تعلق کا نادیدہ بوجھ (3)


سونیا گاڑی میں بیٹھ کر جا چکی تھی۔ فہد نے جیب میں رکھے جیولری بکس کو انگلیوں سے چھوا۔ سوچا تھا کہ سونیا کو گھر چھوڑتے وقت شب بخیر کہہ کر اس کے گال پر ہلکا سا دوستانہ بوسہ دے کر اسے دے گا۔ اگر اس نے اجازت دی تو یہ بریسلٹ اس کی کلائی پر باندھ بھی دے گا لیکن وہ سنہری بالوں والا آ گیا اور سونیا ہاتھ ہلاتی رخصت ہو گئی۔ جاتے جاتے گھر کی چابی بھی دے گئی۔ فہد نے سوچا کہ میگی کو میسج کرے لیکن پھر سیدھا گھر روانہ ہو گیا اور ایک بے چین نیند سو گیا۔

سونیا نے اسٹیو کی گاڑی میں بیٹھ کر کہا ”مجھے گھر چھوڑ دو پلیز“

گھر آ گیا۔ اسٹیو کو کچھ کچھ امید تھی کہ سونیا اسے اندر آنے کے لیے کہے گی۔ شاید کافی بھی پلائے۔ لیکن وہ ڈھیر سارا شکریہ ادا کر کے چلی گئی۔ سونیا کو رہ رہ کر سوچ ستا رہی تھی کہ فہد آج رات کہنا کیا چاہ رہا تھا۔ اور یہ بھی کہ آخر اسٹیو کو بلا کر وہ کیا ثابت کرنا چاہتی تھی؟ تنہائی کے بستر پر اداسی اوڑھ کر نیند بمشکل آئی۔

ڈنر اچھی فضا میں ہوا تھا۔ دونوں خوب بنے سنورے تھے۔ دونوں کی انگلیوں میں ویڈنگ رینگز بھی ابھی تک تھیں۔ بظاہر یہی لگتا تھا کہ وہ الگ رہ کر خوش ہیں اور مطمئن ہیں۔ اس رات کے بعد کچھ دن دونوں طرف خاموشی سی رہی۔

پھر ایک دن صبح صبح سونیا کا میسج آیا ”فوراً ملو۔ اہم بات ہے“
کام کے بعد دونوں ایک ریسٹورنٹ میں ملے۔ سونیا بے چین سی نظر آئی۔
”بولو کیا بات ہے؟“
”بیٹی نے بوائے فرینڈ بنا لیا ہے“ وہ پانی کا پورا گلاس پی گئی۔
” اوہ؟ میشل نے؟ وہ تو ابھی بچی ہے۔ چودہ سال کی“ فہد کی حیرت سے آنکھیں پھیل گیں۔
” پندرہ کی“ سونیا نے تصحیح کی۔
”اتنی بڑی ہو گئی وہ۔“
”اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلا۔“ سونیا نے اس کی بات کاٹی۔ فہد نے اس کا طنز نظر انداز کیا۔
”کون ہے۔ کیا کرتا ہے؟“

” ارے بھئی وہ بھی بچہ ہی ہے اسکول جاتا ہے۔ کلاس فیلو ہیں دونوں۔ چائینیز امیگرنٹ والدین کا بیٹا ہے۔ چنگ لی نام ہے“

” یار ویسے اتنی جلدی وہ اتنی بڑی کیسے ہو گئی؟ کب ہو گئی؟“ فہد ابھی تک حیرانی سے نہ نکل سکا ”چنگ لی۔ ہوں۔ تم ملی ہو اس سے کیسا ہے؟“

”ہاں ایک بار ملی ہوں۔ تمیزدار بچہ ہے۔ تھوڑا سا شرمیلا سا“
” تمہیں میشیل نے خود بتایا؟“

”نہیں نا۔ یہی دکھ ہے مجھے کہ اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ چنگ لی کی ماں میری کلینک میں گائیناکولوجسٹ ہے۔ تین دن پہلے ملی تو کہنے لگی تمہاری بیٹی بہت پیاری ہے۔ میرے بیتے کی چوائس اچھی ہے۔ فہد میں تو برف جیسی ٹھنڈی ہو گئی۔ یہ کب ہوا؟ تم تو دور تھے مجھے تو ساتھ ہوتے ہوئے بھی خبر نہ ہوئی۔ مجھے اتنا لاعلم اور بے خبر نہیں ہونا چاہیے تھا“ سونیا بے حد اداسی سے بولی۔

”خود کو الزام مت دو۔ بچوں کی ذمہ داری ہم دونوں کی ہے۔ وہاں نہ رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ میری اب کوئی ذمہ داری ہی نہیں رہی۔“

” مسز لی سے بات کر کے میں انتظار میں تھی کہ شاید میشل خود مجھے بتائے۔ اتنا اعتماد تو ہمارے بیچ ہونا چاہیے تھا۔ اس دن میں نے پوچھا بھی کہ اسکول کیسا جا رہا ہے؟ زندگی میں کیا چل رہا ہے؟ سب ٹھیک کے علاوہ ایک لفظ بھی نہ بولی۔ کل میں ذرا جلدی گھر آ گئی تو لوینگ روم میں وہ اس لڑکے کے ساتھ بیٹھی تھی۔ دونوں مجھے دیکھ کر چونک گئے۔ چنگ لی کھڑا ہو گیا۔“ موم یہ میرا کلاس فیلو ہے۔ چنگ لی۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ میں جانتی ہوں یہ کون ہے۔ میشل اور بھی گڑبڑا گئی۔ چنگ لی اجازت لے کر چلا گیا۔ میشل اس انتظار میں رہی کہ میں کچھ پوچھ گچھ کروں گی لیکن میں چپ رہی۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اور کیا کہوں۔ اب تم بتاؤ کیا کرنا ہے؟ ”

فہد سر کھجا کر رہ گیا۔ ”میں تو اب بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ اتنی جلدی کیسے ہو رہا ہے“

” اسکول میں سیکس ایجوکیشن شروع ہو چکی ہے۔ مجھے میل آئی تھی اسکول سے۔ کونڈم اور برتھ کنٹرول کے بارے میں بتایا۔ سیف سیکس پر بات کی۔ ہم دیسی لوگوں کے لیے شاید یہ سب جلدی ہے لیکن یہاں اس عمر میں یہ ہوتا ہے۔“

”ہاں۔ میل تو مجھے بھی آئی تھی لیکن۔ تم کھل کر بات کرو میشل سے“

” دیسی لوگوں کی یہ بھی مشکل ہے کہ کھل کر بچوں سے بات نہیں کر سکتے۔ آج صبح اسکول جانے سے پہلے میشل نے کہا کہ وہ اسکول کے بعد چنگ لی کے ساتھ مال پر جائے گی۔ میں کہا نہیں اسکول کے بعد سیدھی گھر آؤ۔ پھر پتہ ہے اس نے کیا کہا؟“

”کیا“
” کہنے لگی میں ڈیڈ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں“ اس کا خیال ہے تم اسے زیادہ آزادی دو گے ”
”ارے۔ یہ کیسے سوچ لیا اس نے؟“
”رکھ کر دیکھ لو اسے اپنے پاس“

” یار میرا دو بیڈ رومز کا اپارٹمنٹ ہے۔ ایک کو میں نے اسٹڈی بنایا ہے۔ سوچنے دو شاید میں کوئی بڑا گھر لے لوں“

سونیا کو اس پر ترس آنے لگا۔ غور سے اس کی طرف دیکھا۔ کچھ دبلا ہو گیا ہے۔ کنپٹیوں پر سفید بالوں کی تعداد بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ دونوں کے بیچ اداسی نے ڈھیر ساری جگہ بنا لی۔ فہد سوچ رہا تھا کہ جدا ہوتے وقت اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں سونیا اکیلے انہیں کیسے ہینڈل کرے گی۔

”کوئی باؤنڈریز رکھنی پڑیں گیں۔ روک ٹوک بھی۔ یوں کھلی چھٹی نہیں دے سکتے۔ تم گھر کے رولز بناؤ“ ۔
”مل کر بنائیں گے۔“

فہد نے الگ ہو کر بھی سونیا اور بچوں کے ساتھ تعلق رکھا۔ بیٹے کے فٹ بال میچ میں جاتا۔ بیٹی کو اس کی دوستوں کے ہاں پک ڈراپ کرتا۔ اسکول میٹنگز اور ڈینٹسٹ کے اپائنٹمنٹس پر ساتھ ہوتا۔ دونوں بچوں سے فون پر روز ہی بات کرتا۔ لیکن شاید یہ کافی نہیں۔ اسے اور بھی کرنا چاہیے۔ سونیا نے اسے گھر کی چابی واپس تو کر دی تھی لیکن وہ گیا نہیں۔ آتا جاتا رہتا تو اچھا تھا۔ فون پر روز ہی بات ہوتی۔ ایک دن بات کرتے سونیا نے پوچھا۔

” کیا کر رہے تھے؟“
” گھر کی صفائی کر رہا تھا۔ چمک گیا گھر۔ تم نے تو ایک بار بھی میرا گھر آ کر نہیں دیکھا“
”تم نے بلایا ہی نہیں“
” اتوار کو آ جاؤ۔ میں کھانا بناؤں گا“

سونیا کو ضروری باتیں بھی کرنی تھیں اور فہد کا گھر دیکھنے کا اشتیاق بھی تھا۔ پھول بھی ساتھ لے گئی۔ فہد کو ٹیولپ پھول اچھے لگتے ہیں۔ کچھ سال پہلے گھر کے گارڈن میں اس نے لگائے تھے جو ہر سال کھلتے ہیں۔ فہد نے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا۔ گلے لگا کر گال سے گال چھوا۔

” واہ۔ ٹیولپس۔ مجھے بہت پسند ہیں“
” مجھے پتہ ہے“ وہ جھینپ سا گیا۔

پھولوں کو پانی کے جگ میں رکھ کر لایا۔ ”ارے تمہارے پاس کوئی گلدان نہیں ہے“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ سونیا نے سوچا اس کے اپنے گھر میں کرسٹل کے شاید پانچ چھے گلدان ہیں اور دل میں طے کر لیا کہ ایک گلدان اسے دے دے گی۔

سونیا نے چھوٹے سے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایک صوفہ، کافی ٹیبل، ٹی وی۔ ”آؤ تمہیں گھر دکھاؤں“ ۔ وہ اٹھی۔ بیڈ روم چھوٹا لیکن صاف ستھرا۔ دوسرا روم اسٹڈی تھا اس میں قانون کی کتابیں تھیں۔ کمپیوٹر تھا۔ میز پر بچوں کی تصویریں تھیں۔ ایک فیملی فوٹو بھی تھی۔ کچن بہت ہی چھوٹا تھا۔ باتھ روم دکھاتے ہوئے فہد نے کہا

” میں اب تولیہ زمین پر نہیں پھینکتا۔ تم نے میری اچھی تربیت کی ہے“ وہ ہنس دی۔
”میگی نہیں ہے یہاں“
” میگی؟ وہ کیوں ہو گی یہاں؟“
” تم ساتھ نہیں رہتے؟“ وہ ہچکچائی
” نہیں۔ ہم کبھی بھی ساتھ نہیں رہے“
”تم نے کبھی بتایا کیوں نہیں؟“
”تم نے کبھی پوچھا کیوں نہیں؟“
وہ چپ ہو گئی۔ فہد نے سوچا اس سنہری بالوں والے کا پوچھے لیکن چپ رہا۔
کھانے کے بعد کافی کے کپ لے کر وہ لوینگ روم میں آبیٹھے۔
” میشل کیسی ہے؟“
” ویسی ہی ہے۔ اکھڑی اکھڑی کی سی کھنچی کھنچی سی۔“
”اگلا پورا ویک اینڈ بچوں کے ساتھ گزاروں گا“ ۔
” اچھا ایک اور بات۔ مجھے لگتا ہے شمیر“ گے ”ہے۔“ اس نے چپس چباتے ہوئے کہا۔
”کیا؟“ وہ اچھل گیا۔ ”تمہیں کیسے اندازہ ہوا؟“

” وہ بھی تو پندرہ سال کا ہے۔ جڑواں ہیں دونوں۔ میں نے یونہی ٹٹولا کہ کلاس کی سب سے حسین لڑکی کون ہے تو کہا پتہ نہیں مجھے تو وہ سب ایک جیسی لگتی ہیں۔ یہ ہے نا تشویش کی بات؟ لڑکیوں میں انٹرسٹ ہی نہیں اسے“

”کمال کرتی ہو تم سونیا۔ بیٹی نے بوائے فرینڈ بنایا تو تم گھبرا گیں۔ بیٹے کے لیے چاہ رہی ہو کہ وہ گرل فرینڈ بنائے۔ “

”ہوں۔ کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو۔“

”یہ عمر لڑکوں کے لیے ذرا آوکورڈ سی ہوتی ہے۔ وہ دیر سے جوان ہوتے ہیں۔ یار تم تو خود بچوں کی ڈاکٹر ہو“

” شاید میں کچھ سہم سی گئی ہوں۔ ہر وقت لگتا ہے جیسے کچھ برا ہونے والا ہے“
فید اپنی جگہ سے اٹھا اور اس گلے لگا لیا۔ وہ خاموشی سے روتی رہی۔
” ہم مل کر سنبھال لیں گے۔ ڈونٹ وری۔ شمیر گے بھی ہے تو کیا۔ ہے تو ہمارا ہی“
دونوں کو لگا کہ گلے لگنے سے اور کچھ بدلے نہ بدلے تحفظ کا احساس ضرور ہوتا ہے۔
فہد بیڈ روم میں گیا۔ سائیڈ ٹیبل کی دراز سے بکس نکالا اور سونیا کے پاس آیا۔
”یہ کیا ہے؟“
”تمہارا برتھ ڈے گفٹ۔ اس شام میری جیب میں تھا لیکن تمہیں دینے کی نوبت نہیں آئی“
سونیا نے بکس کھولا۔

”بہت خوبصورت ہے“ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا اپنی کلائی فہد کے آگے کردے؟ کچھ دیر وہ بریسلٹ کو ہاتھ میں لیے تعریفی نظروں سے دیکھتی رہی۔ فہد کو لگا یہ لمحہ ضائع ہونے والا ہے، اس نے سونیا کے ہاتھ سے بریسلٹ لے لیا۔ سونیا نے کلائی بڑھا دی۔

”اب میں چلتی ہوں۔ دیر ہو گئی“ اس نے پرس اٹھایا۔ فہد نے مسکرا کر اسے رخصت کیا۔ وہ باہر آ کر گاڑی میں بیٹھ کر بھی دیر تک مسکراتی رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments