لکھو اور سوشل میڈیا پہ ڈال دو


سوشل میڈیا کیا آیا دنیا ہی بدل گئی۔ آپ کا اپنا ذاتی کچھ نہیں رہا، ہر چیز سوشل ہو گئی ہے۔ سوشل ہونے کا بخار اکثر لوگوں کو دل و دماغ کے ساتھ آنتوں کو بھی چڑھ چکا ہے۔ کہ اگر کوئی اپنی زندگی کی آخری سانسیں بھی گن رہا ہو تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ لمحہ سوشل میڈیا پہ شیئر ہو جائے۔ کئی ایک تو ایسے دیکھے ہیں جن کو معمولی سا بخار بھی ہو جائے تو وہ سوشل میڈیا پہ ڈالنے کے لیے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے اپنی ویڈیو بنا لیتے ہیں کہ کیا پتہ یہ بخار جان لیوا ہو جائے۔

اور اکثر ایسی ویڈیو وہ مہینے دو مہینے بعد بناتے رہتے ہیں۔ گئے وقتوں میں کسی پر نزع کا عالم طاری ہوتا، تو لوگ ان لمحات کی خبر کسی کو نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ نہ ہو شور ڈالنے سے جانے والا رک جائے۔ انھیں لگتا تھا کہ رولا پڑ جائے تو مرگ ہوتی ہے نا پیدائش۔ دونوں بیچ راستے میں ہی اٹک جاتی ہیں۔ لیکن اب جب تک رولا نہ پڑے دونوں واقع نہیں ہوتیں۔ بلکہ کئی بار تو کسی کو سچ میں مارنے کے لیے جھوٹی افواہیں پھیلانا پڑتی ہیں تاکہ حضرت عزرائیل کا دھیان ہمارے ٹارگٹ پر بھی پڑے۔

سوشل ہونے کے لیے لوگ طرح طرح کے طریقے اپناتے ہیں۔ بیگانی شادی میں عبداللہ تو ہمیشہ سے دیوانہ تھا۔ لیکن کچھ لوگ سوشل میڈیا کی وجہ سے اپنی شادی میں بھی حواس باختہ ہونے لگے ہیں۔ شادی کے ایک ایک پل کی تصویر سوشل میڈیا پہ ایسے اپلوڈ کر رہے ہوتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ موصوف یا موصوفہ اس تقریب کے اہم کردار ہیں یا تقریب کی کوریج کے لیے انھیں ہائر کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پہ موجود دوستوں کو ہر لمحہ سے اس طرح باخبر رکھتے ہیں کہ ڈر لگنے لگتا ہے کہ اس دیوانگی میں وہ سب نہ دکھا جائیں جو صرف انھیں خود ہی دیکھنا ہے۔ سوشل میڈیا پر تصویریں اپلوڈ کرنے کے جنون میں اپنی شادی کو خود انجوائے کرنے کی بجائے وہ لوگوں کو تفریح کا سامان مہیا کر رہے ہوتے ہیں۔

کوئی مانے یا نہیں لیکن سوشل میڈیا کا یہ احسان ہے کہ یہاں اکیلا کوئی نہیں ہوتا، اور سارے ویلے یہاں مصروف ہوتے ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ اکثر بیوی کے طعنے سہنے والے زندگی سے بیزار، سست اور کچھ خاصے عمر رسیدہ لوگ بھی رات چار بجے ادھر ایکٹو ہوتے ہیں۔ کئی ایک تو پکڑے بھی جاتے ہیں ”راتی چار وجے آن لائن، چکر کی اے“ ۔ چکر چاہے کوئی نہ ہو، لیکن یار دوست تو حسب عادت توا لگاتے ہیں لیکن بیوی اس بات پہ توا نہیں چمٹا لگاتی ہے وہ بھی گرم کر کے۔

گھر والوں کے لیے چاہے ضروری بات کے لیے بھی وقت نہ ہو، سوشل میڈیا پہ بیٹھے انجان لوگوں کے ساتھ رات رات بھر خوب باتیں ہوتی ہیں۔ بلکہ کئی لوگوں کی تو باتوں ہی باتوں میں پپیاں جپھیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ کہاں یہ عالم تھا کہ کوئی محبت کا مارا اک بوسے کے لیے ترستا رہتا تھا۔ ظالم ایسے تھے کہ تحریروں میں بھی اس کی اجازت نہ دیتے۔ جس کو اس کی زیادہ حاجت ہوتی وہ اسے ٹکروں میں ب و س ہ لکھتا اور اکیلے ہی سرور پاتا۔ لیکن سوشل میڈیا پہ بوسے کی جگہ اس کے متبادل معروف لفظ چ م ی جوڑ کر بھی لکھ دیں تو ستے خیراں، کوئی فحاشی کا الزام نہیں لگاتا۔

جب سے سوشل میڈیا آیا ہے پرنٹ میڈیا جیسی قدیم چیز سے جان چھوٹ گئی ہے۔ ورنہ تو ایک وقت ایسا بھی تھا کہ کوئی مصنف ع، غ کی پرواہ کیے بنا کچھ لکھ مارتا تو پھر وہ کتنا ہی بڑا سچ کیوں نہ لکھتا اس کو مقدمات کی ایسی مار پڑتی کہ ”وہ توبہ توبہ کرا دتی تو ظالما“ کی دہائیاں دیتا پھرتا۔ پرنٹ میڈیا کی قدغنیں ہی ختم نہیں ہوتی تھیں۔ پرنٹ میڈیا کے لیے کچھ بھی لکھتے ہوئے پانچ سو بار سوچنا پڑتا تھا۔ سوچ بچار کے بعد پھر بھی اگر کوئی مجبور ہو کر دل کی مان لیتا تو تحریر اور صاحب تحریر کا انجام وہی ہوتا جو شہزادہ سلیم سے ملنے کے بعد انار کلی کا ہوا تھا۔

پرنٹ میڈیا کی حد تک یہ پابندیاں آج بھی جاری ہیں۔ انھی پابندیوں کی وجہ سے پرنٹ میڈیا کا حال وہی ہوا ہے جو پرائیویٹ چینل کی وجہ سے پی ٹی وی کا۔ سوشل میڈیا کی موجودگی میں پرنٹ میڈیا 981 ء کی کوئی چیز لگنے لگا ہے۔ یقین کریں کہ پرنٹ میڈیا پہ آج بھی برہنہ بازو قبول نہیں کیے جاتے۔ میرا ایک کالم اخبار کے ایڈیٹر نے صرف اس لیے مسترد کر دیا کہ اس میں بندر اپنی شریک حیات کے لیے سلیو لیس شرٹ لایا تھا۔

کہا ادھورے کپڑے پہننے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا، کہ اس سے اخبار کے ذریعے فحاشی پھیلنے کا خطرہ ہے۔

جس دن میرا کالم بندریا کو سلیو لیس شرٹ پہنانے کی وجہ سے مسترد ہوا، اسی رات ایک نجی محفل میں بندر کے ارمانوں پر اوس ڈالنے والے ایڈیٹر صاحب ایک نیم برہنہ میڈم کے ساتھ باجماعت اٹکھیلیاں کرتے دیکھے گئے۔ بہت جی چاہا ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پہ ڈال دوں کہ یہاں کچھ نہ بھی پہنا ہو تو چلتا ہے۔ لیکڈ ویڈیو کو کالم سے زیادہ شہرت ملتی۔ کہ لیکڈ ویڈیو آج کل ٹرینڈ میں ہے۔

اگر آپ بھی لائکس اور کمنٹس کی بھر مار چاہتے ہیں ہیں تو جو جی میں آئے بلکہ جو جی میں نہ آئے وہ بھی کریں۔ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ بس الٹا سیدھا لکھیں اور سوشل میڈیا پہ ڈال دیں۔ جب سب شتر بے مہار ہوچکے یہاں تو پھر آپ کیوں پیچھے رہیں۔ آئیے آگے بڑھیے اور حسب توفیق بلکہ توفیق سے کچھ آگے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالیے اور بھر پور لائکس سمیٹیں، کہ سیدھے طریقے تو شاید کسی نے آپ کو لائک کرنا نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments