بے گناہ مقتول کو دھرم پال جیسا باپ کیوں نہیں ملا؟!


عدالت عالیہ کی طرف سے کسی کو رہائی کے بعد کوئی تبصرہ مناسب یا نامناسب ہونے پر بہت سی عالمانہ اور قانونی آراء موجود ہیں۔ در اصل آج کسی کو سزا ملنے یا نہ ملنے کا مدعا زیر بحث نہیں لانا چاہتا۔ بس اک بے گناہ مقتول ستیش کے باپ دھرم پال کے بارے میں آپ کو بتانا ہے۔ دھرم پال کے شہر کندھ کوٹ کا ذکر خیر بھی کرنا ہے۔ یہ جو آج کل سندھ کے شہر اور دیہات اک طرح کی جاگیرداری، نو لبرل ازم کا سیاسی و سماجی منظر پیش کرتے ہیں، یہ اس طرح سے نہیں تھے، کندھ کوٹ جیسے چھوٹے، درمیانے شہر سندھ کے طول و عرض میں خوبصورت نخلستانوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔

جہاں پر جمہوریت، ادب، ترقی پسندی، جدت، شوق علم، سیاسی اور انسانی حقوق کے لیے لوگ جدوجہد کرتے نظر آتے تھے۔ ان کے حوصلے کے سامنے بڑے آمر، جاگیردار اور سردار کمزور پڑ جاتے تھے۔ ون یونٹ ہو یا آمر ضیا کی سانس کو روکنے والی حکومت، ان چھوٹے چھوٹے شہروں اور لوگوں کی آواز دبانہ کوئی آسان نہ تھا۔ بس پھر آمروں اور نؤآبادیاتی۔ نؤ لبرل سیاست کرنے والوں نے کچھ دہائیوں کے اندر ہی ان شہروں اور قصبوں کو دوبارہ جاگیردارانہ نظام کا حصہ بنا دیا!

ان شہروں نے کیا کیا نہ عجب روایات کی بنیاد ڈالی تھی۔ میرے شہر گھوٹکی کے ہندو وکیل آسر داس نے 1979 ع کے بلدیاتی الیکشن میں غلام محمد مہر جیسے بڑے سردار، انسان، زمیندار اور سیاستدان کے بھائی علی نواز خان مہر کو ہرا کر گھوٹکی شہر کے چیئرمین بن گئے۔ یہ فتح گھوٹکی شہر کی روشن خیالی، جمہوریت پسندی اور سردار غلام محمد خان مہر کی سیاسی رواداری اور نتائج کو قبول کرنے کی اعلیٰ ظرف کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ کئی سال بعد ، سردار غلام محمد خان مہر کو کسی نے نے کان میں آ کر کہا ”سردار صاحب! دیکھیں، آپ کے دشمن آسر داس کا بھائی آپ کے ضلع میں افسر بنا ہوا ہے، اس کو تو نکال باہر پھینکیں“ ۔ سردار صاحب کا جواب سیاسی بصیرت اور سماجی رواداری کی اعلیٰ مثال تھی: ”ارے تم کو میں جانتا تک نہیں! لیکن آسر داس اور اس کے خاندان کے ساتھ تو میرا خوشی اور غمی کا واسطہ ہے!“ ”سیاسی اختلاف اپنی جگہ، لیکن تم مجھے ایسا کم ظرف سمجھتے ہو کہ میں اپنے لوگوں کو دربدر کرتا پھروں؟!“

دھرم پال کی وجہ سے آج مجھے اور بہت کچھ یاد آ رہا ہے، پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں، کراچی اور لاہور میں جدت کی بنیاد ڈالنے والے دو اعلیٰ انسان، جدید شہری نظام کے پلانر، انتظام برپا کرنے والے، مفکر کے درجے کے لوگ یاد آرہے ہیں!

جمشید نسروانجی مہتا 1933 میں کراچی کے پہلے منتخب میئر بنے اور جدید کراچی کی اعلیٰ منصوبہ بندی کے ساتھ بنیاد رکھی۔ اور جب 1950 تک صرف تین سالوں میں کراچی کی آبادی کئی گناہ بڑھ گئی تو شہر نے اس آبادی کو برداشت کیا بلکہ کئی دیہاتوں تک کراچی میں بسنے والے جمشید نسروانجی کی مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت اور اس کے بنیاد پر کی گئی منصوبہ بندی کی وجہ سے بہت بڑے مسائل سے بچے رہے۔ رائے بہادر سر گنگا رام اگروال کو ’جدید لاہور کا بانی‘ کہا جاتا ہے۔

وہ کتنے بڑے پلانر، آرکیٹیکٹ اور سول انجنیئر تھے، شاید پاکستان کے نوجوان بچے بچیوں کو بالکل بھی اندازہ نہیں! شاید لاہوری نوجوان انجنیئر بھی ان کو کم جانتے ہوں گے ۔ بس پاکستان کے دو بڑے شہروں کی جدت کے معماروں کو یاد کرنا ضروری تھا! لیکن دھرم پال کا ان کے ساتھ ذکر کیوں ضروری تھا؟! ان تینوں اعلیٰ قدر انسانوں میں اک چیز مشترک ہے کہ یہ لوگ انسانی خدمت اور اک بہتر، جدید اور علم سے بھرپور معاشرے کا خواب دیکھتے تھے /ہیں۔ اور دھرم پال اپنے اتنے بڑے ناقابل تلافی نقصان کے بعد آج بھی ایسا ہی خوب دیکھتا ہے!

کراچی میں 2012 میں شاہ زیب قتل ہو گئے تھے۔ مرحوم اورنگزیب خان مقتول کے والد تھے۔ کسی بھی ماں یا باپ سے اس کی نوجوان اولاد کے بچھڑنے، نا حق قتل کے دکھ کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا! صرف سوچنے سے ہی جسم و روح کانپ جاتے ہیں! الفاظ معانی کھو دیتے ہیں۔ بس اس پر کچھ زیادہ لکھنے کی ہمت ہے نہ ہی جسارت! اگست 2018 میں اورنگزیب خان نیوزی لینڈ میں چھٹیاں گزارتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس وقت وہ سندھ پولیس کراچی میں اے آئی جی بن چکے تھے۔

موت برحق ہے۔ کب، کہاں، کیسے آ جائے کسی کو کیا معلوم! بس مرحوم اورنگزیب خان کے اور ان کے خاندان کا درد و الم کی شاید کوئی حد نہ ہو۔ مقتول شاہ زیب کیس کے کئی مرحلے اور اسباق ہین، ان کو تاریخ دان، عمرانیات کے ماہر اور قانون دان قلم بند کریں گے۔ ریمنڈ ڈیوس کے مشہور زمانہ کیس، قصاص و دیت کے حوالے سے بھی کوئی مماثلت ہے یا نہیں، میں نہیں جانتا! شاید مجھے جاننا ہی نہیں۔ بس آپ کو دھرم پال کے بارے میں بتانا تھا جو اک نو عمر مقتول ستیسش کے باپ ہیں اور وہ خوبصورت دماغوں کے شہر کندھ کوٹ کے باسی ہیں، جو شاید اب بھی سخت جاگیردارانہ سماج کے گھیرے میں آیا ہوا اک نخلستان ہے، تبھی تو وہاں دھرم پال جیسے انسان بستے ہیں۔

کسی بد مست استاد نے نویں جماعت کے ستیش کو مبینہ تشدد، خوف اور صدمہ دے کر قتل کر دیا تھا! شاید آج سے کوئی اٹھارہ بیس دن پہلے۔ تعلیم کے وزیر سردار علی شاہ نے اس واقعہ کا نوٹس لیا۔ کندھ کوٹ کی ہندو پنچایت کی داخل شدہ ایف آئی آر کے نتیجے میں پرنسپال اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر معززین شہر دھرم پال کے پاس میڑ (کسے کے پاس منت و سماجت کرنے والے جتھے اور عمل کو سندھی زبان میں میڑ کہتے ہیں ) لے کر آ گئے۔

سندھی کے اک منفرد صحافی اور لکھاری اشفاق آذر کی زبانی ”لوگ دیت یا جرگے کے ذریعے کروڑوں کما کر کر اپنے مرے ہوئے (بے گناہ) پیاروں کا خون معاف کر دیتے ہیں! لیکن دھرم پال نے اپنے جگر کے ٹکڑے کے ناحق خون کے عیوض مانگا تو کیا، تمنا کی تو کس چیز کی اور لیا تو کیا لیا!“ دھرم پال نے میڑ کو خون معاف کرنے کے عیوض تین شرائط رکھیں۔ ان کی پہلی شرط یہ تھی کہ سکول میں ہر سال 25 غریب طالب علم کو مفت میں داخلہ دیا جائے۔

دوسری یہ کہ اسکول میں ان کے بیٹے ستیش کمار کے نام سے لائبریری قائم کی جائے اور تیسری شرط یہ تھی بیٹے کے نام سے منسوب کندھ کوٹ کے مصروف چوک میں ٹھنڈے پانی کی سبیل لگائی جائے! اشفاق آذر کی زبانی ”دھرم پال نے ثابت کیا کہ سب سے بڑا دھرم انسانیت ہے!“ ۔ میں عجب سوچ میں ہوں کہ اور بے گناہ مقتولین کو دھرم پال جیسا باپ کیوں نہیں ملا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments