جھروکے میں کھڑی معصوم لڑکی کے ارمانوں کا خون ہوا


کبھی کبھی کوئی عادت یا کوئی بے جان سی چیز زندگی میں ایسے دخیل ہو جاتی ہے جیسے وہ ہمارے کل کا ایک جزو ہو۔ کچھ ایسا جس کے بغیر اپنا آپ ادھورا سا لگتا ہے۔

جو کسی سے کہنے کا حوصلہ نہیں پڑتا وہ اسے بلا خوف و خطر سنایا جا سکتا ہے۔ پہروں ایسی باتیں کی جا سکتی ہیں جن کا بظاہر اس کے کوئی مقصد نہیں ہوتا کہ دل ہلکا کر لیا جائے اور اپنے آپ کو زمانے کی ستم ظریفیاں سہنے کے لیے تازہ دم کر لیا جائے مگر بے حسی کی اس دنیا میں انسان وہ خطرناک درندہ ہے جو اپنے شکار کو تڑپا تڑپا کر بھنبھوڑ کھاتا ہے۔ ذرا سی بات کو کوٹھوں چڑھتے دیر نہیں لگتی۔

یہ غریب اتنی بے غرض کہ بدلے میں کچھ بھی طلب نہیں کرتی، چاہو تو روز جاؤ نہ چاہو تو دنوں خبر نہ لو۔ وقت گھنٹوں پہ محیط ہو یا منٹوں پہ نہ کوئی گلہ نہ شکوہ شکایت۔ شفیق اتنی کہ بنا کسی طعن و تشنیع اپنے دامن عاطفیت میں ہمیشہ پناہ دیتی ہے۔ جیسے کوئی پرندہ اپنے چوزوں کو کسی ممکنہ خطرے کے پیش نظر پروں میں سمیٹ لے۔

ہمیں آج بھی وہ حویلی یاد ہے جس کی لق و دق گیلری کے جھروکوں میں ہم پہروں کھڑے رہتے۔ ایک سال کی عمر سے ہی دادی جنھیں ہم بی کہتے تھے ہمیں بہلانے کے لیے اس گیلری میں آ کھڑی ہوتیں جس میں تین اطراف جھروکے تھے۔

ہم نے پہلا لفظ بی کہنا سیکھا تھا۔ ہاتھ کے اشارے سے انہیں کہتے بی وہاں بی یہاں اور وہ بلی کے بچے کی طرح ہمیں سینے سے چمٹائے ایک جھروکے سے دوسرے جھروکے کے چکر کاٹتی رہتیں۔

جب چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو خود جا کر کھڑے ہو جاتے۔ پہلے پہل تو وہ نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتیں مگر رفتہ رفتہ انہیں اعتبار آ ہی گیا۔

ڈھائی تین سال کی عمر کی باتیں کہاں یاد رہتی ہیں؟ بس دھندلی سی کچھ یادیں ہیں جو اب تک حافظے میں محفوظ ہیں۔ حویلی کے جھروکوں سے ہمارا ایسا لگاؤ تھا کہ ویسا زندگی بھر کسی اور چیز سے نہ ہوا۔ ان ہی جھروکوں میں ہماری کل کائنات تھی۔ بچے کی کائنات ہوتی ہی کتنی ہے؟ اتنی چھوٹی کہ ایک مٹھی میں سما جائے۔ چھت سے نظر آنے والا تاروں بھرا آسمان اور جھروکے سے باہر کا نظارہ، بس اتنی ہی تھی ہماری دنیا۔ اس سے باہر اور کیا ہے ہمیں کوئی سر و کار نہ تھا۔ ہمارا منا سا ذہن تو گرد و پیش کے منظر نامے کو اپنے اندر کے کینوس میں جذب کرنے میں مصروف رہتا۔

خالہ امی بول رہی تھیں اور ہم ان کے جھریوں بھرے چہرے پہ نظریں گاڑے دم سادھے سن رہے تھے۔ ان کا انداز تکلم ہی ایسا تھا کہ بیچ میں دخل در معقولات کی بنتی ہی نہ تھی۔ کڑی سے کڑی ایسے جوڑے رکھتیں کہ ربط کہیں سے بھی ٹوٹنے نہ پاتا بالکل ایسے جیسے کہ کوئی فلم چل رہی ہو اور ہم اپنی سیٹ پہ بیٹھے ایکا ایکی اس زمانے میں پہنچ جائیں جہاں اس کے جیتے جاگتے کردار نظروں کے سامنے گھوم پھر رہے ہوں

دھندلی یادوں میں ایک تو وہ سامنے والے گھر کے دو بچے جنہیں دیکھ کر اپنے ہم عمر بچوں کو ترسے ہوئے ہم خوشی سے قلقاریاں مارتے اور توتلی زبان میں خدا جانے کیا کیا باتیں کرتے۔ وہ بھی خوش ہو کر دور سے اپنے ننھے منے ہاتھ ہلاتے۔ نہ انہیں کچھ سمجھ آتی نہ ہمیں۔ زبان یار من ترکی ہونے سے فرق نہیں پڑتا کہ احساسات کی زبان تو یونیورسل ہے۔

جب دونوں گھرانوں کا میل جول بڑھا تب یہ دونوں بچے ہمارے اولین دوست بنے۔

اگر وہ اپنی گیلری میں نہ ہوتے تو ہم بے دلی سے دوسرے مکان کے چبوترے پہ وقت بے وقت بیٹھے اس نیم پاگل اور فسادی بوڑھے کو تاکتے رہتے جس سے ہمیں بہت ڈر لگتا تھا۔ جو کئی بار ہمیں دور سے ٹھینگا دکھا کر زبان بھی چڑاتا۔

سب اسے مما کہہ کر بلاتے تھے۔ ہر وقت اول فول بکنا اور آتے جاتے پہ آوازیں کسنا اس کا محبوب مشغلہ تھا لوگ باگ بھی اسے چھیڑ کر مزے لیتے۔ مگر وہ ناس پیٹا ہر ایک کو پورا پڑتا۔ کمبخت بھڑوں کا چھتہ تھا۔ کبھی کبھار بات اتنی بڑھ جاتی کہ نوبت تو تکار اور چیخ چلا تک پہنچ جاتی۔ ابھی یہ تماشا اپنے عروج پہ ہوتا کہ بی اسے برا بھلا کہتی ہمیں گھسیٹ کر اندر لے جاتیں۔ وہ موا تو پگلا ہے تم کاہے پگلا رہی ہو۔ یہ سب یوں ذہن میں رہ گیا کہ پانچ چھ برس کی عمر تک بلا ناغہ یہی کچھ ہوتے دیکھا۔

بائیں جانب کے جھروکے سے وہ ہرے رنگ کی موٹر کار جو سناروں کی حویلی کے باہر کھڑی رہتی تھی، اس سے بھی بے انتہا دلچسپی تھی۔

ذرا بڑی ہوئی تو بی سے کہا کہ ہمیں بھی ایسی موٹر کار چاہیے۔

بی پرانے وقتوں کی تھیں کہنے لگیں، اوئی بی بی لڑکیاں بالیاں گڑیوں سے کھیلتی ہیں۔ اتنی تو گڑیاں ہیں تمہارے پاس چلو ایک آدھ اور لا دیں گے مگر ہم نے بھی ضد پکڑ لی کہ ہمیں تو چابی سے چلنے والی موٹر ہی چاہیے اور وہ بھینبڑا پسارا کہ انہیں دلاتے ہی بنی۔ اپنے ابا کے بعد ہم ان کی زندگی میں پچیس سال بعد آنے والا پہلا بچہ تھے تو کلیجے سے کیسے نہ لگاتیں۔

وقت نے ایسا پانسا پلٹا کہ حویلی تو خواب و خیال ہو گئی، نیا گھر تو حویلی کا پاسنگ بھی نہ تھا۔ اس گھر میں نہ تو گیلری تھی اور نہ کوئی جھروکا۔ ہم کئی دنوں تک بولائے بولائے اپنی کائنات ڈھونڈتے پھرے۔ آخر کار چھت کی منڈیر کے موکوں نے کچھ حد تک اشک شوئی کی مگر ہماری کائنات سمٹ کر اور بھی چھوٹی ہو گئی۔ موکے میں جھروکے والی بات کہاں۔

اسکول کی مصروفیات اتنی مہلت ہی نہ دیتیں تھیں کہ کچھ وقت وہاں گزارا جائے۔ جب دھوپ ڈھل جاتی تو ہڑک پوری کرنے کو چند پل بھی غنیمت ہوتے۔

اس کے بعد کئی گھر بدلے مگر جھروکے کہیں نہ ملے۔ بدلتے وقت نے طرز تعمیر ہی بدل ڈالی پرانے علاقوں میں اب بھی کئی گھروں میں جھروکے نظر آ جاتے ہیں ورنہ نئے مکانوں میں تو بالکونیاں اور کھڑکیاں ہی مروج ہیں۔ ہم نے بھی مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق کھڑکی سے دوستی کر لی، جھروکے کی بہن جو ٹھہری۔

جب بارہ تیرہ برس کے ہوئے تو کھڑکی سے جھانکنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ ذرا کھڑے ہوتے تو اماں چٹیا کو زوردار جھٹکا دے کر چلاتیں

کیا خوب لچھن ہیں صاحبزادی کے جب دیکھو موئی کھڑکی میں کھڑی ہے، محلے والے کیا سوچتے ہوں گے اپنی نہیں تو باپ بھائی کی ہی عزت کا خیال کر لو۔

یہ عزت کیا ہوتی ہے اس کا ہمیں کچھ علم نہ تھا۔ بات بات پہ اعتراض، ہمیں ان کی کوئی بات سمجھ نہ آتی اپنے خیالوں میں تو ہم وہی کل کے بچے تھے، خدا جانے اماں کو ہم سے کیا بیر ہو گیا تھا، بس بی کی گود میں منہ چھپائے چسر چسر رویا کرتے۔

اس پر بھی اماں بس نہ کرتیں اور نزلہ بی پہ گرتا کہ ان کے بے جا لاڈ پیار نے ہمیں بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ اچھی خاصی لڑکی کو اچھال چھکا بنا دیا۔ یہ کہتے انہیں قطعی یاد نہ رہتا کہ اپنے بیٹوں کے چکر میں انہوں نے زبردستی ہمیں نو دس ماہ کی عمر میں ہی بی کے سر منڈھ دیا اور خود بیٹا پیدا کرنے میکے سدھاریں۔ جب تک ہمارا بھائی چھ ماہ کا نہیں ہو گیا واپسی کی راہ نہیں لی۔ آ کر بھی ہمیں الٹ کر نہ دیکھتیں۔ بی بے چاری کڑھ کڑھ کر بلبلاتیں کہ ایسی ماں ہم نے نہ دیکھی۔

سنا تھا کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے ذہن کا کینوس بڑا ہوتا جاتا ہے مگر یہاں تو اس کا الٹ ہوا، وہ تاروں بھرا آسمان سمٹ کر مٹھی میں ایسے آ گیا جیسے کوئی جگنو اور کھڑکی سے باہر کی دنیا پہ ایسے کڑے پہرے کہ توبہ ہی بھلی۔ کھلی فضا میں اڑنے والے پرندوں کے پر کاٹ کے لوگوں کو کیا راحت ملتی ہے؟ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

خالہ امی ایسے بدبدا رہی تھیں جیسے وہ ہم سے نہیں کسی اور سے مخاطب ہوں۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد ہم نے بے صبری سے پوچھا، پھر کیا ہوا؟

ہمارے سوال پہ وہ جیسے یادوں کی منڈلی سے یک لخت حقیقت کی دنیا میں آ گئیں۔ ہونا کیا تھا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔

یہ نامراد لڑکے کچھ بھی کریں آنکھ مٹکا کریں یا کسی کو بھگا لائیں دو چار دن بک جھک کر سب قبول کر لیا جاتا ہے۔ ان کے کسی بھی فعل پہ اس اللہ ماری عزت پہ کوئی حرف نہیں آتا۔ کوئی حسب و نسب یاد نہیں آتا۔

لڑکی غریب کی کون سنتا ہے۔ تہمتیں تو جیسے اپنے مقدر میں لکھوا کر لاتی ہے۔ عزت کا ٹھیکہ تو اسی کے سر ہے۔ موئی عزت نہ ہوئی کہ کانچ کا برتن ہوئی جو پٹ دینی سے ٹوٹ جائے گی۔ ذرا بہکی نہیں کہ نوبت قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے۔

بی کے گزرنے کے بعد تو ہمارا پرسان حال ہی کوئی نہ رہا۔ ابا میاں سدا کے دبو اماں ان کی ایک نہ چلنے دیتیں۔ ان کی کڑوی کسیلی کون روز روز سنتا، ہم نے تھک ہار کر لب سی لیے اور دھیان پڑھنے لکھنے میں لگا لیا۔

اماں تو ہمارے پڑھنے کے بھی خلاف تھیں۔ بس اسی ایک معاملے میں ابا نے اماں کی ایک نہ سنی اور ہم الانگتے پھلانگتے اسکول سے کالج اور پھر بی ٹی تک پہنچ گئے۔ ابا ریٹائر ہو چکے تھے۔ ابھی بی ٹی کیے سال بھی نہ گزرا تھا کہ زبردستی ہم سے عمر میں کہیں بڑے دوہاجو کے پلے یہ کہہ کر باندھ دیا کہ ہماری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں اب تم اپنے گھر سدھارو۔

کون سا گھر اور کیسا گھر وہاں تو جان کا جلاپا سوکن پہلے ہی تشریف فرما تھیں۔ تمہارے خالو نے جھوٹ بول کر شادی کی تھی کہ پہلی بیوی سے اس لیے علیحدگی ہوئی کہ وہ پاکستان آنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ یہاں کون تھا تصدیق کرنے والا ابا نے ان کی زبان پہ اعتبار کر لیا مگر وہ تو دوسرے مہینے ہی پکے پھل کی طرح آ ٹپکیں۔

پر خالہ امی اس گھر میں کوئی جھروکا یا کھڑکی تو تھی نا؟ ہمارا کج رو ذہن تو وہیں پہ اٹکا ہوا تھا۔ ہمیں نجانے کیوں لگا کہ جہاں سے تازہ ہوا کے جھونکے آتے ہیں وہی زندگی کا استعارہ ہے اور ہم نے ترنت اس کا اظہار بھی کر ڈالا۔

ارے بی بی جب اپنی زندگی ہی تماشا بن جائے تو کسی اور تماشے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیسا استعارہ؟ وہاں تو لکڑی کے مضبوط تختے جڑ کھڑکی ہی بند کر دی گئی پھر جھانکنے کو جھریاں ہی بچی تھیں۔

تازہ ہوا کہاں سے ملتی؟ دن رات پہرہ دینے والی گھاگ سوکن جو بیٹھی تھی۔ وہ چیل کی طرح ہر آن اس تاک میں رہتی کہ میاں سے ایک کی دس جڑے۔ اس کتا خصی کی زندگی نے سارے شوق ہی ملیا میٹ کر دیے۔

کھڑکی میں کھڑا ہونا تو خود کو سانپ سے ڈسوانے جیسا خطرناک تھا اور ہمیں بچانے کون مرا جیتا بیٹھا تھا کہ جس کے برتے کچھ کرتے؟

اماں باوا ایک سال میں ہی چٹ پٹ ہو گئے بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں ایسے کھوئے کہ پلٹ کر کبھی خبر ہی نہ لی، دہائی دیتے تو کس سے؟

بچے نہ اس کے ہوئے نہ ہمارے کہ انہی سے جی لگا لیتے۔ کوئی ٹیسٹ وغیرہ کروانے کا رواج ہی نہیں تھا۔ عمر یونہی روتے پیٹتے گزر گئی

بی ٹی کی ڈگری کام آئی ہم نے اسکول میں نوکری کر لی، میاں بھی چپ رہے کہ آتی لکشمی کو کون ٹھکراتا ہے ورنہ اماں باوا نے جیتے جی مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یوں سمجھو کہ تیس سال کا کالا پانی کاٹا ہے۔

میاں کی ریٹائرمنٹ کے بعد گھر گرہستی ہمارے محنتانے اور ان کی پینشن سے ہی چلتی تھی۔ پھر وہ ملک عدم سدھارے البتہ جانے سے پہلے یہ مہربانی ضرور کی کہ مکان ہم دونوں کے نام کر دیا جو بعد میں باہمی رضا مندی سے بیچ دیا گیا ورنہ کر لیتے ان کے بھائی بھتیجے اس پر بھی قبضہ۔ گو تلملائے تو بہت ہاتھ پاؤں بھی مارے مگر کچھ کر نہ پائے۔ سوکن مجبوراً عدت گزارنے اور مکان کے بکنے تک ہمارے ساتھ رہیں پھر وہ ٹکٹ کٹا اپنے کسی بھانجے بھتیجے کو پیاری ہوئیں اور ہم رہ گئے تنہا کسی کٹی پتنگ کی طرح ڈولتے۔ وہ تو خدا بھلا کرے تمہاری ماں کا کہ اپنے ساتھ والا گھر دلوا دیا ورنہ کوئی حلق میں پانی ڈالنے کا روادار بھی نہ ہوتا۔ خالہ امی ہماری اماں کی دور پرے کی رشتے دار تھیں۔

اس کے بعد کہنے سننے کے لیے کچھ بھی تو نہیں بچا تھا۔ کوئی اکلوتی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے؟ یہ دنیا اچھے لوگوں کے لیے اتنی تنگ کیوں ہے؟ گڑیوں سے کھیلتی گڑیا کیسے زمانے بھر کی ٹھوکروں پہ آ جاتی ہے؟ اس کہانی میں قصور وار کون ہے؟ شاید سارا معاشرہ ہی۔ ذہن مختلف سوالوں کی آماجگاہ بنا رہا مگر ہم نے خالہ امی سے کچھ بھی نہیں پوچھا۔ ایسا کرنا ان کے زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف ہوتا۔

کسی کہانی کو اس کے کردار کے منہ سے سننے کا یہ ہمارا پہلا تجربہ تھا۔ وہ کھڑکی میں اداس کھڑی نجانے ماضی کے کن جھروکوں میں جھانک رہی تھیں اور وہ ان کہی جو کسی سے بھی کہی نہ جا سکے، اپنی پرانی مونس و غمخوار کو سنا رہی تھیں۔

باہر کے جھروکوں سے رابطہ کٹ بھی جائے مگر اندر کے جھروکے بند کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس وقت وہ ہمیں ایک ایسی چھوٹی سی بچی لگیں جو کھلونے کی ضد کرتے کرتے روٹھ کر کسی کونے میں سر نہیوڑ کر بیٹھ جاتی ہے۔

انہیں مزید پریشان کرنا مناسب نہیں تھا، بس یہی سوچتے رہے کہ جھروکوں میں کھڑی کتنی معصوم لڑکیوں کے ارمانوں کا کیسا کیسا خون ہوا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے مگر یہ طرز کہن تو آج بھی نہیں بدلا بس ستم گری کے انداز بدل گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments