بپا جانی اور”روحونیت”کے پرچارک عمران خان میں فرق تلاش کریں


درجنوں پرائیویٹ ٹی وی چینلز، تیز ترین انٹرنیٹ سروس اور سوشل میڈیا کے اس جدید ترین دور میں آپ کچھ بھی چھپا نہیں رہ سکتا، ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں کہ جس بندے کے پاس بھی اپنا اسمارٹ فون ہے وہ ایک طرح سے اپنے میڈیا ہاؤس کا مالک ہے کہیں بھی کچھ ایسا رونما ہوتا ہے جو اس کے حساب سے غلط ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تو وہ فوری طور پر اپنے اسمارٹ فون کا کیمرہ آن کر کے ان لمحات کی ویڈیو بنا کر اپنے کنٹیکٹ کو استعمال میں لاتے ہوئے ویڈیو وائرل کر سکتا ہے چند سیکنڈ میں ویڈیو کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔ حالانکہ کافی عرصہ پہلے انڈیا میں بننے والی ایک فلم جس کا نام ”پی کے“ تھا میں بڑے واضح انداز میں اسمارٹ فون کی طاقت کو اجاگر کیا گیا تھا اور معاشرے کے ”رونگ نمبرز“ کو بڑے واضح انداز میں ایکسپوز کر کے دکھایا گیا تھا کہ کیسے دھرم کے محافظ مختلف فرقوں کی برانچیں کھول کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں اور اپنے اپنے چندے کے غلے بھرتے رہتے ہیں۔ مذہبی معاشروں میں مذہب کے پیچھے چھپنا بہت آسان ہو جاتا ہے اسی لیے جواب دہی کا کوئی مضبوط ڈھانچہ نہیں بن پاتا اور ایسے معاشرے جو جذبات کی آماجگاہ بن جاتے ہیں وہاں عقل سے سوچنے کا چلن ختم ہوجاتا ہے اور لوگوں کی اکثریت محض ”جذباتی پتلیاں“ بن کے رہ جاتے ہیں جنہیں کوئی بھی مداری اپنے وقتی مفاد کے حصول کے لیے اپنی انگلیوں پر نچا کر چلتا بنتا ہے۔

وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے یہی سب تماشے چل رہے ہیں۔ پوسٹ ٹروتھ طرز کے معاشروں میں حقائق بے معنی سے ہو جاتے ہیں اور پروپیگنڈے یا سازشی تھیوریاں عروج پانے لگتی ہیں، اسی مخمصے والی کیفیت سے فائدہ اٹھا کر مختلف طبقات کے با اثر ایکٹرز اپنی اپنی ایکٹنگ کی بین بجانے میں لگ جاتے ہیں۔

آج کل سوشل میڈیا پر جن کا سودا سب سے زیادہ بک رہا ہے اس میں سرفہرست روحانیت کے جگمگاتے ستارے عمران خان اور کراچی کے بپا جانی المعروف الیاس قادری ہیں۔ دونوں میں مماثلت اس وجہ سے پائی جاتی ہے کہ دونوں سوشل میڈیا کے فیوض و برکات مطلب ”دکھتا ہے تو بکتا ہے“ سے مکمل طور پر مستفید ہو رہے ہیں اور ایڈورٹائزمنٹ سائیکالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی توجہ کو حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب نظر آرہے ہیں۔

مثلاً بپا جانی نے مہنگائی کے اس دور میں موٹر سائیکل کی ٹینکی کو بھروانے کے ساتھ ایک وظیفہ بھی ارشاد فرمایا ہے جس کی برکت سے آپ کی موٹر سائیکل کی ٹینکی جلدی خالی نہیں ہوگی۔ مدنی قفل یعنی چمڑے کی ایک عینک متعارف کروائی گئی تاکہ انسانی ذہن پاک و صاف رہے اور آنکھ مٹکا سے لطف اندوز نہ ہو۔ اس کے علاوہ مدنی تکیہ متعارف کروایا گیا تاکہ موٹر سائیکل چلانے والے کے پیچھے سواری کرنے والا درمیان میں تکیہ رکھ لے تاکہ عضو تناسل تکیے سے رگڑ کھا لذت حاصل کرلے مگر انسانی پشت سے نہ ٹکرا جائے ورنہ انسانی ذہن شیطان کی ورکشاپ بننے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگائے گا۔ اس کے علاوہ صرف ”مدنی“ کا لاحقہ لگا کر درجنوں اشیا متعارف کروائی گئیں اور اسلامی بھائی بغیر کچھ سوچے یا سوال اٹھائے خریدنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بپا جانی نے اپنے آخری دیدار کی ریہرسل بھی شوٹ کروا دی ہے اور مراقبہ موت، رمضان المبارک یا ربیع الاول کی آمد و رخصتی پر تمام خصوصی رسومات باقاعدہ مدنی چینل پر دکھائی جاتی ہیں۔

اب ان باتوں کا حقیقت سے کتنا تعلق بنتا ہے یا یہ وظائف کتنے کامیاب ہوتے ہیں اس کا تو خیر کوئی پیمانہ نہیں ہے کیونکہ یقین و عقائد کی دنیا یکسر مختلف ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا مقام ہوتا ہے جہاں عقل کی مداخلت کو گستاخی سمجھا جاتا ہے۔ کہنے اور توجہ دلانے کا مقصد یہ ہے کہ مارکیٹنگ اور اشتہار بازی کے اس دور میں لوگوں کے پاس اتنا ٹائم بھی نہیں بچتا کہ وہ ذرا سا توقف کر کے اپنے ارد گرد ہونے والے جھوٹ سچ کو پرکھ کر اپنی کوئی رائے قائم کر سکیں اور کس میں اتنی ہمت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے رانگ نمبرز کے آگے سوالات کی دیوار کھڑی کر کے ان کو ایکسپوز کرے جو صدیوں سے ان کا استحصال کرتے چلے آ رہے ہیں۔

دوسری طرف ملنگ دوراں اور انہی کی زبان میں کہیں تو ”روحونیت“ کے پرچارک جناب عمران خان کو لے لیں، بطور پلے بوائے اپنی جوانی کی بھرپور رنگینیاں خوب انجوائے کیں، یورپ کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے علاوہ وہاں کی دلکش لائف سے بھی خوب مستفید ہوئے اور زندگی کی سہ پہر میں ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے کے ساتھ ساتھ خود کی شخصیت کو مذہبی و روحانی ٹچ بھی دے ڈالا۔ دنیا گھوم کر یہ بات تو وہ اچھے سے جانتے ہیں کہ کہاں کیا بکتا ہے اور کون سا گیٹ اپ یا گھونگھٹ کارگر رہتا ہے؟ تو دل کے بچے کھچے ارمان پورے کرنے کے لیے تگ و دو جاری ہے اور لمحہ موجود میں ہاتھ میں تسبیح اور زبان پر مولانا رومی کی حکایات اور علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کا ورد جاری رہتا ہے۔ لوگوں میں اپنا روحانی امیج یا ساکھ کو مضبوط بنانے کے لئے اور ایڈورٹائزمنٹ سائیکالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گاہے بگاہے نماز ادا کرتے ہوئے کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ننگے پاؤں حرم کی زمین پر چلنا، ہیلی کاپٹر میں نماز کی ادائیگی کے مناظر اور تقاریر میں اسلامی حوالوں کے علاوہ فلسفہ حسینیت کا ذکر بھی چلتا رہتا ہے۔

آج کل سیاسی منظرنامہ کو بدلتے دیکھ کر ارطغرل ذہنیت کی عکاسی کچھ اس انداز میں ہو رہی ہے کہ اپنے پیروکاروں سے ایڈولف ہٹلر کی طرز پر حلف لے جا رہے ہیں تاکہ فرقہ عمرانیہ کی جڑیں عوام کے ذہنوں میں راسخ ہو جائیں مگر اس کی آڑ میں جو خوفناک کھیل ایسے نوجوانوں کے ذہنوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے جن کے سیاسی سفر کا آغاز ہی عمران خان کی گمراہ کن تقاریر سننے کے بعد سے شروع ہو رہا ہے اور وہ ابھی سیاسی ابجد یا سابقہ اتار چڑھاؤ کی سیاسی تاریخ سے بالکل ہی نابلد ہیں اور انہوں نے سیاست کی جو رام کہانی سنی ہے وہ مسیحا وقت عمران خان کے منہ سے سنی ہے تو سوچیں اس نوجوان نسل کا کیا بنے گا؟ اس فرضی بساط کے نتائج آنے والے دنوں میں کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کون جانے؟

مذہب کا ہتھیار جنونی معاشروں میں بہت کارگر ثابت ہوتا ہے اور لوگ مذہب کا نام سنتے ہی صدیوں کے محرومیاں و زیادتیاں نظر انداز کر دیتے ہیں اور خان صاحب اس قسم کی مذہبی نفسیات کو بڑے اچھے سے جانتے اور سمجھتے ہیں اسی لیے انہوں نے اپنی بے وقوف بناؤ مہم میں سب سے پہلے ایم ٹی جے برانڈ کے سربراہ طارق جمیل سے ہاتھ ملا لیا تھا تاکہ وقت پڑنے پر ضرورت پوری ہو سکے۔

اب اسی ایڈورٹائزمنٹ سائیکالوجی کے معجزے ملاحظہ فرمائیں کہ اس قوم نے خان صاحب کے ساڑھے تین سالہ دور کے دعوے ہوا میں اڑتے دیکھے، دوسروں کو کرپٹ و غدار کہنے والے کا خود کا کردار کتنا صالح ہے وہ بھی سامنے آ گیا۔ اس کے علاوہ امریکہ کی سازش کا کٹھا چٹھا، سائفر کی کہانی، روحانی گینگ کے ہیروں کے ہار اور پانچ قیراط کی ہیرے کی انگوٹھیوں کی کہانیاں، القادر یونیورسٹی کی داستانیں، ناجائز اکاؤنٹ اور توشہ خانہ سے تحائف وغیرہ چرانے کے علاوہ آڈیو لیکس کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ زبان زد عام ہو چکا ہے مگر ان سب حقائق کے باوجود فرقہ عمرانیہ کے فدائین اس سارے چکر ویو کو کرپشن ماننے سے ہی انکاری ہیں۔ نا ماننے میں ان کا قصور بالکل نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے سے انہیں ذہنی معذور یا دولے شاہ کے چوہے بنایا گیا ہے اور انہیں ایک ہی طرح کا بیانیہ بار بار دکھا کر ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی گئی ہے اور جن کے مذہبی و سیاسی سفر کا آغاز بپا جانی اور عمران خان کے ”اسکرین ڈیمو“ سے شروع ہوا ہو ان کے ذہنی طور پر بالغ ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ پرتجسس آنکھ جو مشاہدہ کر سکتی ہے وہ سب عقیدت و عقیدہ کی آنکھ دیکھنے کی سکت ہی نہیں رکھتی اسی لئے تو کلٹ نفسیات تیزی سے پھلنے پھولنے لگتی ہے کیونکہ عقیدہ سوچنے جیسے تکلف سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑوا دیتا ہے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ

”بیلیو دی سنرز اینڈ کیوسچن دی سینٹس“
چونکہ ایک دیانتدار گناہگار درجنوں بناوٹی پرہیزگاروں سے بہتر ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments