اپنی بستی کا قصہ گو


ڈاکٹر شاہد صدیقی بہ یک وقت ماہر تعلیم و لسانیات، ناول نگار اور کالم نویس ہیں۔ ان کی تازہ کتاب ”پوٹھوہار: خطہ دلربا“ میں ان کی علمی و تخلیقی شخصیت کے کچھ نئے پہلو بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ اپنے خطہ ارضی کی ثقافتی روح کو گرفت میں لیتے لیتے، خود وہ اپنی ذات کے بعض نادریافت خطوں سے بھی متعارف ہوئے ہیں۔

اس کتاب کو کسی ایک صنف میں رکھنا مشکل ہے۔ یہ جانی پہچانی صنفی حدود کو شکست دیتی کتاب ہے۔ اگرچہ اس میں شامل تحریریں، ان کے ”دنیا“ اخبار میں شایع ہونے والوں کالم ہیں، مگر اس کتاب کو کالموں کے مجموعے کے طور پر نہیں پڑھا جاسکتا۔ کالم خواہ وہ غیر سیاسی ہی کیوں نہ، جیسا کے شاہد صاحب کے ہیں، ان کی زندگی عام طور پر بس اتنی ہی ہوتی ہے، جتنی دیر میں وہ ایک بار پڑھے جاتے ہیں۔ چند ایک استثنائی مثالیں مل سکتی ہیں، مگر انھی کالم نویسوں کے یہاں، جن کی دلچسپیوں میں روزمرہ سیاست کے علاوہ تاریخ، آرٹ، ثقافت، ادب شامل ہیں۔ شاہد صاحب کی یہ تحریریں ایک بار نہیں کئی بار پڑھے جانے کی خصوصیت رکھتی ہیں۔ نہ صرف اپنے سادہ مگر دل کش اسلوب بلکہ اپنے موضوعات کے سبب۔

اس کتاب کا موضوع بہ ظاہر تاریخ ہے، پوٹھوہار کے شہروں، قصبوں، تاریخی جگہوں، لوگوں کی تاریخ، مگر اسے محض تاریخ کی کتاب کہنا بھی مشکل ہے۔ تاریخ میں تحقیق و تجزیے کا جو عنصر ہوتا ہے اور اسے جس منضبط انداز میں لکھا جاتا ہے، وہ اس کتاب میں موجود نہیں۔ ایک خطے کی تاریخ و ثقافت کو موضوع بنانے کے باوجود یہ تاریخ کی کتاب ہے۔ عام طور پر تاریخ، آرکائیو پر انحصار کرتی ہے۔ اس کتاب میں مصنف کی اپنی یادداشت آرکائیو کا متبادل ہے۔

زبانی تاریخ، جسے اب باقاعدہ تاریخ کہا جاتا ہے، وہ بھی یادداشتوں پر انحصار کرتی ہے۔ یادداشتوں میں اہم بات یہ نہیں ہوتی کہ کوئی بات درست ہے یا غلط، بلکہ یہ بات اہم ہوتی ہے کہ اسے محفوظ کیسے کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو قابل مطالعہ بنانے میں بنیادی کردار اس بات کا ہے کہ خطہ پوٹھوہار کی جگہوں اور لوگوں کو کس ناستلجیائی، حیات بخش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مقامی تاریخ کو مقامی آدمی کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔

آپ اس کتاب کا کوئی بھی حصہ پڑھیں تو اس میں آپ کو سفر اور آپ بیتی کے عناصر بھی محسوس ہوں گے۔ سفر بھی دو طرفہ۔ باہر موجود حقیقی جگہوں کا سفر اور خود اپنے اندر کے اس خطے میں سفر جہاں خطہ پوٹھوہار اپنے ان ابتدائی نقوش کے ساتھ موجود ہے، جسے مصنف نے بچپن اور لڑکپن میں دیکھا تھا۔ یہ دونوں سفر دل چسپ ہیں اور ان کا بیان بھی۔ دینے کی ایک گلی میں گلزار کے گھر کی تلاش کا سفر اس کی مثال ہے۔ اس سفر سے یہ ظاہر ہے کہ مصنف اپنے وطن کی مٹی پر جنم لینے والے ہر سپوت اور سورمے کو اس مٹی کی خوشبو کے طور پر پہچانتا ہے اور اس کی تکریم کرتا ہے۔

یہی کچھ روات کے سارنگ خان سے لے کر میاں محمد بخش، شاہ مراد، بابا فضل کلیامی، بلراج ساہنی، مدن موہن، سنیل دت، آنند بخشی کے تذکروں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہ اپنی مٹی کے سپوتوں کو ان کے مذہب و نظریے سے نہیں، ان کے اس مٹی سے تعلق کے حوالے سے پہچانتے ہیں اور یوں اس ثقافت کی بازیافت کرتے ہیں، جس میں تفریق و تفرقے کی بجائے، اشتراک و یگانگت پر زور تھا۔

مصنف نے جو کچھ لکھا ہے، اپنے ذاتی تجربے، مشاہدے اور یادداشت کی بنیاد پر لکھا ہے۔ ایک طرح سے اپنی پوری کہانی بیان کی ہے۔ اپنے ماں باپ، اپنی بستی، اپنے شہر راولپنڈی، اپنے تعلیمی اداروں، اساتذہ، گزرے زمانے کے کلچر، سب کے بارے میں شخصی زاویے سے لکھا ہے۔ وہ ان جگہوں پر کیسے جاتا رہا ہے، ان اسفار کا احوال بھی لکھا ہے۔ اس سب کے باوصف یہ آپ بیتی ہے نہ سفرنامہ۔ آپ بیتی میں مصنف کبیری کردار یعنی protagonistہوتا ہے۔

ساری کہانی خود اسی کے گرد گھومتی ہے۔ اس کتاب میں مصنف موجود تو ہے مگر مرکزی کردار دوسرے ہیں۔ ایک تو اس کی آبائی بستی اور شہر، دوسرے اس کے والدین، بھائی، اساتذہ اور یہاں کے معروف و ممتاز فنکار و مصنفین۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شاہد صدیقی پوٹھوہار کی جگہوں، مقامات، لوگوں کے مٹتے قصوں کے راوی ہیں۔ ان کا اسلوب بھی ایک قصہ گو کا لگتا ہے۔ قصہ گو کو بیان کا لطف عزیز ہوتا ہے۔ بیان کا یہ لطف، اس کتاب کا وصف خاص ہے۔ کہیں کہیں ان کے محبوب رسالے سب رنگ کا کچھ اثر بھی محسوس ہوتا ہے۔ کون ہے جو ان کی نسل کا ادیب سب رنگ اور شکیل عادل زادہ سے متاثر نہیں ہوا۔ اس کتاب میں شکیل عادل زادہ پیش لفظ سے مری کے ریستوران اور دوسری جگہوں کے احوال میں موجود ہیں۔

شاہد صدیقی ان سب قصوں میں دو زمانوں کو ملاتے ہیں۔ لمحہ حال سے قصہ شروع کرتے ہیں، ماضی میں جاتے ہیں، اور پھر واپس حال میں آتے ہیں۔ ان کی یادداشت غیر معمولی ہے۔ انھیں جگہیں، واقعات، لوگوں کے خدوخال، گفتگوئیں پوری تفصیل سے یاد رہتے ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ وہ خطہ پوٹھوہار کے جس زمانے کو یاد کرتے ہیں، وہ ان کے بچپن، لڑکپن، جوانی کا زمانہ ہے اور ان زمانوں میں آدمی کا چیزوں سے تعلق ذہنی سے زیادہ حسی و جذباتی ہوتا ہے۔ حسی یادداشت، ذہنی یادداشت سے زیادہ قوی اور دیرپا ہوتی ہے۔

ہر قصے کا راوی، اس قصے کے واقعات کا مستند گواہ بھی ہوتا ہے۔ شاہد صدیقی اپنی بستی سے لے کر راولپنڈی کے گورڈن کالج، اس کے بازاروں، سڑکوں اور یہاں کے مشاہیر، جن میں میاں محمد بخش سے لے کر خواجہ مسعود، گلزار، مدہن موہن، سنیل دت، آنند بخشی، بلراج ساہنی، شلیندر، باقی صدیقی، فتح محمد ملک، دادا امیر حیدر جیسے لوگ شامل ہیں، کا ذکر کرتے ہوئے، وہ دراصل ان کی زندگیوں اور کارناموں کی گواہی رقم کرتے ہیں۔ انھیں جگہوں اور واقعات کو گہرے شخصی تاثر کے ساتھ بیان پر خاص قدرت ہے۔

اپنی بستی کے ذکر میں ان کا قلم زیادہ پرجوش ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے اولین دنوں سے اپنے لڑکپن کے زمانے کی بستی کا قصہ لکھتے ہیں۔ انتظار حسین نے اپنی بستی ڈبائی کے قصے سے، پورا ناول اور کئی افسانے اردو ادب کو دیے۔ شاہد صاحب نے روات کے قریب اپنی بستی کا تذکرہ لکھ کر چند اہم خاکے ہمیں دیے ہیں۔ اس بستی میں رمضان کیسا ہوتا تھا؟ فصلوں کی کٹائی کس طور ہوا کرتی تھی اور کیسے پوری بستی، فصل کی کٹائی سے گہائی تک شریک رہتی تھی؟

فصلوں کی کٹائی کے بعد میلے کیسے ہوا کرتے تھے۔ ان سب کا ذکر کرتے ہوئے، شاہد صاحب نے اردو میں زرعی معاشرت کی کچھ ایسی رسوم اور اشیا کا ذکر کیا ہے، جو خود خطہ پوٹھوہار میں بھی غائب ہو گئی ہیں۔ مثلاً گندم کی کٹائی، گہائی اور دانے اور بھوسہ الگ کرنے کے طریقے، ان کی یادداشت میں موجود ہیں یا اس کتاب میں محفوظ ہوئے ہیں۔ کون اب جانتا ہے کہ پھڑی، کھلاڑا، گاہ، چھٹ، ترینگل اور لیترے کو جانتا ہے۔

اس کتاب میں کچھ لوگوں کا ذکر، ان کے خاکوں میں بدل گیا ہے۔ شاہد صاحب کی والدہ، والد، انعام بھائی کے ساتھ سکینہ، اس کتاب کے یاد گار خاکے کہے جا سکتے ہیں۔ ان شخصیات کا ذکر پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ سب لوگ کسی اور دنیا کے تھے اور یہ دنیا اب قصہ پارینہ بن گئی ہے۔ قصہ پارینہ بننے والی دنیا کو لکھتے ہوئے، شاہد صاحب کے یہاں کمی اور زیاں کا ایک احساس بھی پیدا ہوا ہے۔ صرف چیزیں اور لوگ ہی اوجھل نہیں ہوئے، زندگی کے طور اطوار بھی بدل گئے ہیں۔

”اب سوچتا ہوں کیسی سادہ زندگی تھی، کیسی سچی محبتیں تھیں۔ کیسے معصوم لوگ تھے، کیسے ست رنگے خواب تھے۔ خواب جو وقت کے گرداب میں کہیں کھو گئے“ ۔

شاہد صاحب خود کو غیر سیاسی رکھنے کی اچھی خاصی شعوری کوشش کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ وقت کو نٹ کھٹ بچہ کہتے ہیں جو جس جگہ سے چیز اٹھاتا ہے، وہاں نہیں رکھتا۔ وہ چیزوں کے بدلنے اور غائب ہونے کی ذمہ داری زیادہ تر وقت پر ڈالتے ہیں۔ تاہم کہیں نہ کہیں اشاروں میں وہ ذکر کر جاتے ہیں کہ چیزوں اور لوگوں کے کھو جانے میں سیاسی عنصر موجود ہوتا ہے۔ صرف وقت ہی چیزوں کو تباہ نہیں کرتا، تاریخی سیاسی و معاشی فیصلے بھی انسانوں کی تقدیر پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ تقسیم کے نتیجے میں آبادی کا تبادلہ اور پھر ترقی کے جدید، سرمایہ دارانہ تصور نے زمینی اور ثقافتی لینڈ سکیپ کو فیصلہ کن انداز میں تبدیل کیا ہے۔

”1947 ، کے بعد شہر کی آبادی یکسر بدل گئی۔ ہندو اور سکھ اپنے گھروں کو چھوڑ کر سر حد پار چلے گئے۔ اس تیز رفتار دوڑ میں میرا پرانا پنڈی کہیں کھو گیا ہے۔ صاف ستھرا، خاموش اور معصوم پنڈی۔ شاید ہر ڈیویلپمنٹ کی اپنی قیمت ہوتی ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے لیکن نجانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہم نے پایا کم اور کھویا زیادہ ہے“

یگانہ نے کہا تھا:
کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اجڑتی ہے ایک سمت بستی ہے

لیکن اجڑنے کے بعد بسنا، حقیقت میں بسنا ہو، ضروری نہیں۔ کئی بار ویرانی کے بعد کا زمانہ بھی ویرانی کا ہوتا ہے۔

اس کتاب میں اس خاص ثقافت اور اس کی کی تکثیری اقدار کو محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے، جو اب واقعی قصہ ہے۔ ذرا یہ حصہ دیکھیے :

”مذہبی ہم آہنگی میں لال کرتی ایک مثالی جگہ تھی۔ ایک طرف مسجدیں تھیں۔ دوسری طرف دو چرچ تھے۔ سینٹ جوزف کیتھیڈرل اور کرائسٹ چرچ۔ کہتے ہیں ہندوؤں کے بھی کئی مندر تھے لیکن تقسیم کے بعد زیادہ آبادی ہندوستان چلی گئی لیکن اب بھی ایک بالمیکی مندر موجود ہے جہاں ہندو عبادت کے لیے جاتے ہیں۔“

گزرے زمانوں کے قصوں کو کسی سحر بیان سے سننا، اپنے زمانے کے جبر سے کچھ دیر کی آزادی دیتا ہے اور ہمارے اندر وقت کے اس تسلسل کو بحال کرتا ہے، جسے ہم اپنی ہما ہمی میں بھول چکے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments