تاریخ نویسی، کہانی نویسی اور تاریخ نگاری


ہمارے یہاں ٹیکسٹ بکس میں چھپی ہسٹری اکثر اوقات سیاسی لطیفوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے، سرکاری اعداد و شمار کا معاملہ بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے، دور کیوں جائیں کرونا میں عام گلی محلے کی پان کی دکانوں اور بسوں میں سفر کرنے والے عام مسافروں سے یہی سنے کو ملا کہ کرونا کوئی خطرناک وبا نہیں، حکومت باہر سے پیسے پکڑ رہی ہے وغیرہ وغیرہ، تو سرکاری سچ اور لوگوں نے اس کو کتنا سنجیدہ لینا ہے یہ سب ہی جانتے ہیں لیکن اس چکر میں ایک اور بات سامنے آتی ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو تاریخ کو کیسے پیش کیا جائے، ریکارڈ کی ترتیب کیسے ممکن ہو، بات تاریخ نویسی اور اگلی نسل تک پہچانے کی ہے، کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، یہ ایک عام شکوہ سنے میں آتا ہے، سرکاری تاریخ کی کتابوں کی صحت کا علم بھی کم و بیش وہی ہے۔

میں اپنی بات کر لیتا ہوں مجھے جنگی تاریخ کے سبجیکٹ میں دلچسپی ہے، آج انٹرنیٹ پر جس نوعیت کا میٹریل حاصل کرنا چاہوں اس حوالے سے حاصل کر سکتا ہوں، اور کرتا بھی ہوں، لیکن اس حوالے سے پاکستانی معلومات یا تو بہت کم ہیں یہ ان میں تاریک پہلو اتنے زیادہ نظر آتے ہیں کہ پڑھ کر پریشانی بڑھ جاتی ہے، تاریخ تاریک بھی ہوتی ہے اور روشن بھی، یہ تو کرداروں اور ان کو درپیش حالات کا معاملہ ہے، لیکن تاریخ بہرحال پہچانی تو چاہیے یا تو اس سے تقویت حاصل کی جائے یا سبق سیکھا جائے، بھارتی اچھے ہیں برے، ان کے یہاں جمہوریت آج کس نوعیت کی ہے بحث اس کی نہیں سوال یہ ہے کہ وہاں جمہوریت جاری رہنے کی وجہ سے تاریخ کلیئر رکھی گئی، حالانکہ سنگل پارٹی رول کئی دہائیوں تک جاری رہا، ویسے دنیا بھر میں سرکاری تاریخ اسی انداز میں پیش کی جاتی ہے جیسی یہاں، لیکن غیر سرکاری لوگ جب تاریخ لکھتے ہیں تو اس کے بھی کئی زاویے ہوتے ہیں، جیسے ہم مشرقی پاکستان کے سانحے پر اگر بات کریں، تو تقریباً پچاس ساٹھ کتابیں تو نکل ہی آئیں گی، اس میں پاکستان کے سابق فوجیوں، سفارتکاروں سیاستدانوں کی تحریریں شامل ہیں وہیں بھارت کے صحافیوں، تاریخ نویسوں، فوجیوں کی کتابوں کی بھی لسٹ موجود ہے، پھر بنگلا دیش کے لکھاریوں کے کتب بھی موجود ہیں، کسی مخصوص رائٹر کا نام نہیں لکھنا چاہوں گا، لیکن اس پر بہت زیادہ ورژن موجود ہیں، اس معاملے پر جیسے گرد کافی صاف ہو چکی، کم از کم ان ذہنوں میں جو کتابیں پڑھتے ہیں، لیکن جو خاندانی قصوں سے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، یا اپنی عمر کے زوم میں مبتلا ہیں، ان کو بھی نئی نسل کے ساتھ مختلف رائٹرز کی کتابوں کے مطالعے کا مشورہ دوں گا، پینسٹھ کی جنگ بھی، لیاقت علی خان کی شہادت اور بعد میں پیش آنے والے واقعات کافی ابہام کے حامل ہیں۔

چلیں کتابوں سے نکل کر تاریخ پیش کرنے کے دوسرے حصے کی جانب آتے ہیں یعنی ٹی وی اور فلمز میں کس طرح تاریخ رقم ہوئی یعنی پیش کس طرح کی گئی۔ کچھ دنوں پہلے پی ٹی وی پر ارطغرل غازی اور پھر سلطان عبدالحمید کا چرچا رہا، ہمارے سرکاری ٹی وی پر ارطغرل نشر ہوا تو ہم نے سوشل میڈیا پر یہ بحث دیکھی کہ یہ ارطغرل کون ہے، اس کا ہماری تاریخ سے کیا لینا دینا، جیسے اس قبل گلیڈیئٹر اور باہو بلی تو جیسے ہمارے ہی کریکٹر تھے، اللہ اللہ کر کے کوئی تاریخ سے جڑی چیز چلی تو صحیح، رسپانس بھی آیا، جیسے خلا ء کو پر کرنے کی اچھی کوشش ہوئی، یہ سوال ہم انگریزی فلم دیکھتے ہوئے، یا ہندی فلم دیکھتے ہوئے نہیں کرتے، پھر ہم اپنی ہیروز کے لیے علاقائی قید میں کیوں نظر بند ہو جاتے ہیں۔

بلا شبہ ترکی ( اب ترکیہ ) والوں کا کام اچھا لگا، یہاں بھی ماضی میں اس طرح کے ڈرامے بنائے گئے، سب کے نام شامل کرنا ممکن نہیں، فاطمہ ثریا بجیا اللہ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے سرکاری ٹی وی کے لئے کافی کچھ اچھا لکھا، بابر، لبیک قابل ذکر ہیں، پھر نسیم حجازی کا آخری چٹان، قاسم جلالی صاحب کو اس میدان میں ڈائریکشن دینے میں خصوصی ملکہ حاصل تھی، کچھ دن قبل یو ٹیوب پر نشان حیدر سیریز کا لانگ پلے کیپٹن راجہ سرور شہید دیکھا بہت خوبصورت پلے تھا کرداروں اور اداکاروں میں قرق محسوس نہیں ہوتا، صرف سلیم ناصر مرحوم ہی کیا باقی کرداروں نے بھی اپنے کردار پوری دل جمی سے نبھائے، سلیم ناصر کے علاوہ دیگر مقبول اداکاروں کے ساتھ ساتھ مجھے ذاتی طور پر سلیم ناصر (یعنی ڈرامے میں کیپٹن سرور ) کے سگنلز میں چیف انسٹرکٹر کا رول نبھانے والے امتیاز احمد کا انداز بہت شاندار لگا، وہ ایک سابق شاہی برطانوی فوج کے افسر نظر آئے، کردار نبھانے والے اپنے حصے کا کام کر گئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ڈرامے دوبارہ جدید ٹیکنالوجی بہتر پکچر کوالٹی کے ساتھ پیش ہونے چاہیے، بھئی مغل اعظم بھی دو باری کلر میں ریلز ہوئی، یہ ڈرامے تو پھر کلر میں شوٹ ہوئے، لائٹنگ کی ایشوز ہیں ان کو اب بہتر طور پر ڈھالا جا سکتا ہے، وسائل کی کمی کا ذکر جہاں ڈرامے میں ہوتا نظر آیا، 1947۔ 48 ء کے وقت میں ڈھلا فوجی انداز میک اپ، وردی ہتھیار ( جیسے برطانوی ساختہ مشین گن، برین گن ) ، غرض فوٹو گرافی کا ایک ایک فریم دل سے بنایا گیا، ڈائیلاگ عمدہ تحریر، ریسرچ بہترین، کسی طور پر کسی اچھی ہالی وڈ مووی سے کم نہیں، کیپٹن راجہ سرور شہید درحقیقت تل پترہ کی جس پہاڑی پر شہید ہوئے انھیں وہیں دفن کر دیا گیا تھا، وہ مقام اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہی ہے، یہاں گوجر خان جی ٹی روڈ پر تو ان کی یادگار ہے جہاں پھول چڑھانے کی رسم ہر سال ادا کی جاتی ہے۔

1980 ء میں یہ ڈرامہ پہلی بار نشر ہوا، اب ایسا لگتا ہے شاید وہ فیل نہیں موجود، کمرشل ازم میں کہاں لکھا ہے کہ چیز بنانے کا کام بنا بغیر تخلیقی صلاحیتوں کے کیا جائے، شاید میں پرانے خیالات یعنی اولڈ اسکول آف تھوٹ سے تعلق رکھتا ہوں، اس وجہ سے بھی کوالٹی پر اصرار کر رہا ہوں، بعد میں اصغر ندیم سید صاحب کی تحریر میں ہمیں اچھے اور جدید کیمروں سے شوٹ ہوا کیپٹن عزیز بھٹی ملا، لوکیشنز یعنی لاہور فرنٹ، بی آر بی نہر کا کنارہ بہت خوبصورتی سے استعمال ہوا، بہت دل آویز تھا کئی اعتبار سے، بہترین لیکن میں ہتھیاروں کی سلیکشن میں اچھا ریٹ نہیں کروں گا، مشین گن کی جگہ ایم پی فائیو، اور برین گن کی جگہ ایم جی تھری نظر آئی، ( ایم پی فائیو کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا) ، عزیز بھٹی سے بہت پہلے یعنی 80 s میں شہزاد خلیل مرحوم کا پروڈیوس کیا ہوا راشد منہاس یقینا بہت ہی شاندار پلے تھا، راشد منہاس کا کردار نبھانے والے فاروق اقبال جو خود ائر فورس کا حصہ تھے خوبصورتی سے اپنا کردار نبھا گئے، پھر اس زمانے امریکی ساختہ ٹی 33 دستیاب تھے جو درحقیقت راشد منہاس نے فلائی کیا تھا، ہاں آخری حصے میں امریکن ایف 86 سیبر کی جگہ چینی ساختہ ایف سکس طیارے نظر آئے، ظاہر ہے حالات کی مجبوری تھی، کے سیبر اس وقت سروس میں نہیں تھے، لوکیشنز بھی دستیاب تھی، میجر طفیل شہید کے حوالے سے نشر ہونے والا ڈرامہ بھی شاندار تھا، ایسٹ پاکستان کے پس منظر میں بنا یہ ڈرامہ کراچی کے ان علاقوں میں شوٹ ہوا جو اب کلفٹن میں ہونے والی تعمیرات کی وجہ سے گم ہو گئے، 90 کی دہائی میں پاکستان نیوی کے تاریخی کارناموں پر تین ڈرامے سال بہ سال نشر ہوئے غازی شہید، پھر آپریشن دوارکا آخر میں فیصلہ، تینوں ڈراموں کی ہدایات کاظم پاشا کی تھی، بلاشبہ اچھے انداز میں بنے، فیصلہ تو اصل گن بوٹ پی این ایس راجشاہی بوٹ پر شوٹ ہوا تھا، جو درحقیقت واقعے سے منصوب ہے، غازی شہید اور آپریشن دوارکا تو یوٹیوب پر مل جاتے ہیں، لیکن فیصلہ ابھی تک اپ لوڈ نہیں ہوا یوٹیوب پر ، مطلب ایک صفحہ تاریخ کا رہ گیا اگلی نسل تک پہچانے سے، پھر ٹیپو سلطان کے حوالے سے بنے والے سیریل کا ذکر کروں گا، اوریجنل لوکیشن کی کمی بہتر متبادل لوکیشن سے پوری کی گئی، سیٹ، لباس، یہاں تک اس زمانے توپیں تک ڈرامے کے لیے بن وائی گئیں، جو یقینا مصنوعی تھیں، بلا شبہ اچھی کاوش، کوٹ ڈی جی اور جہلم کے روہتاس قلعے کا خوبصورت استعمال دیکھنے میں آیا، کرداروں کا انتخاب، اداکاری سب اچھے تھے، مقصد یعنی تاریخ کو آگے پہچانا حاصل کیا گیا یقینا، لیکن میرے جن دوستوں نے لارنس آف عربیہ، گنز آف نیوران یا برج آن دی ریویر کوائی دیکھی ہے وہ میری بات کی یقینا تصدیق کر سکیں گے یقینا کچھ دوست یہ سوال بھی کھڑا کریں گے کہ برادر یہ آپ ڈراموں سے ہالی وڈ کی فلمز کا موازنہ کرنے تو نہیں بیٹھ گئے، نہیں جناب میں تو تاریخ پیش کرنے کے حوالے بات کر رہا ہوں، اب چاہے وہ فلمز کے ذریعے ہوں یا ڈراموں کے ذریعے، ویسے ڈراموں کا مقصد تو آگاہی ہے، چلیں خیر الفاظ کو ظائع ہونے سے بچاتے ہیں مزید، پیٹر اٹول کی لارنس آف عربیہ مجھے کئی اعتبار سے بہترین لگی، بہت دل آویز انداز میں اس کو پکچرائز کیا گیا، ظاہر ہے، پیٹر اٹول کا انتخاب بلا شبہ شاندار تھا، وسائل کی کمی ویسے ہی کوئی نہیں تھی ہالی وڈ کے اندر، لارنس آف عربیہ اور حجاز ریلویز کے حوالے سے میری اپنی ایک اور تحریر ابھی کمپوزیشن کے مرحلے میں موجود ہے، اس پر بہت تفصیل سے بات ہوگی۔

مغرب میں سال کے سال کم و بیش ایک فلم تو دوسری جنگ عظیم کے پس منظر پر سامنے آتی ہے، وہاں سالانہ پریڈ اور اوپن ڈیز پر فل ڈریس لائیو پرفارمنسز کا رواج بھی ہے، جیسے نارمنڈی میں کس طرح اتحادیوں نے جرمن نازی فوج کو کچلا، ائر شوز ہوتے ہیں، جس میں پرانے طیارے حصہ لیتے ہیں، وہاں ان کی نئی نسل تک تاریخ تو پہنچائی جا رہی ہے یہاں حکومت تبدیل ہوتی تو امتحانی سوالات بھی بدل جاتے ہیں۔

کراچی میں برے حالات میں اسٹیج ڈراموں نے عوام کو بہت تفریح دی، اسٹیج اداکار برے وقت میں اچھے ساتھی ثابت ہوئے، یہ اسٹیج ڈرامے ایک عرصے تک مزاحیہ انداز میں کسی سوچ کو پھیلانے کا میڈیم رہے، قدیم یونان میں بھی اسٹیج کا مقصد یہی تھا کہ اچھے پہلوؤں کو اجاگر کر کے معاشرت کا حصہ بنایا جائے، یہاں پاکستان میں تو اس کو صرف کامیڈی اور رقص سے جوڑا جاتا تھا، اور اگر ہم کہیں کافی حد تک داغدار شہرت ہو گئی تھی اس فیلڈ کی یعنی تھیٹر کی، میں اسٹیج کے حوالے سے بہت زیادہ بالکل نہیں جانتا لیکن کچھ دن قبل میرا اتفاق ہوا، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری انور مقصود کی تحریر شدہ حالیہ تھیٹر ڈرامہ دیکھنے کا ، آزادی اور اس کا آج سے کیا ربط ہے، یہ تھیم تھی اس ڈرامے کی، انور مقصود تو ہلکے پھلکے انداز میں بڑی بڑی باتیں، سماج میں بہتری کا پیغام پہچا دیتے ہیں، تاریخ کا سبق انہوں نے بھی پہنچایا، سوالات کھڑے کیے ہمارے آج پر ، بگاڑ تو کافی ہے معاشرے میں، لیکن انور صاحب نے کسی کو نہیں چھوڑا، مطلب جس نے جتنا حصہ بگاڑنے میں ڈالا انور مقصود صاحب کے قلم کے نشانے پر اتنا ہی آیا۔ اسی طرح ایک میدان ٹی وی ڈاکیومینٹری کا بھی ہے جو پاکستان میں خاصہ خالی خالی محسوس ہوتا ہے، کسی مخصوص دن پر اس طرح کا کچھ چلا دینا تو جیسے ہمارے ٹی وی چینلز کو دکھ ہو گیا ہو گویا، ایک خالی میدان میں کیا کہوں، گانے تو جاری ہو جاتے ہیں، بس دن گزر ہی جاتا ہے۔

واقعہ نگاری جہاں اخباروں، رسالوں، کتابوں فلمز اور ڈراموں میں ہوتی ہے، وہیں ایک اور اینگل بھی ہے وہ ہے پینٹنگز کا میدان، ایک امریکی اشاعتی ادارے جس کا پتہ نیو یارک کا ہے، لیکن اس ادارے میں اردو زبان میں تاریخ کی کتابیں چھاپیں، وجہ معلوم نہیں شاید پاکستان کے ابتدائی زمانے میں حکومت پاکستان کے وسائل کی کمی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو گا، لیکن ان کتابوں میں تاریخ کے حوالوں کے بہتر طریقے سے پیش کرنے کے لیے پینٹنگز بھی موجود ہیں، ان کتابوں میں جب ابتدائی تعارفی صفحات کا جائزہ لیا تو جو نام سامنے آیا وہ پاکستان کے مشہور آرٹسٹ آفتاب ظفر کا تھا، تاریخ پاکستان خصوصاً مسلمان حکمرانوں بعد میں انگریز دور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے متحرک وقت کا زمانہ آفتاب ظفر صاحب نے کمال انداز میں پیش کیا، بعد میں ان کے کام کلنڈروں اور بینکوں کے ڈائریز میں رنگین حالت میں دیکھا، ان کے کام کے ساتھ چھوٹے چھوٹے واقعات کا مختصر تعرف بھی مل جاتا ہے، اب تو ڈائریاں اور کلنڈروں کا زمانہ بھی تاریخ بن چکا، لیکن میں سمجھتا ہوں بہت اہم خدمت تاریخ پہنچا نے کے میدان میں آفتاب صاحب نے بلا شبہ کی، پھر پاکستان بنے کے بعد خصوصاً ایک انوکھا میدان ونگ کمانڈر ایس ایم حسینی صاحب نے بھی سنبھالے رکھا، یہ میدان ان کی وجہ سے ہی پاکستان میں عسکری تاریخ کو رنگوں اور لکیروں پر لایا، وہ پاک فضائیہ کی وابستگی کی وجہ سے بھی وہ کام آسانی سے کر گئے جس تک پہنچ شاید کسی سویلین کے بس کی بات نہیں ہوتی، لیکن آج میں دیکھتا ہوں ان کے روحانی شاگرد نہ صرف پاکستان ائر فورس میں رہتے ہوئے ایوی ایشن آرٹ کے ذریعے ملک کی عسکری تاریخ کینوس پر لا رہے بلکہ ایک لمبی فہرست ہے ایوی ایشن آرٹسٹ کی جو دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہوتے ہوئے اس میدان کے ساتھ جڑے ہیں۔

اختتام پر یہی کہوں گا، تاریخ نویسی آج بھی محض گوگل کے کان کھینچنے کا نام نہیں، صرف کتابیں ٹٹولنے سے بھی کام نہیں بنے گا، تاریخ آگے پہچانا اس مواد کے معیار پر ٹکا ہے کہ ذخیرہ معلومات کا معیار کتنا اچھا ہے، یعنی آرکائیونگ (Archiving ) کتنی اچھے انداز میں کی گئی ہے، جب کہیں جاکر آپ اس پوزیشن میں ہوں گے کے تاریخ آگے نسل تک پہنچائے جائے، جذبات اور غیر ضروری جملوں سے محفوظ رکھا جائے، جیسے ہے اور جہاں ہے کی بنیاد پر پہنچائی جائے، کسی بھی وابستگی سے بالا ہو کر، غیر جانبداری بھی ایک لازمی عنصر ہے اس کام کا ۔ پھر کتاب پی ڈی ایف اور ویڈیو یو ٹیوب پر کب ڈالی گئی تک آ گئی ہے، لیکن ہم کہیں اور ہی گم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments