بکری کے تھنوں اور موٹر سائیکل کے سائلینسر میں اٹکی بے لگام شہوت


تقوی و طہارت کی بہت زیادہ باتیں کرنے والے عملی زندگی میں یکسر مختلف کیوں ہوتے ہیں؟
جن باتوں کا تذکرہ کرنے سے ان کا ایمان ہچکولے کھانے لگتا ہے انہی باتوں کو مزے لے کر بیان کرنے میں بھلا کیا منطق ہو سکتی ہے؟
اگر خواتین کا وجود سراپا شہوت ہے تو ان کے وجود پر اتنی باتیں کیوں؟ شد و مد سے حوروں کا تذکرہ کرنے میں کیا منطق ہے؟

یہ سوالات ایک مولانا کا ویڈیو کلپ سننے کے بعد ذہن میں ظہور پذیر ہوئے، مولانا انتہائی متانت و سنجیدگی سے فرما رہے تھے کہ

”ایک بزرگ کا قول ہے کہ تقوی کی اعلی منزل یہ ہے کہ بکری کا دودھ دوہنے یا تھنوں کو دیکھنے سے اجتناب برتا جائے کہ کہیں آپ کے پاک ذہن میں گندے گندے خیالات آنا شروع نہ ہو جائیں“

ایک اور واقعہ بھی اکثر سننے میں آتا رہتا ہے کہ

”ایک بزرگ کے پاس ایک بچہ پڑھنے آیا تو وہ بہت حسین و جمیل تھا تو اس بزرگ نے اپنے تقوی کو مدنظر رکھتے ہوئے والدین سے درخواست کی کہ اس کی ٹنڈ کروا دیں، اس عمل کے بعد وہ بچے کو پردے کی اوٹ میں پڑھایا کرتے تھے“

مذہبی فکر کے مطابق ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد تقوی کی اہمیت کو واضح کرنا ہوتا ہے تو پھر مذہبی فکر کے ان چینلز کے متعلق کیا سمجھا جائے جن کے تھمب نیل سیکسی ہوتے ہیں اور خواتین کے وجود کے حصوں کو باقاعدہ رومانٹیسائز کر کے ان کا ریفرنس دیا جاتا ہے۔ ذرا تھمب نیل ملاحظہ فرمائیں۔

کیا مشت زنی سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔
ایک رات میں کتنی بار بیوی سے سیکس کر سکتے ہیں۔
جوش میں لڑکیوں کا اپنی شرمگاہ کو گیلا کر لینا کیسا عمل ہے۔
عورت کے احتلام اور مزے میں فرق کیا ہے۔
مرد کی شرمگاہ زیادہ طاقتور ہو تو عورت کیا کرے۔
عورت زیر ناف بال کس چیز سے صاف کرے۔

شوہر کی نافرمانی کی سزا۔
کیا عورت ویکسنگ کر سکتی ہے۔
کیا عورت خوشبو لگا سکتی ہے۔
کیا خواتین بالوں میں کلر کر سکتی ہیں۔
لڑکیاں غیر ضروری بال ریزر سے صاف کر سکتی ہیں۔

شرمگاہ میں انگلی ڈالنے سے غسل فرض ہو جاتا ہے۔
کیا بیوی شوہر کو ہاتھ سے فارغ کر سکتی ہے۔
کیا بیوی کے ہونٹ اور زبان چوسنا جائز ہے۔
بیوی کا دودھ پینے سے کیا ہوتا ہے۔
عورت کا نامحرم مرد کو اپنی چھاتی دکھانا۔

اگر خواتین کا وجود سراپا شہوت اور ایمان کی خرابی کا سبب بنتا ہے تو خواتین کے وجود کے متعلق اس قسم کے تھمب نیل کو کس کیٹگری میں رکھیں گے؟ اگر بکری کے تھنوں اور چھوٹے بچوں کو دیکھنے سے ذہن شیطان کی ورکشاپ بن سکتا ہے اور تقوی کی سپرلیٹو ڈگری تک پہنچنے کے لئے ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے تو پھر ان سیکسی قسم کے تھمب نیل والی ویڈیوز میں خواتین کے متعلق ہونے والی گفتگو بارے صاحب تقوی کا کیا موقف ہو گا؟ کیا صرف خواتین کو دیکھنے سے ہی شہوت پیدا ہوتی ہے اور ان کے وجود کا تذکرہ کرنے سے پیدا نہیں ہوتی؟

کیا طارق جمیل کی ”حورستانیاں“ ماورائے شہوت ہوتی ہیں یا صاحبان تقویٰ سیکس پروف ہو جاتے ہیں؟
یا ان کا عضو تناسل گندی باتوں کے تذکرے پر رسپانس دینا بند کر دیتا ہے؟

جب مولانا ارشاد فرما رہے ہوتے ہیں کہ جنت میں 130 فٹ کی حور ہوگی اور طلبگار اس کی ٹانگوں میں ایک طویل عرصہ تک چلتا رہے گا اور اس کا وجود زعفران و عنبر سے بنا ہوا ہو گا اور ایک طلبگار کو ستر مردوں جتنی جنسی طاقت سے نواز دیا جائے گا، کیا خیال ہے اس قسم کی گفتگو سننے یا سنانے والا ذہن کے اندر تخلیق ہونے والی پرکیف قسم کی مستی کے اثر سے محفوظ رہ پائے گا یا شلوار میں رونما ہونے والے زلزلے سے بچ پائے گا؟

جو مولوی اس قسم کی باتوں کا تذکرہ مزے لے کر فرماتے رہتے ہیں کیا ان پر تقوی کا اصول اپلائی نہیں ہوتا؟

چلیں خواتین کو تو آپ برقعہ میں قید کر کے خود کو شہوت سے بچانے کا بندو بست کر لیتے ہیں مگر ذہن پر کون سا پردہ ڈالیں گے کہ وہ شہوانی خیالات کو سوچنا ہی ترک کر دے؟

ان تضادات کو سامنے رکھنے کا مقصد مذاق اڑانا نہیں ہے بلکہ صاحبان تقوی کی ان سوالات کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔ کیونکہ اس قسم کی تضاد بیانیاں میڈیا اور انٹرنیٹ کے ظہور سے پہلے تو چل سکتی تھیں اور چلتی رہی ہیں مگر گلوبل ویلیج میں اب ایسا ممکن نہیں رہا اور مختلف مذہبی چینلز کی بھرمار کی وجہ سے اب آپ کی باتیں چاہے وہ غلط ہوں ہو یا صحیح چند سیکنڈ میں دنیا کے طول و عرض میں پھیل جاتی ہیں اور انسانی ورثے کا حصہ بن جاتی ہیں۔

جب آپ گلوبل یا ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو اپنے خیالات کے پھیلانے کے لئے استعمال کریں گے تو یاد رہے کہ آپ کو سخت قسم کی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور آپ میں برداشت کا حوصلہ یا اتنا ظرف ضرور ہونا چاہیے کہ آپ مسکراتے ہوئے اپنے خیالات کا دفاع کریں۔ جب لوگ بیچ چوراہے پر اپنے ایقان و عقائد کا یوں تماشا لگائیں گے تو پھر دوسروں کو اپنے رویوں پر ہنسنے یا ٹھٹھا اڑانے سے آپ باز کیسے رکھ سکتے ہیں؟ ایمان و یقین کی باتوں کو مخفی اور اپنے تئیں رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اگر شو آف کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر ظرف بھی بڑا رکھنا چاہیے۔

جب کوئی چیز بازار کے تھڑے تک پہنچ جاتی ہے تو پھر لوگوں کو چھان پھٹک کرنے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کی حدود آپ کی چار دیواری تک ہوتی ہے جیسے آپ اس سے باہر نکلتے ہیں تو آپ کا دائرہ کار ختم ہو جاتا ہے۔ خیالات کی گہما گہمی کے اس دور میں اگر آپ اپنے خیالات پر کسی بھی طرح کا کمپرومائز یا ڈسکشن نہیں چاہتے تو براہ کرم اپنے تصورات کو عقیدہ کی مالا میں پرو کر سینے سے لگائے رکھیں کوئی مضائقہ نہیں اور کسی کو کوئی اعتراض یا فرق بھی نہیں پڑے گا۔

علماء کے لئے جو قابل فکر بات ہے وہ یہ ہے کہ اہل مذہب کی ”پریکٹسنگ ریشو“ بہت زیادہ کم ہو چکی ہے لوگ پریکٹسنگ کی بجائے صرف نام اور کلچر کا اقبال بلند رکھنے کے لیے خود کو مسلم، مسیحی یا یہودی کہتے ہیں اور دنیا بھر میں مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں اب صرف اہم مواقعوں پر ہی آ باد ہوتی ہیں باقی وقت میں تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ مذہب یا دنیا کے کسی بھی فلسفہ کو قبول یا ترک کرنے کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ان کے پریکٹسنگ نمبر کی شرح بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے؟

موجودہ پس منظر میں مذہبی رجحان بڑی تیزی سے تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے جس پر علماء کو سوچنا چاہیے۔ باقی انسانوں کو ڈنڈوں یا مورل پولیسنگ کے ذریعے سے سدھارنے یا سدھانے کا انجام آپ کے سامنے ہے تمام تر تبلیغی کاوشوں اور مذہبی چینلز کے باوجود پورنوگرافک سائٹس دیکھنے کا تناسب بڑھتا چلا جا رہا ہے، جنسی گھٹن اتنی بڑھ چکی ہے کہ لوگ چھوٹے بچے بچیوں، جانوروں حتیٰ کہ موٹر سائیکل کی سائلنسر کے ذریعے سے اپنی جنسی بھوک مٹانے لگے ہیں۔

آپ حریم شاہ کا ویڈیو کلپ سن لیں جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ہمارے معاشرے کا ”سیکس ٹیسٹ“ بہت زیادہ نجس اور مکروہ ہو چکا ہے بس سوراخ دکھنے کی دیر ہے یہ لوگ پاگل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آج کے سماج میں ”پائس ڈرنک“ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، دراصل ہم متبادلات کے بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایسے معاشروں میں ریشنیلٹی کا تناسب بہت پست ہو جاتا ہے اور کشف و کرامات یا واردات قلبی کا دعوی رکھنے والی ”روحانی بریگیڈ“ کا سکہ چلنے لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments