تیرے” قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا


زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اسکرین پر نظر آتی اور اگلے لمحے یہ مخصوص جملہ سننے کو ملتا۔ ان سے یہ جملہ سن کر مرحوم طارق عزیز کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ ان کے پروگرام کا ابتدائیہ جملہ بھی اس سے ملتا جلتا تھا۔ خاموش طبع لیکن کام کے لحاظ سے جوشیلا اور سرگرم ارشد شریف ہمیں چھوڑ گیا۔ صحافی برادری ایک جسم کی طرح ہے اور جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بے چین ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی خوبصورت دل کے مالک ارشد شریف تھے۔ کسی بھی صحافی پر مشکل وقت آیا تو وہ اس کے لیے سب سے پہلے دل و جان سے حاضر ہوتے تھے۔ پوری صحافی برادری ارشد کے جانے پر شدید رنج میں ہے۔

ارشد شریف کو پہلے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ پھر ان پر کچھ مقدمات ہو گئے اور نامساعد حالات میں ان کو پاکستان چھوڑنا پڑا۔ وہ پشاور سے دوبئی روانہ ہو گئے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق دوبئی حکومت پر پاکستان کی جانب سے دباؤ تھا کہ ارشد شریف کو یہاں سے نکالیں۔ ارشد وہاں سے کینیا چلے گئے جہاں پر ان کے ساتھ ایسا افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ان کی جان چلی گئی۔ اطلاعات موصول ہوتے ہی سوشل میڈیا پر حسب معمول ایک مخصوص ادارے پر الزامات کی برسات ہو گئی۔ اس واقعے پر بعض لوگوں کا ردعمل شدید غم کے باعث ایک خاص حد سے بڑھ گیا تھا جس میں قبل از وقت اداروں یا شخصیات کو اس اندوہناک واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرانا شامل ہے۔

پورا ملک ارشد شریف کے قتل پر سوگوار ہے۔ مخالفین بھی بہرحال صدمے میں ہیں اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں سونے کی اسمگلنگ کے پہلو کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ میری مانیں تو کراماً کاتبین سے ارشد شریف کے گناہوں اور خطاؤں کی فہرست لے لیں پھر اس کے مطابق چارج شیٹ تیار کریں۔ جب جوڈیشل کمیشن بن گیا ہے اور انویسٹیگیشن ٹیم کینیا جانے والی کو تیار ہے تو اس قسم کی قیاس آرائی کی کیا ضرورت تھی۔

اگر فیصل واوڈا صاحب جیسے سیاستدان کو سب پتہ ہے تو وہ تحقیقات میں تعاون کریں نہ کہ اتنی بے ربط پریس کانفرنس کریں جس کا سر پیر ہی نہ ہو۔ اس قسم کی بیانات ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات پر منفی طور سے اثر انداز ہوں گے اور جو لوگ اس واقعے کا ذمہ دار کسی مخصوص ادارے کو سمجھ رہے ہیں ان کا یقین پختہ ہو گا جس سے ملک میں تناؤ کی کیفیت مزید بڑھے گی۔ ارشد شریف کے چاہنے والوں اور اس کے مخالفین کو تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔

تحقیقات مکمل ہونے تک کسی ادارے یا فرد کو ارشد شریف کے قتل کا الزام دینا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ ارشد شریف کے علاوہ بھی کافی لوگ پاک فوج اور اداروں پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن ادارے اس حد تک نہیں جاتے کہ کسی کو اس طرح قتل کر دیا جائے۔ عاصمہ جہانگیر، منظور پشتین، افراسیاب خٹک، ماما قدیر، محسن داوڑ، علی وزیر، حامد میر، عائشہ صدیقہ اس کی مثالیں ہیں۔ ہم بحیثیت قوم کافی جلدی ردعمل دے دیتے ہیں۔ ایسے افسوسناک واقعات کے جواب میں ہم نے اداروں کو مطعون کرنا اپنا وتیرہ بنالیا ہے۔ جذباتی ردعمل کسی مسئلے کا حل نہیں۔ سو تحقیقات کا انتظار کرنا بہتر رہے گا۔

تیرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا۔
الوداع ارشد شریف!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments