شاہ زیب قتل کیس: کیا عدالتی فیصلے لوگوں میں مایوسی کا سبب بن رہے ہیں؟

ترہب اصغر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


شاہ زیب خان
10 برس قبل کراچی میں شاہ زیب خان نامی نوجوان کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کو بری کرنے کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے پاکستان کے عدالتی نظام پر اس فیصلے کے تناظر میں کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ شاہ زیب خان کے قتل کا واقعہ 24 دسمبر 2012 کی شب کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں پیش آیا تھا۔ اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ اور اُن کے ساتھی سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ دیگر دو مجرموں سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سُنائی تھی۔ تاہم بعد ازاں ملزمان کی سزا عمر قید میں بدل دی گئی۔

حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمان کی بریت کے بعد تنقید کرنے والے جہاں ایک طرف اعلی عدلیہ سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب کئی حلقوں کا یہ خیال بھی ہے کہ عدالت نے دستیاب شواہد سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا اور سب کچھ قانون کے مطابق ہوا ہے۔

تاہم پاکستان میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ یا عدالتی فیصلہ نہیں ہے جس کے بعد نظام انصاف پر سوالات اٹھے ہوں۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کیس ہو یا پھر حال ہی میں کوئٹہ میں مجید اچکزئی کے خلاف ٹریفک وارڈن کے قتل کا کیس، ریمنڈ ڈیوس کیس اور قندیل بلوچ قتل کیس ایسے ہائی پروفائل عدالتی مقدمات ہیں جن کے فیصلے عوامی سطح پر بھی تنقید کا نشانہ بنے اور نظام انصاف سے مایوسی کا سبب بھی۔

شاہ رخ جتوئی

شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں نے دسمبر 2012 میں تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے شاہ زیب خان کو قتل کر دیا تھا

سوشل میڈیا پر ردعمل: ’اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو انصاف کیا چیز ہے‘

عدالتی نظام پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر صارف احسن علی نے لکھا کہ ’شاہ زیب کیس اور اس کے گھر والوں کی بےبسی کا عالم میں محسوس کر سکتا ہوں کیونکہ میں نے 2013 میں اپنے چھوٹے بھائی کو ایسے ہی ایک واقعے میں کھو دیا تھا۔ ہمارے کیس کے چار چشم دید گواہ تھے۔ ان میں سے تین پولیس کے دباؤ کی وجہ سے کبھی عدالت ہی نہیں پہنچ سکے۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ایک بہادر رکشہ ڈرائیور ہمارے ساتھ ابتدائی سماعتوں میں گیا، لیکن پھر ایک رات وہ ہمارے گھر آیا، میرے چاچا کو بتانے کے لیے کہ میں قیامت کے روز تمہارے بیٹے کے قتل کی گواہی دوں گا لیکن اس دنیا میں میں یہ نہیں کر سکتا کیونکہ میری تین بیٹیاں ہیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے بھائی کے قاتل کو اپنے سامنے بری ہوتے دیکھا ہے۔ اور ہم کچھ نہیں کر سکے۔ کئی سال گزر گئے ہیں، ہم آگے بڑھ چکے ہیں، بہن کی جنوری میں شادی ہو رہی ہے لیکن غم ابھی باقی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کچھ نہیں کر سکے اور یہ بات ہمیں اب بھی رلاتی ہے۔‘

https://twitter.com/Ahsanali094/status/1582407356755083265

صحافی مبشر زیدی نے ٹویٹ کی کہ ’اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو انصاف کیا چیز ہے۔ بیشک آپ قاتل ہی کیوں نہ ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے

شاہ رخ جتوئی بری: ’کوئی امیر اور طاقتور بچا تو نہیں جیل میں؟‘

دیت کا قانون: طاقتور کو تحفظ دینے کا ہتھیار کیوں؟

ریمنڈ ڈیوس: ’جنرل صاحب امریکی سفیر کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں بھیج رہے تھے‘

ٹویٹر صارف جاوید اقبال نے لکھا ’کیا اس عدالتی نظام میں اصلاح کی ضرورت نہیں جہاں قاتل انگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر جرم کا فخریہ اقرار کرے اور جج یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ قاتل ہے اس کو رہا کرنے پر مجبور ہو۔‘

طارق احمد نے لکھا کہ ’چلو سپریم کورٹ کم از کم اس ملک کے وڈیرہ شاہی کو تو سُن رہی ہی۔ ہمارا کیس کب سے انسانی بنیادوں پر سپریم کورٹ میں پڑا ہے۔۔۔ انصاف ضروری نہیں مظلوم کو دیا جائے۔ ظالم کو بھی انصاف فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اپنا اپنا زاویہ ہوتا ہے۔ ہمیں ججز کی عینک سے دیکھنا چاہیے۔‘

عدالتی نظام سے مایوسی

پاکستان کے عدالتی نظام اور ججز کے فیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار عوام کے علاوہ ملک کے طاقتور حلقے بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے بھی شاہ رخ خان قتل کیس کے فیصلے کے بعد کہا کہ ’ہمارے نظام انصاف کی ساکھ عوام کی نظروں میں بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے لیکن عدالتیں پتہ نہیں کیوں اس چیز کا احساس نہیں کر رہی ہیں۔‘

انھوں نے مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ان تمام کیسز سے پاکستان کے عدالتی نظام پر پبلک کانفیڈنس متاثر ہو رہا ہے۔‘

بی بی سی سے گفتگو میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج محمد بلال خان بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسے کیسز میں عدالتوں کو اپنی قانونی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے فیصلے ہمارے عدالتی نظام کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے کیسز میں اگر صلح ہو بھی جائے تو پاکستان پینل کوڈ میں یہ بات موجود ہے کہ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ ملزم کا عمل ظلم کے زمرے میں آئے تو وہاں ایک خصوصی اصول لاگو ہوتا ہے جسے فساد فی الارض کہتے ہیں۔‘

’ایسی صورت میں عدالت اور جج کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ خود سزا دے سکتا ہے۔ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، صلح ہو گئی ہے تو ایسے میں ججز پابند نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اپنا دائرہ کار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ اس صلح نامے کے خلاف بھی کر سکتے ہیں۔‘

سابق جج کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا عدالتی نظام اتنا بوسیدہ ہے کہ اس نے ایک مافیا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جس میں پولیس کی تفتیش سے لے کر کیس کے فیصلے اور اپیل تک کے مراحل سسٹم کے بگاڑ کو ظاہر کرتے ہیں۔ جس کو ٹھیک کرنے کے بڑی اصلاحات کی ضرورت ہے۔‘

عدلیہ پر عوام کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد اور مایوسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ یہ مایوسی اور عدم اعتماد عدالتوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔‘

پاکستان، قتل، قوانین

پاکستان میں انصاف کی فراہمی میں کیا رکاوٹ ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ایڈووکیٹ اسد رحیم کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ کیسز میں تاخیر کا ہے۔

’سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایک سروے بھی کروایا تھا کہ ایک عام کیس کا فیصلہ ہونے میں اوسط کتنا وقت لگتا ہے؟ جس کے جواب میں یہ پتا چلا کہ اس سب میں 25 سال کا عرصہ لگتا ہے۔‘

’مثال کے طور پر ہمارے پاس سب سے زیادہ کیسز زمین کے جھگڑوں کے آتے ہیں۔ جب تک آپ ان کی رجسٹریشن اور سسٹم کو کمپیوٹرائز نہیں کریں گے، یہ کیسز ایسے ہی آتے رہیں گے اور عدالتوں میں چلتے رہیں گے۔‘

’اس کے علاہ ہمارے عدالتی نظام میں بار بار اپیل کرنے کا نظام ہے۔ جس میں آپ ڈسٹرک کورٹ پھر ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں جاتے ہیں۔‘

ان کی رائے میں ہائیکورٹ میں ہونے والے فیصلوں کو آگے نہیں جانا چاہیے تاکہ ’کیسز جلد از جلد ختم ہوں اور صرف ایسے کیسز سپریم کورٹ تک جائیں جن کی آئینی حیثت ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک رہی بات جتوئی کیس کی، تو پہلے ہمارا نظام تھا کہ اگر آپ کسی کو قتل کرتے تھے تو وہ جرم ریاست کے خلاف جرم تصور کیا جاتا تھا۔ 1989 میں ہمارے شریعت اپیلیٹ بنچ کے جسٹس افصل ظلہ کا فیصلہ آیا تھا کہ اس پینل کوڈ میں قصاس اور دیت کی گنجائش ہونی چاہیے۔ لیکن انھوں نے اس میں بھی قتل اور جان بوجھ کر قتل کرنے میں تفریق کی تھی۔ لیکن جب صدارتی آرڈینینس پاس ہوا تو یہ تفریق نہیں رکھی گئی۔‘

مزید پڑھیے

’کیمروں کے سامنے گاڑی نے کچل دیا اور مجرم رہا، واہ رے انصاف‘

جب چین نے امریکہ سے کہا وہ بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کو تیار ہے

ریمنڈ ڈیوس: ’جنرل صاحب امریکی سفیر کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں بھیج رہے تھے‘

’اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب اگر کوئی امیر یا طاقتور شخص قتل کرتا ہے تو مقتول کے لواحقین پر دباؤ ڈال کر زبرستی دیت منظور کروا کر بری ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ دیکھنا عدالت کی ذمہ داری ہے کہ سمجھوتہ منصفانہ طور پر کیا گیا ہے یا پھر گواہوں اور لواحقین کو پریشر ڈال کر مجبور کیا گیا۔‘

تاہم وہ صرف عدلیہ کو ہی الزام نہیں دیتے۔ ان کے مطابق عدل کے نظام پر بڑھتی ہوئی مایوسی کا سبب ججز کے علاوہ ’پولیس، استغاثہ اور دیگر لوگ بھی ہیں کیونکہ پہلے ہی مرحلے میں پولیس والا کہہ دیتا ہے کہ آپ سمجھوتہ کر لیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments