نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام کی من موہنی باتیں


(ڈاکٹر سلام نے کہا) میں ایک بار پلاننگ کمشن پاکستان کے سابق چئیر مین سے ملنے گیا اور سائنسدانوں کو پیش رہائش کے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ ان مسائل کو دور کریں۔ انہوں نے جواب دیا کراچی کی نصف آبادی فٹ پاتھ پر سوتی ہے وہ بھی وہاں سو جائیں۔ ایک اور موقع پر میں نے ان سے کہا کہ وہ انڈسٹریز لگانے کے معاملے میں جن میں سائنسی علم استعمال ہوتا ہے ان کے لگانے سے قبل ان ان سے مشورہ کر لیا کریں۔ انہوں نے کھرا سا جواب دیا : میں سائنس دانوں سے کیوں مشورہ کروں میں اپنے گھر میں باورچی سے کھانے کے معاملے میں ہرگز کوئی مشورہ نہیں کرتا۔

قرون وسطیٰ میں سائنسی فکر اور سوچ کے خلافت مذہبی اداروں کی مخالفت اس قدر شدید تھی کہ (1000 کے بعد تک) البیرونی کا وہ واقعہ یاد آتا ہے کہ اس پر اس کے ایک ہم عصر نے مرتد ہونے کا الزام عائد کیا تھا جب البیرونی نے اپنے بنائے ہوئے سائنسی آلے میں (شمسی) ، باز نطینی کیلنڈر استعمال کیا تھا۔ اس سائنسی ایجاد کا مقصد پنجگانہ نماز ادا کرنے کے لئے صحیح وقت کا تعین تھا۔ البیرونی نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے اس کا جواب یوں دیا: بازنطینی تو روٹی بھی کھاتے ہیں، کیا آپ روٹی کے خلاف بھی شریعت کا کوئی حکم جاری کر دیں گے۔

امپیریل کالج لندن میں پرو فیسر بلیک اٹ 1956 (Blackett ) میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے چئیر مین تھے۔ ان کو کالج کے تھیوریٹکل ڈیپارٹمنٹ کے لئے چئیرمین کی تلاش تھی۔ پروفیسر ہانس بیتھ Bethe نے اس کو مشورہ دیا کہ وہ عبد السلام کا اس چئیر کے لئے انتخاب کر لیں۔

چنانچہ انہوں نے سلام کو ملازمت کی پیش کش کردی۔ البتہ سلام کو پروفیسر ٹیمپل Templeکے سامنے انٹرویو کے لئے پیش ہونا تھا جو کہ ایڈنگٹن کے معترف و مداح تھے۔ انٹر ویو کے دوران ٹیمپل نے سلام سے پوچھا ایڈنگٹن کی اسٹرانومی پر کتاب کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے؟ سلام کی رائے کچھ اتنی اچھی نہیں تھی مگر چونکہ ان کو ٹیمپل کی رائے کا علم تھا اس لئے یوں بر جستہ جواب دیا:

I had not read the book with the detachment of a neutral mind. Prof. Temple smiled and said:
Young man, you should go to diplomatic service.

ڈاکٹر سلام کو خدا نے غضب کا حافظہ نوازا تھا۔ جس وقت سلام گورنمنٹ کالج لاہور میں تحصیل علم کر رہے تھے تو ساتھی طلباء کو اس چیز کا بخوبی علم تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر وحید قریشی ان کے ہم جماعت تھے۔ ایک روز طلباء کا ایک گروپ یونہی انار کلی بازار گھومنے گیا۔ جب وہ بازار سے گھومتے ہوئے دوسری طرف پہنچ گئے تو وحید قریشی نے سلام سے پوچھا کہ کیا وہ بازار کے دائیں طرف کی ہر دکان پر لگے ہوئے سائن بورڈ پر لکھے نام کو دہرا سکتے ہیں؟ جب سلام نے نوے فی صد نام ٹھیک ٹھیک دہرا دیے تو ڈاکٹر قریشی انگشت بدنداں رہ گئے۔ سلام کو اس ٹیسٹ کا بازار میں داخل ہونے سے قبل بالکل نہیں بتایا گیا تھا۔

ڈاکٹر عبد السلام نے 1988 میں ڈائراک میموریل لیکچر دیتے ہوئے سامعین کو بتایا کہ بچپن میں (1936) ان کا تعارف فطرت کی چار قوتوں کے بارے میں ان کے سکول ٹیچر سے ہوا تھا۔ پہلے تو ٹیچر نے قوت ثقل کے بارے میں بتایا کہ ہر کوئی اس کے بارے میں شدبد رکھتا ہے کیونکہ نیوٹن جیسے عظیم سائنسدان کا نام جھنگ جیسے دور افتادہ شہر میں بھی ہر ایک کو معلوم تھا۔ پھر اس نے مقناطیسی قوت کے بارے میں بتایا اور اس کے ساتھ ایک مقناطیس بھی دکھلایا۔

پھر اس نے الیکٹریسٹی کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ جھنگ شہر میں نہیں پائی جاتی بلکہ یہ لاہور میں پائی جاتی جو کہ ایک سو میل دور تھا۔ آخر پر اس نے نیو کلیر فورس کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ قوت یورپ میں پائی جاتی ہے انڈیا میں نہیں۔ اس لئے ہمیں اس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ Salam، Unification of fundamental forces، page 35

ڈاکٹر سلام (وفات 1996) برطانیہ میں اور ڈاکٹر وائن برگ (وفات 2021) امریکہ میں اس تھیوری یعنی الیکٹرو ویک تھیوری پر تحقیقی کام کر رہے تھے جس کی بنا پر ان کو 1979 میں نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا تھا۔ اس تھیوری کو وضع کرنے میں بہت سے آئیڈیاز سے کام لیا گیا جن میں سے ایک کا نام spontaniously breaking symmetry تھا۔ سوال یہ تھا کہ سیمٹری ٹوٹتی کیسی ہے؟ اس کو آسانی سے سمجھانے کے لئے سلام درج ذیل مثال دیتے تھے : فرض کریں شام کے وقت آپ نے چار افراد کو کھانے پر مدعو کیا ہے۔

وہ ایک بڑے گول میز پر بیٹھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو قاعدہ کا علم نہیں تو مہمان کسی بھی کرسی پر بیٹھ سکتے اور پلیٹ کو چاہے دائیں یا بائیں طرف سے لے لیں۔ یہ سیمٹری کی حالت کہلاتی ہے۔ لیکن جو نہی ان مہمانوں میں سے کسی نے پہل کر کے پلیٹ اٹھا لی تو پھر باقی کے مہمانوں کو اسی طرف پلیٹیں اٹھانا ہوں گی۔ یوں لیفٹ اور رائٹ کی سیمٹری spontaneously broken ٹوٹ گئی۔

ائر مارشل ظفر چوہدری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اور میرا چھوٹا بھائی صبح کے وقت لندن میں ڈاکٹر سلام کی رہائش گاہ پر گئے۔ سلام نے ہمیں قدرے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ کہ انہیں امپیریل کالج جانا ہے اور بیٹری کمزور ہونے کی وجہ سے کار سٹارٹ نہیں ہو رہی۔ میرے بھائی نے کہا اگر صرف یہ بات ہے تو لازما دھکا لگانے سے کار سٹارٹ ہو جائے گی۔ سلام بہت حیران ہوئے اور کہا کیا واقعی اس طرح کار سٹارٹ ہو جائے گی؟ میرا بھائی کار میں بیٹھا، ڈاکٹر صاحب اور میں نے کار کو دھکا لگایا اور جلد ہی سٹارٹ ہو گئی جس سے یہ مشکل حل ہو گئی۔ یوں ہم پر یہ راز کھلا کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک عظیم سائنس دان روز مرہ کے معمولی ٹوٹکوں سے واقفیت رکھتا ہو۔

کیمبرج یونیورسٹی سے رخصت ہوتے وقت ڈاکٹر سلام نے اپنے نگران پروفیسر نکولیس کیمر Nicholas Kemmer سے درخواست کی کہ وہ انہیں ایک سفارش نامہ لکھ دیں کہ انہوں نے پی ایچ ڈی کا تحقیقی کام کرنے کے دوران تسلی بخش کام کیا تھا۔ اس پر سلام کے نگران پروفیسر نے جواب دیا تم مجھے یہ تصدیق نامہ لکھ کر دو تم نے میرے ساتھ کام کیا ہے۔

ڈاکٹر سلام کی ہمشیرہ حمیدہ بشیر نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب سنگا پور جانے کے لئے کراچی سے گزر رہے تھے کہ ان کا سوٹ کیس جو وہ ساتھ لے کر چلے تھے گم ہو گیا۔ ائر لائن کو فون کیا تو انہوں نے کہا آپ نئے کپڑے خرید لیں ہم قیمت ادا کر دیں گے۔ ڈاکٹر سلام نے کوئی غم و غصہ کا اظہار نہ کیا، صرف اتنا کہا کہ ان کو کپڑوں کی پڑی ہے مجھے ان ضروری کاغذات کی جن کی مجھے وہاں ضرورت ہوگی۔

ایک سائنسدان اٹلی میں ڈاکٹر سلام کے انٹر نیشنل سینٹر فار تھیورٹیکل فزکس میں موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے بیس بیس گھنٹے تحقیقی کام کیا کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کی صحت خراب ہو گئی۔ اس نے ڈاکٹر سلام سے ملاقات کی اور ان کو اپنی گرتی ہوئی صحت سے آگاہ کیا کہ وہ کس قدر شدید تناؤ کا شکار ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کو ایک ہفتے کی رخصت دے دی اور ساتھ میں دو سو امریکن ڈالر بھی دے دیے کہ جاؤ آسٹریا کے پہاڑوں میں جا کر وقت گزارو، اور ری لیکس ہو جاؤ۔ اس نے ایسا ہی کیا اور صحت مند ہو کر واپس آیا اور تحقیق کا کام دوبارہ نئے جذبے اور ارتکاز کے ساتھ شروع کر دیا۔

ڈاکٹر سلام کی انٹر نیشنل سینٹر فار تھیورٹیکل فزکس (ٹریسٹ اٹلی) سے تیس سال بعد ریٹائر منٹ کے موقع پر الوداعی تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر دنیا کے مختلف ممالک کے نمائندوں اور سائنسدانوں نے شرکت کی۔ اور سب سے بڑھ بڑھ کر ان کے معرکہ آراء علمی کارناموں پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ آخری روز ان کو الوداع کہنے کے لئے مداحوں کی ایک لمبی قطار بن گئی۔ تمام سائنسدان رفتہ رفتہ آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ سلام علالت کے باعث وہیل چئیر پر بیٹھے ہوئے تھے۔

دوست اور رفیق کار ان کے سامنے آ کر رکتے اور الوداعی الفاظ میں ان سے رخصت لیتے ہوئے آگے روانہ ہو جاتے۔ ایک پاکستانی کے لئے یہ عقیدت اور عزت و احترام، چشم فلک نے یہ نظارہ کب دیکھا ہو گا۔ اس تقریب سعید میں معروف نیو کلیئر طبیعات دان اور محب وطن پروفیسر پرویز ہود بھائی بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر ہود بھائی نے بتایا کہ کس طرح ایک نوجوان پاکستانی طالب علم بھی آپ کے پاس آیا اور نہایت تعظیم سے جھک کر کہا : سر پاکستان کو آپ پر فخر ہے۔ پیارے پاکستان کا لفظ کان میں پڑتے ہی سلام کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رخساروں پر جھم جھم بہنے لگے۔

قیام پاکستان سے قبل لالہ ایش کمار گورنمنٹ کالج لاہور میں انگلش کے استاد تھے۔ ان کے شاگردوں میں سے ایک ڈاکٹر سلام تھے۔ سلام کو نوبل انعام ملنے کے بعد دہلی یونیورسٹی نے سلام کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ سٹیج پر وزیر اعظم ہندوستان کے ساتھ سلام بھی تشریف رکھتے تھے۔ دو تین ہزار سامعین میں وزیروں، سفیروں اور امیروں کی درمیان ایک ضعیف العمر شخص بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر سلام نے اس بزرگ کو پہچان لیا، سٹیج سے اتر کر سرخ قالین پر چل پڑے اور سیدھے اس معمر کے پاس پہنچ گئے۔ یہ لالہ ایش کمار تھے۔ ان کو اپنے ہمراہ لے کر سلام سٹیج پر واپس آئے اور وزیر اعظم کے ساتھ کی کرسی پر ان کو بٹھا دیا۔ (ایش کمار، چناب سے کومتی تک، ماہنامہ افکار کراچی جنوری 82 )

ڈاکٹر عقیلہ اسلام، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج فار ویمن کراچی نے بیان کیا کہ 1958 میں کراچی میں ایک سائنس کانفرنس منعقد ہوئی جس کا افتتاح برطانیہ کے پرنس فلپ نے کیا تھا۔ جملہ نامور شرکاء میں جولین ہکسلے Huxley کے علاوہ ڈاکٹر سلام نے بھی لیکچر دیا۔ پاکستان کے کئی ایک ابھرتے ہوئے سائنسدانوں نے بھی اس کانفرنس میں پرجوش شرکت کی۔ جب سلام نے لیکچر دینا شروع کیا اس وقت ہال کھچا کھچ بھرا ہوا، اور تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔

سامعین دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے۔ آپ کے لیکچر کا موضوع Matter and anti۔ Matter تھا۔ لیکچر بہت ہی ادق اور سمجھ سے باہر تھا۔ مگر اس کے باوجود سلام کی طلسماتی شخصیت اور جوانی کے عمر کے باعث لوگوں نے اس کو پوری توجہ اور انہماک سے سنا۔ لیکچر سننے کے بعد میں نے سائنس دان بننے کا فیصلہ کر لیا اور نیوکلیئر فزکس کی فیلڈ میں تحقیق شروع کردی۔

ڈاکٹر انیس عالم، پنجاب یونیورسٹی لاہور نے بیان کیا ڈاکٹر سلام نے ایک دفعہ سائنس کی ترقی کے لئے ایک ادارے کے قیام کا خاکہ پیش کیا۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہ یہ انسٹی ٹیوٹ پنجاب میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے سلام کی صدارت میں اس غرض سے ایک کمیٹی بنائی جس میں جاپان، کوریا اور انڈیا وغیرہ کے پروفیسر بھی شامل تھے۔ اس منصوبے کا خلاصہ سیکرٹری ایجوکیشن کے توسط سے وزیر اعظم بے نظیر زرداری کو بھجوا دیا گیا۔ ان کی طرف سے جواب آیا کہ اس قسم کے دو ادارے قائم کیے جائیں ایک اسلام آباد میں اور دوسرا ٹھٹھہ میں۔ چنانچہ ٹھٹھہ میں ایک زمیندار سے سینکڑوں ایکڑ زمین بڑے مہنگے داموں پر خرید لی گئی۔ اس طرح اس منصوبے کے لئے ابتدائی رقم زمین خریدنے پر ہی صرف ہو گئی اور منصوبہ آسودہ خاک ہو گیا۔

1979, Stockhom, Sweden — Left to right: Sheldon Lee Glashow, USA, Abdus Salam, Pakistan, and Steven Weinberg, USA, before receiving this years Nobel Prize for physics in Stockholm.

اصغر علی گھرال کالم نگار روزنامہ پاکستان لاہور نے ایک کالم میں لکھا: نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر سلام کے بارے میں بعض مولویوں نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ وہ پاکستان کے سائنسی راز (؟) امریکہ، روس اور یورپ کو سمگل کرتے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بستی سے اچانک درزی بھاگ گیا تو بستی میں کہرام مچ گیا۔ کسی کے سوٹ کا کپڑا لے گیا اور کسی کی شیروانی کا۔ کوئی عورت اپنے غرارے کو رو رہی ہے تو کوئی شلوار قمیض کو۔ لیکن ان سب سے زیادہ گاؤں کا میراثی اونچی آواز میں آہ و بکا کر رہا تھا۔ کسی نے اس سے دریافت کیا تمہارا کیا نقصان ہوا ہے؟ ہچکیاں لیتے ہوئے اس نے انکشاف کیا کہ ظالم میرا ناپ لے گیا ( اسلام یا ملا ازم صفحہ 145 )

پاکستان ٹائمز کے ایک رپورٹر نے سلام سے سوال کیا : کیا خدا کا وجود ریاضی سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ سلام نے جواب دیا : This is rubbish یہ بالکل بیہودہ مفروضہ ہے۔ اس چیز کو سائنس میں دیکھا اور پرکھا ہی نہیں جاتا۔ دیکھیں موت کے موضوع پر سائنس میں کوئی بحث نہیں ہوتی۔ انسان کیوں پیدا ہوا، اور کیوں مرتا ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سائنس تو اس کو فارمولیٹ نہیں کر سکتی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ غیب کا مطلب ہے وہ اشیا جن کا انسان سوچ اور گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اس لئے سائنس کے ذریعہ آپ کسی کا مذہب تبدیل نہیں کر سکتے۔ نہ ہی غیر مذہبی کو مذہبی بنا سکتے ہیں۔ سائنس تو آپ کو بعض گائیڈ لائنز مہیا کرتی ہے۔

ڈاکٹر سلام کے چھوٹے بھائی چوہدری عبد الحمید نے بیان کیا کہ نوبل انعام ملنے کے بعد ڈاکٹر صاحب 15 دسمبر 1979 کو کراچی تشریف لائے۔ 18 دسمبر کو وہ اسلام آباد گئے۔ اگلے روزن نیشنل اسمبلی میں جنرل ضیاء الحق نے یہ حیثیت چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی آپ کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری دی۔ کنووکیشن سے قبل عصر کی نماز ادا کرنے کے لئے لوگ ہال میں نکل رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے سلام سے مخاطب ہو کر کہا: کیا آپ ہمارے ساتھ نماز ادا کریں گے یا علیحدہ پڑھیں گے؟ سلام نے جواب دیا: میں نماز الگ ادا کروں گا۔ جنرل ضیاء نے کہا: مجھے پتہ ہے کہ آپ ہم سے اچھے مسلمان ہیں۔ سلام نے کہا: کیا میں آپ کا یہ بیان اخبارات میں شائع کروا دوں؟ جنرل صاحب نے جواب دیا: ضرور کروائیں لیکن میں انکار کر دوں گا۔

Scientific thought and its creation is the common & shared heritage of mankind. (Salam)
(ماخوذ از : مسلمانوں کا نیوٹن ٹورنٹو اپریل 2003 صفحات 291۔ 305 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments