کیا پاکستان ایک ناکام ریاست ہے؟


سیاسی اور سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ جو بھی حکومت اور اس کے ادارے اپنے عوام کے لئے وہ ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو جائے جس کے لئے ان کو منتخب کیا گیا ہے یا وہ ادارے بنائے گئے ہیں تو وہ ناکام ریاست ہے۔ کسی ریاست کے کامیاب یا ناکام ہونے میں بڑی عنصر قومی ترجیحات ہوتی ہے جو افراد یا اقوام اپنی توانائیاں تعلیم صحت اور ترقی کی بجائے فروعی اختلافات اور نان ایشوز پر صرف کرتی ہے وہ کمزور سے کمزور تر ہو جاتی ہے اور انفرادی و اجتماعی سطح پر ناکامی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

ریاست کی ناکامی کی دو بڑی وجوہات یہ ہوتی ہے کہ کوئی ریاست اپنے جغرافیائی حدود کی حفاظت نہ کرسکے یا اپنے عوام کے جان و مال کی حفاظت نہ کرسکے۔ امریکی جریدے فارن پالیسی نے دو ہزار آٹھ میں پاکستان کو ناکام ریاست قرار دیا تھا مگر حکومت پاکستان اور سول سوسائٹی نے امریکی جریدے کے اس دعوے کو شر انگیز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ امریکی جریدے کی رپورٹ کو چودہ سال گزر گئے، ہم نے رپورٹ مسترد کر کے فخر محسوس کیا کہ شاید ہم نے بڑا تیر مارا ہے۔ ہم نے رات گئی بات گئی کے مصداق اس بات کو بھلا دیا کہ امریکی جریدے نے ہمیں ناکام ریاست کیوں کہا۔ کیا ہم ناکام ریاست بننے کی جانب گامزن تو نہیں۔ آئیے ذرا اپنے ریاستی اداروں اور حکومتوں کی ترجیحات اور ناکامیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات کوئی انہونی بات نہیں مگر جب آئین و قانون کے مطابق ایک جماعت انتخابات جیت جاتی ہے تو وہ حکمران بن جاتی ہے اور دوسرا حزب اختلاف، یہاں سے دونوں کا کردار الگ ہوجاتا ہے مگر دونوں کے عمل اور کردار کا حتمی مقصد ملک و قوم کی فلاح و بہبود ہی ہوتا ہے۔ انتخابات جیتنے والی جماعت اپنے منشور کے مطابق حکومت چلاتی ہے جبکہ حزب اختلاف ان کی پالیسیوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے چار یا پانچ سال انتظار میں بیٹھ جاتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ایک مرتبہ صاحب اختیار بننے والا ہر شخص زندگی بھر وہ اختیار چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کے سیاسی رہنماء حکومتوں سے اپنے من پسند فیصلے کروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور پانچ سال انتظار کرنے کی بجائے دن رات ایک کر کے حکومت کو گرانے کی سازشوں میں لگ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں منتخب حکومت، حکومت کرنے کی بجائے حکومت بچانے میں لگ جاتی ہے اور عوامی مسائل کے حل کی بجائے ان کی ترجیح اقتدار کا بچاؤ رہ جاتا ہے۔

سیاسی افراتفری اور انتہاپسندی کے یہ منحوس سائے ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کے ذریعے بیوروکریسی اور پولیس سے ہوتے ہوئے عوام تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے گزشتہ صرف دو مہینے کے حالات و واقعات کا جائزہ لے۔ تو صورتحال کچھ یوں ہے کہ ایک طرف ملک کا ایک تہائی علاقہ اور عوام سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور مہنگائی و بے روزگاری نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے مگر دوسری جانب حکمرانوں کی ترجیحات ملاحظہ کیجئے۔ ملک کے چھ میں سے چار اکائیوں میں حکمران جماعت تحریک انصاف وفاق پر چڑھائی کی تیاریوں میں مصروف ہیں، وفاق میں حکمران دس جماعتوں کا اتحاد اس لانگ مارچ یا چڑھائی کی روک تھام میں مگن، وفاق، صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا آپس میں دست و گریباں ہے۔

وفاقی حکومت آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور کا تبادلہ کراتا ہے وزیر اعلی پنجاب اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس کو چارج چھوڑنے سے منع کرتے ہیں۔ محکمہ انٹی کرپشن پنجاب آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتا ہے، ایف آئی اے عمران خان اور اس کے سابق وزراء کو بلاتی ہے تو محکمہ انٹی کرپشن چار سالہ پرانے کیس میں وفاقی وزیر داخلہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرا کے پولیس بھجواتی ہے۔ بیوروکریسی میں تقسیم کا یہ حال ہے کہ تحریک انصاف نے سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کے سیکرٹری فواد حسن فواد کو سالوں تک جیل میں بند رکھا تو اب شہباز حکومت عمران خان کے سیکرٹری اعظم خان پر کیسز بنانے کے لئے پر تول رہی ہے۔

نواز شریف کے حامی درجنوں اعلی بیوروکریٹ عمران خان کے دور میں کھڈے لائن لگے ہوئے تھے اور اب وہ اعلی عہدوں پر فائز ہو کر مخالفین کو سائیڈ لائن کر رہے ہیں۔ اعلی عدلیہ بھی سیاسی جماعتوں کی طرح واضح گروپ بندی کا شکار ہے۔ سینئر ترین ججز اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف خطوط لکھ کر میڈیا کو جاری کرواتے ہیں اور چیف جسٹس تمام تر تنقید کے باوجود اپنے ہم خیال ججز کے ساتھ مل کر سیاسی مسائل پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ آئین کی پاسداری کے ذمہ دار آئین کو پامال کرتے ہوئے سات مہینے سے سپریم کورٹ میں ججز کی خالی اسامیوں کو پر نہیں کر رہے ہیں۔

کہنے کو تو سینیٹ و قومی اسمبلی موجود ہے مگر گزشتہ ایک سال سے پارلیمنٹ کے ممبران خود پارلیمنٹ کی بے توقیری کر رہے ہیں۔ اور یہی پارلیمنٹیرین عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کی بجائے اپنے تمام مسائل بھی عدالتوں کے سر ڈال رہے ہیں۔ قانون کی پاسداری اور اخلاقیات میں یورپ و امریکہ کی مثالیں دینے والے سیاستدان ڈنکے کی چوٹ پر سیاسی مقاصد کے لئے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ عوام میڈیا اور عدلیہ کی تنقید کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں۔

اس میں تو اب کوئی شک نہیں کہ ہماری فوج کے چند جرنیل اور انٹیلی جنس اداروں کے افسران کا حکومتیں بنانے اور بگاڑنے میں کافی کردار رہا ہے۔ مگر سیاستدانوں کی منافقت ملاحظہ ہو کہ جب تک فوج کے ساتھ شریک اقتدار ہو تو فوج اپنے سربراہوں سمیت ان کے لئے سر کا تاج ہوتا ہے۔ اور فوج اور حکومت دونوں ایک دوسرے کی کوتاہیوں سے صرف نظر کو اپنا فرض سمجھ لیتی ہے مگر جونہی وہ اقتدار سے الگ ہوتے ہیں تو انہیں نہ صرف سول سپر میسی یاد آجاتی ہے بلکہ وہ تمام خامیاں بھی جو بعض فوجی عہدیدار دہائیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ انہیں پھر فوج کے زیر نگرانی چلنے والے وہ کاروبار بھی یاد آ جاتے ہیں جو انہی کی منظوری یا چشم پوشی سے وہ کرتے رہے ہیں۔

درجہ بالا حقائق کی روشنی میں نہ تو ہمارے جغرافیائی حدود محفوظ ہیں نہ عوام کی جان و مال، مثلاً امریکی ڈرون اور انڈین میزائل ہمارے حدود کی خلاف ورزیاں کرتے رہے ہیں اور کشمیر پر انڈیا نے اپنا تسلط جما لیا۔ دہشت گرد جب چاہے اور جہاں چاہے اپنی مرضی کی کارروائیاں کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ سرکاری محکمے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ یہاں یہ مشہور ہیں کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں سرکاری ملازمین کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کا کمیشن۔ اونچا دکان پھیکا پکوان کے مصداق بڑے بڑے نام والے ادارے اندر سے مکمل طور پر کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ ایسے میں ریاست پاکستان کامیاب ہے یا ناکام یہ فیصلہ آپ خود کیجئے۔ میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments