیا اس کا نام تھا خدرکووسکی اور ان جیسے باثروت ہو جائیں، نہیں۔ آپ کو سادہ سی بات یاد ہی نہیں کہ یہ سب کے لیے شروع کیا گیا تھا، ۔ اس لیے کہ جنگ نہیں ہونی چاہیے۔

ہم سب تیسری جنگ عظیم سے ڈرتے تھے۔ جوہری جنگ سے۔ یہ کابوس ہمارے خوابوں میں جیتا رہا تھا۔ اور حقیقت میں وہ مسلسل ہمارا تعاقب کرتا رہا۔ بچپن سے ہی۔ اب جوہری ہتھیار کچھ کم تو نہیں ہوئے ہیں ( بلکہ زیادہ ہو چکے ہیں ) ، اور انہیں لے جا کے گرانے کا نظام بھی بدتر نہیں ہوا ( خوب تر ہی ہوا ہے ) مگر ہم نہ جانے اب جوہری تباہی سے اس قدر خائف کیوں نہیں رہے، اس بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں، بات تو کم کرتے ہیں، ڈرتے تو بالکل نہیں ہیں۔

تب مسلسل اور بہت خائف رہتے تھے۔ شاید یہ ہمارا اپنا خوف نہیں تھا؟ شاید یہ خوف ہم میں مغرب نے پیدا کیا ہو ( جس میں ڈھیلا ڈھالا سوویت پروپیگنڈا اور ”امن کی خاطر لڑائی“ شامل تھے ) ؟ اور اب مغرب نہیں ڈرتا، کیونکہ سمجھتا ہے کہ اسے فتح کی ضمانت حاصل ہے۔ وہ ہمیں بم مار کے نیست و نابود کر دے گا اور خود ضد میزائل نظام کی چھتری تلے محفوظ رہے گا۔ مغرب احمق ہے۔ کوئی ضد میزائل نظام کام نہیں کرے گا، دسیوں میزائلوں میں سے ایک اس نظام سے بچ کے نکلے گا اور اپنے ہدف پہ جا مار کرے گا۔

اور پھر آپ کا امریکہ ہو گا ہی نہیں۔ ہم نے گورباچوو کی بات اس لیے مانی اور اس کے اعمال کا خیر مقدم کیا کیونکہ انہوں نے ہمارا خوف تمام کیا تھا۔ ناقابل مفر جنگ کا خوف، جوہری ہتھیاروں سے برپا کی جانے والی قیامت کا خوف۔ ہم اس کے لیے ان کے شکرگزار تھے۔ ہم انجان لوگوں نے یقین کر لیا تھا کہ جھگڑا تمام ہو جائے گا۔

اس لیے کہ ہمارے ہاں سمانتھا سمتھ پہنچی تھی ( وہ امریکی بچی جس نے سویت جنرل سیکرٹری یوری آندروپوو کو خط لکھا تھا کہ جنگ کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ 1983 میں وہ یوری آندروپوو کی دعوت پر سوویت یونین پہنچی تھی اور 1985 میں وہ ایک سڑک پہ ہوئے، لامحالہ امریکا میں، ایک پرا سرار حادثے میں انتقال کر گئی تھی ) اور امریکہ کے راک سٹار نے گیت گایا تھا ”ہمیں توقع ہے کہ روسی بھی اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں ” ( یعنی وہ جوہری جنگ کا آغاز نہیں کریں گے ) ۔ ہم تب اس گیت پہ اس قدر خوش ہوا کرتے تھے۔ کیا زبردست ہے۔ وہ ( امریکی ) ہم سے توقع رکھتے ہیں۔ مگر اس گیت میں ملفوف وہ تحقیر نہیں سمجھتے تھے کہ روسی حیوانوں سے بدتر ہیں کیونکہ حیوان بھی یقیناً اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں اور روسیوں سے متعلق محض یہ توقع کی جا سکتی ہے۔

صرف گورباچیوو ہی نہیں، ہم سب انجان دیوانے تھے۔ یوں ہمیں دھوکہ دیا گیا۔ پورے کروفر کے ساتھ۔ امن باہمی کے اس سلسلے میں ہم یورپ سے نکل آئے، دیوار برلن توڑ دینے دی، وہاں سے اپنی فوج نکال لائے بلکہ اپنی فوج کو ملک میں بھی کم کر دیا۔ ” کرنل واسن اپنی جوان بیوی کے ساتھ محاذ پر پہنچے ” ( یہ شاید، رئیسہ گورباچیوا سے متعلق ہے، ان سے بھی تب پیار کیا جاتا تھا، اگرچہ ان کے متعلق لطائف بھی گھڑے جاتے تھے ) ۔ ”کرنل واسن نے اپنی رجمنٹ کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا : چلو گھر چلیں ”۔

یوں بورس گریبیشنی کوو نے گیت گایا اور ہمارے دل پھر سے موم ہو گئے : یہ کتنی درست بات ہے، اس نے کس طرح حق سچ کہا ہے! ”ہم پہلے ہی ستر برس سے حالت جنگ میں ہیں“ ( 1987 میں عظیم سوشلسٹ انقلاب روس کو 70 برس ہوئے تھے ) ، ”ہمیں سکھایا گیا تھا، کہ زندگی۔ ایک جنگ ہے۔ لیکن جاسوسی کے نئے حقائق کے مطابق یہ ہم نے اپنے آپ سے کی تھی ”۔ جی ہاں! ہمیں سکھایا گیا تھا کہ، زندگی ایک جنگ ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ نیٹو، مشرقی یورپ میں ہمارے چھوڑے ہوئے تمام عسکری اڈوں پہ تعینات ہو گئی، ٹیڑھی میڑھی سرحدوں کے نزدیک تر۔

نیٹو نے بمباری کر کے یوگوسلاویہ کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اور دنیا بھر میں حکمرانی کرنے لگا تھا، عراق، افغانستان، لیبیا میں بلکہ ہر جگہ پہ لوگوں کا قتل عام کر کے۔ کوئی بھی اس کی راہ نہیں روک پایا تھا۔ مغرب کو اس بات سے اطمینان حاصل نہیں ہو پایا تھا کہ سوویت یونین منہدم ہو چکا ہے۔ اس نے قفقاز، پریدنی ستروئے، چیچنیا اور پھر یوکرین میں آگ بھڑکائی۔ اس نے وہاں اپنے پیسے، اپنے ہتھیار اور اپنے مشیر جھونک دیے۔

پھر احمقانہ طور پر اپنے فوجی تک بھیجے۔ شرمندگی محسوس نہیں کی۔ کس سے شرمندہ ہوتے؟ کون کس سے ڈرتا ہے؟ کوئی بھی کسی سے نہیں، بورس بوریسووچ۔ ہمارے استاد درست کہتے تھے۔ زندگی، یہ تو واقعی ایک جنگ ہے۔ اور جنگل میں جانور رہتے ہیں جو تمہاری امن پسندی اور ترک اسلحہ کی پالیسی کو تمہاری بزدلی اور کمزوری پر محمول کرتے ہیں۔ اور تجھے نیست و نابود کرنے پہ تل جاتے ہیں۔ چنانچہ اگر تم ہیبتناک نہیں ہو تو تم مردہ ہو۔

ہمیں پھر سے ہیبت ناک ہونا پڑے گا ( دشمنوں کے لیے، اور دوستوں کے لیے ۔ قابل اعتماد ) ۔ اسے کہتے ہیں : کالے ناگ اپنا پھن پھیلاؤ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مکمل فیصلہ کن انداز اپنائیں اور مقابلہ کریں۔ اس طرح ہی ہم جنگ سے بچ سکتے ہیں۔ کسی سے مت کہیے کہ ہم اصل میں پرامن لوگ ہیں، اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں ( اور صرف اپنے بچوں سے ہی نہیں ) اور یہ کہ ہم انسان نہیں کھاتے۔ یہ ہمارا جنگی راز ہے۔ صدر روس اہم بات پہلے ہی کہہ چکے ہیں : ہم ہر طرح کی صورت حالات سے نمٹنے کو تیار ہیں اور حملہ کیے جانے کا جواب دیں گے چاہے یہ دنیا کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو۔

ہم بہشت میں جائیں گے اور بس جانوروں کی طرح جان دیں گے۔ میں فوری نہیں سمجھا تھا کہ یہ کیا بات کہی اور کس لیے کہی۔ میں اپنے اندر سے معترض تھا۔ مگر اب سمجھ گیا ہوں۔ یہ اس بارے میں ہے کہ ہم اب نہیں ڈرتے۔ اب انہیں ڈرنا چاہیے۔ ہم تیار ہیں۔ اب ہم نہ کسی سے ڈرتے ہیں اور نہ کسی بھی چیز سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments