ایلوس پرسلے، مارلن منرو اور نیند کی گولیاں


مشہور امریکی روک اینڈ رول گلوکار ایلوس پرسلے کو کون نہیں جانتا۔ ایلوس پرسلے جوانی میں لڑکیوں کی دلوں کی دھڑکن ہوتا تھا اور انتہائی پر کشش شخصیت کا مالک تھا لیکن جب وہ صرف بیالیس سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا چہرہ اور جسم، وہ کشش کھو چکے تھے۔ وجہ اس کی نشہ، منشیات اور سکون کی گولیاں۔

ایلوس پرسلے کے آخری بیس مہینوں میں جب بھی وہ شو کرنے جاتا، اس کے ساتھ اس کے تین سوٹ کیسز میں اس کی دوائیاں اور درد کم کرنے اور سکون پہنچانے والی گولیاں بھی اس کے ساتھ ہوتی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان سوٹ کیسز میں بارہ سو گولیاں اور دیگر دوائیاں ہوتی تھیں۔

وہ منشیات اور ان دواوں کا اتنا عادی ہو گیا تھا کہ اس کا جسم سوجنا شروع ہو گیا اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا دل کا سائز دگنا ہو چکا تھا۔ بیالیس سال کیا ہوتے ہیں!

اسی طرح نارماجین کی کہانی ہے جس کو ہم مارلن منرو کے نام سے جانتے ہیں۔ مارلن منرو کو جتنی شہرت ایک خاتون اداکار کے طور پر ملی، شاید ہی کسی اور اداکار کے حصے میں آئی ہو۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ وہ بھی صرف 36 سال کی عمر میں دنیا سے چلی گئی۔

مارلن منرو ساری عمر اپنے باپ کو ڈھونڈتی رہی۔ دس سال کی عمر میں اس کی ماں نے باتھ روم ٹب میں اسے اور خود کو جان سے مارنے کی کوشش کی لیکن مارلن منرو بھاگ نکلی۔ ماں کو ذہنی امراض کے اسپتال میں داخل کر دیا گیا اور مارلن منرو کو یتیم خانے میں۔

مارلن منرو خوبصورت تھی۔ اس کی تصویریں مشہور ہوتی گئیں اور پھر وہ فلموں میں آ گئی۔ اس کے لیے مارلن منرو کو پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کے لئے وہ سب کرنا پڑا جو ایک خوبصورت لڑکی کو فلم انڈسٹری میں آنے کے لئے کرنا پڑتا ہے۔

اتنی شہرت اور دولت کے باوجود بھی وہ خوش نہیں تھی۔ اپنی فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک منظر میں مارلن منرو کو ایک تیز دار آلہ اپنی شہ رگ کے قریب رکھ کر ہیرو کو بلیک میل کرنا ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر کے سین کٹ کرنے کے بعد بھی وہ کسی سوچ میں گم بلیڈ ہاتھ میں لئے کھڑی رہی اور اگر شاید سیٹ پر موجود ایک شخص اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ مارلن آر یو او کے؟ تو وہ شاید اپنے ماضی کا سوچتے ہوئے اپنی شہ رگ ہی کاٹ لیتی۔ اس ذہنی تناؤ سے بچنے کے لئے اس نے دوائیاں اور ڈرگز لینا شروع کر دیں اور صرف 36 سال کی عمر میں وہ اوور ڈوز سے چل بسی۔

مائیکل جیکسن کی شہرت، عزت، دولت اور مرتبہ کے بارے میں کچھ لکھنا الفاظ کا ضیاع ہے۔ اتنا پیسہ تھا کہ اپنی جنت تک الگ بنانے اور ہمیشہ زندہ رہنے کا اس کا منصوبہ تھا لیکن پھر کیا ہوا؟ صرف 50 سال کی عمر میں منشیات کی زیادتی کی وجہ سے چل بسا۔

یہ تینوں سکون کے متلاشی تھے۔ ان تینوں کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی لیکن نہ ان کو رات کو نیند آتی تھی نہ دن کو چین۔ ایلوس پرسلے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کا فضلہ جو اس کی آنتڑیوں میں پڑا تھا، وہ تقریباً چار ماہ پرانا تھا۔ وہ شدید قبض کا شکار تھا۔

اسی طرح ریپر سنگر کانئے ویسٹ جو اب ایک ارب پتی آدمی ہے، لاس اینجلس کی ایک کلینک میں 9 دن رہ کر آیا ہے۔ وجہ، دماغی الجھن اور تناؤ۔

انسان کیوں اتنی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ ہمارے آس پاس کے لوگ، ایک دوسرے سے مقابلہ، حسد، حرص اور ضرورت سے زیادہ کام اور بہت کچھ حاصل کرنے کی خواہش لیکن ان تینوں کے پاس تو سب کچھ تھا۔

یہ سکون آخر کیا چیز ہے؟ ایک قصہ دہرا دیتا ہوں جو کئی لوگ بیان کر چکے ہیں۔ پیرس کی آرٹ گیلری میں ایک مصوری کا مقابلہ منعقد ہوا جس کا عنوان تھا ”سکون“ ۔ مختلف مصوروں نے سکون کو مد نظر رکھتے ہوئے پینٹنگز بنائی۔ کسی نے چڑھتے سورج کا منظر پیش کیا تو کسی نے ساحل سمندر پر سورج غروب ہونے کا۔ کسی مصور نے لڑکا لڑکی کی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھومنے کی منظر کشی کی تو کسی نے سیاہ فام بچے کی سفید فام بچے کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کی تصویر کشی کی۔

مقابلے کے اختتام پر ججز نے ایک پینٹنگ کو چن لیا۔ ہال میں سب لوگ جمع تھے اور سب کو نتیجے کا انتظار تھا۔ وہ پینٹنگ، جس نے انعام جیتا تھا اس پر کپڑا ڈھکا ہوا تھا، اسٹیج پر موجود تھی۔ ہال میں مکمل خاموشی تھی۔ بالآخر ایک جج نے جیتنے والی پینٹنگ پر سے کپڑا ہٹا دیا۔

تصویر دیکھتے ہی ہال میں ایک شور برپا ہو گیا۔ سب لوگ چیخنے لگے کہ اس تصویر کو انعام دیا گیا ہے، یہ تو کہیں سے بھی سکون کے عنوان پر پوری نہیں اترتی۔ لوگ صحیح تنقید کر رہے تھے۔ وہ پینٹنگ کیا تھی بس آڑی ترچھی لکیریں تھیں۔ وہ پینٹنگ بے ترتیبی اور تباہی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ طوفان آیا ہوا تھا، لوگ بھاگ رہے تھے۔ پہاڑ پر سے لاوا ابل رہا تھا اور اس منظر کو ایک آدمی اپنی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا۔ ججز نے لوگوں کو خاموش کرایا اور کہنا شروع کیا کہ آپ لوگ شاید اس پینٹنگ کو سمجھ نہیں سکے۔

اس پینٹنگ میں ہر طرف تباہی، بربادی اور بے سکونی دکھائی گئی ہے لیکن میں آپ لوگوں کی توجہ اس شخص کی طرف لے جانا چاہتا ہوں جو اپنے گھر کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہا ہے۔ آپ لوگوں کو اس شخص کی آنکھوں میں اور چہرے پر کیا نظر آیا؟ لوگوں نے پینٹنگ کو دوبارہ غور سے دیکھا اور کہا سکون۔ جج نے کہا کہ اس مصور نے زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کو کینوس پر پینٹ کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ سکون باہر نہیں، انسان کے اندر ہوتا ہے!

لیکن یہ اندر کا سکون کہاں سے آتا ہے؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments