بابا کوڈا ، اسلامی صدارتی نظام ، عمرانی لانگ مارچ اور ایران


2015 میں تہران میں میرے قیام کو ایک سال ہو چکا تھا اور میں کافی حد تک فارسی بول چال لیتا تھا۔ ایران امریکہ دشمنی کی بابت پاکستان میں بھی بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا اور وہاں جا کر اس کا بخوبی مشاہدہ بھی ہوا۔ ایران میں جا بجا ”مرگ بر امریکا“ کی وال چاکنگ اور بڑے بڑے بینرز اور پوسٹر نظر آئے۔

اس وقت ایرانی ایک ملین تمان کے بدلے 36 ہزار روپے پاکستانی بنتے تھے۔ آئے روز ایکسچینج ریٹ میں کمی آتی رہتی تھی مثلاً ایک ملین تمان کے بدلے 2016 میں 36000 کی بجائے 30000، 2017 میں 27000، 2018 میں 18000 روپے تک ایرانی کرنسی گر گئی۔

اور یہی وجہ ایران سے ہمارے بوریا بستر سمیٹ کر واپس پاکستان کی طرف کوچ کی بنی۔

ایرانیوں سے ان کی کرنسی کی ڈی ویلیوایشن کی وجہ دریافت کرتے تو وہ ”تحریمات امریکائی“ بتاتے۔ اب ان امریکی پابندیوں کی وجہ پوچھتے تو وہ امریکا کو گندی اور ننگی گالیاں دے کر بتاتے کہ ہم ایک اسلامی اور خوددار قوم ہیں، اسرائیل دشمن ہیں، دنیا بھر پر اسلامی انقلاب کے مدعی ہیں، ہم امریکہ اور اسرائیل کو تباہ کر دیں گے، ہم نے عراق سے آٹھ سال جنگ لڑی ہے، امریکہ ہم سے ڈرتا ہے اسی لئے وہ دور بیٹھ کر ہم پر پابندیاں لگاتا رہتا ہے اور وہ اس کے علاوہ ہمارا بگاڑ ہی کیا سکتا ہے۔

ایک دن میں چند ایرانی دوستوں کے گھر پارٹی پر مدعو تھا۔ وہاں بصد شوق پہنچا تو وہ سب ٹی وی پر اپنے ”رئیس جمہور“ ( صدر اسلامی جمہوریہ ایران ) حسن روحانی کی تقریر سننے میں محو تھے۔ پانچ چار منٹ چپکا بیٹھا رہا اور پھر ان سے کہا کہ برادر ”پارٹی“ شروع کرو تو انہوں نے صبر کی تلقین کی اور تاکید کی کہ بحیثیت مسلمان تقریر سنو کہ واہ کیا انقلابی تقریر ہے اور یہ کہ پارٹی بہرصورت تقریر ختم ہونے کے بعد ہی شروع ہوگی۔

بادل نخواستہ ہم نے بھی ٹی وی سکرین پر نظریں جما لیں۔

آنجناب حسن روحانی ملبوس جبہ و دستار تقریر فرما رہے ہیں اور بیک گراؤنڈ میں اور میز کے سامنے ”ما امریکہ را زیر پا می گزاریم“ لکھا ہوا ہے یعنی ہم امریکہ کو اپنے پیروں تلے روندتے ہیں۔

اور تقریر جس قدر مجھے سمجھ آئی وہ غلامی سے نجات، حقیقی آزادی اور جہاد کی بابت گفتگو پر مبنی تھی۔

خیر جناب تقریر ختم ہوئی تو تقریر پر واہ واہ شروع ہو گئی۔ بہت سمجھایا انہیں کہ گونگلوو! تم استعمال کیے جا رہے ہو مگر جناب ایرانی یوتھ تھی عشروں سے برین واشنگ کا شکار تھی، کنٹرولڈ میڈیا، مطالعہ ایران اور اس پر مستزاد خوش کن مذہبی، قومی اور وطنیت پرستی کے جذباتی نعرے بھی، لہذا ہماری باتیں بے اثر ہی ٹھہریں۔

آج کل ایرانی ایک ملین تمان کے بدلے پاکستانی 5200 روپے بنتے ہیں۔ مہنگائی، افراط زر کی وجہ سے غربت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہاں خواتین میں جسم فروشی کی شرح ناقابل یقین حد تک پہنچ چکی ہے۔

وہاں ”اسلامی جمہوری صدارتی نظام“ قائم ہے۔

مقننہ کی عشوہ طرازیوں سے یکسر آزاد، ایک قسم کی ایسی بادشاہت جس میں اپنی ذاتی طاقت اداروں کے ساتھ مل کر استعمال کی جاتی ہے آپ اسے ون مین شو بھی کہہ سکتے ہیں۔ نام نہاد مجلس شوریٰ بھی ہوتی ہے مگر حتمی فیصلہ صدر جمہور ہی کرتا ہے۔ ایک قسم کی مطلق آمریت ہے اور پاکستان میں اسی قسم کے اسلامی صدارتی نظام کے نفاذ کی کوششیں عمران خان سمیت کچھ مذہبی عناصر اور اسٹیبلشمنٹ مل کر کرنا چاہ رہے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ تو خیر اب کافی حد تک پس قدم ہو چکی ہے مگر عمران خان صاحب اب بھی اسی واحد جدوجہد میں ہیں۔

اس نظام میں مجال ہے کہ ملک بھر میں کہیں آزادی اظہار نامی کوئی چیز نظر آ جائے۔ خاموشی سے حکومت کی طرف سے طے شدہ راستے اور ضابطے پر زندگی گزارو اور بس یہی حقیقی آزادی ہوتی ہے۔

پاکستان میں صدارتی نظام کا غلغلہ ہمیشہ مارشل لاء کے دور میں بپا ہوتا چلا آیا ہے۔ ایوب خان کے بعد حمید گل مرحوم نے ”اسلامی صدارتی نظام“ کی اصطلاح اور اس کے قیام کے لئے درون پردہ کافی جدوجہد کی۔

مجھے کچھ حیرانی تھی کہ کم پڑھے لکھے انصافی آئے روز اپنی پوسٹوں میں غلط قسم کے اعداد و شمار، گھٹیا دلیلیں، بازاری زبان، اور بسا اوقات کچھ غیر منطقی باتوں پر حقیقت کی ملمع کاری کیسے کر کے پوسٹ بنا سکتے تھے جبکہ ان کا ذہنی معیار اس قدر تھا نہیں۔

2018 میں ہی یہ عقدہ تب کھلا جب میں نے بابا کوڈا کی ایک پوسٹ اور اس میں تقریباً 25 فیصد کمنٹس اور تھریڈز پڑھے، دوبارہ پڑھے اور نوبت بہ اینجا رسید کہ

انصافی صبح صبح اٹھ کر اپنے روحانی گرو ”بابا کوڈا“ کے پیج استھان پر تشریف لے جاتے تھے اور وہاں سے اس فیض کا حصول ہوتا کہ جہاں بازاری زبان کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا، جہاں جہل کو قبولیت اولی کا درجہ دیا جاتا، جہاں غلیظ اور پلید گالم گلوچ اور الزام تراشی کے اسباق دھرانا شیطانی ولایت کا سبب بنتا،

جہاں شیطانی مناظرے کے گر سکھائے جاتے،
جہاں خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے ”سب کچھ“ جائز تھا،

جہاں کیچڑ زدہ ذہنیت کی تعمیر ہوتی اور ہر اس پگڑی پر کیچڑ اچھالنا سکھایا جاتا جو ذرا سا بھی اختلاف رائے رکھے۔

جہاں اخلاقی اقدار کے معانی، رسوائیوں اور گھناونے پن کے تھے۔
جہاں حقیقت تراشی جاتی اور اس پر اس انداز سے جھوٹ کی ملمع کاری کی جاتی کہ سچ کا گماں ہو۔

یہ پیج وہ واحد استھان تھا جہاں انصافی صبح شام حاضری دے کر ”فیض“ کاپی کر کے پیسٹ کر دیتے اور پھر انجانی مسرت کا شکار پائے جاتے اور خود کو ”چھوٹا بابا کوڈا“ محسوس کرتے تھے۔

”بابا کوڈا“ پی ٹی آئی کا پیڈ پیج تھا۔ یہ ایک شخص کا نام نہیں بلکہ پوری ایک ٹیم تھی، ایک چین تھی جو 24 گھنٹے مصروف عمل رہتی۔ ابھی ایک ایشو آیا ہی ہوتا کہ اس سے جڑی سچی جھوٹی تصاویر، دستاویزات، ثبوت، گواہ سب کچھ بابا کوڈا کے پیج پر موجود ہوتے تھے اور پاکستان تحریک انصاف کا یہ کریڈٹ ضرور بنتا ہے کہ وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے ”بابا کوڈا“ نامی پیج بنا کر عوام کو سیاسی اور مذہبی شدت پسندی میں اس حد تک ملوث کر دیا کہ معاشرہ عدم برداشت کا مظہر بنتا چلا گیا۔

بات شروع ہوئی تھی کم پڑھے لکھے اور محدود ذہنیت رکھنے والے تنگ نظر انصافیوں سے کہ جن کا اصل پلیٹ فارم اور فیض رساں دارالعلم بابا کوڈا کا پیج تھا۔ جہاں سے یہ کاپی اور معمولی ردو بدل کر کے پوسٹیں کرتے اور بابا کوڈا کے پیروکار ہونے کا حق ادا کرتے تھے۔

چند جھوٹے وعدے، جھوٹے نعرے، سبز باغ برین واشنگ کر کے ان کے ذہنوں میں ٹھونس دیے گئے۔

یہ نہیں سوچا گیا کہ جلد یا بدیر جب یہ سہانے سپنے ٹوٹیں گے تو یہ انصافی جو اپنا سب کچھ بابا کوڈا پر نچھاور کر چکے، کس قدر فرسٹریشن کا شکار ہونگے اور آج بابا کوڈا کہیں نظر نہیں آتا۔

اس وقت سینکڑوں پیجز، فیس بک آئیڈیا، ٹویٹر اور انسٹاگرام اکاؤنٹس بیک وقت سامنے آئے اور پی ٹی آئی اور عمران خان کو ملک کا واحد نجات دہندہ اور عالم اسلام کا بے مثل ہیرو ثابت کرنا شروع کر دیا جبکہ دوسری طرف مخالف سیاسی پارٹیوں پر طنز، طعن و تشنیع، جھوٹی سچی الزام تراشیوں کا بھرپور اور مسلسل سلسلہ شروع کر دیا۔ بے شمار پیڈ میڈیا سیل بیک وقت میدان میں اتر آئے۔

ہر طبقہ فکر کے عوام متوجہ ہوئے اور مسلسل کی جانے والی برین واشنگ کا شکار ہوئے بالخصوص کچی عمر اور کچے ذہن کے لا ابالی نوجوان اس کا شکار بنے اور آج وہ اس ناقص معلومات پر مبنی مسلسل برین واشنگ کے نتیجے میں بزعم خود پاکستان میں واحد حق پرست عمران خان کو سمجھتے ہیں۔

2018 کے بعد ہی سے مختلف متاثر کن ناموں سے ایک دم ہی سینکڑوں پیجز نمودار ہوئے کہ جن پر سپانسرڈ لکھا ہوتا تھا یعنی وہ زیادہ سے زیادہ عوامی رسائی کے لئے فیس بک کو پیسے دیتے تھے۔ اب ان خوبصورت ادبی، قومی، وطنی اور بہت سے دیگر دلکش ناموں والے پیجز میں ہوتے صرف اسلامی صدارتی نظام کے فضائل و ضرورت پر مبنی مضامین تھے۔

ایسے خوبصورت جذباتی انداز سے اسلامی صدارتی نظام کے حق میں دلائل اور پارلیمانی جمہوریت کے رد اور مضرت رسانی کے ثبوت پیش کئیے جاتے کہ کوئی بھی پھسل جائے۔

تب ہم پر ایک بار پھر یہ عقدہ کھلا کہ ہمارے ہمہ قسم انصافی دوست عمران خان کی دس سالہ حتمی حکومت اور اسلامی صدارتی نظام کے نعرے کیوں بلند کرتے پھرتے ہیں اور مدعی ہیں کہ طے شدہ بات ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔

دو تین مختلف مسالک کی مذہبی جماعتوں کے سینکڑوں کارکنان اسلامی صدارتی نظام اور عمران خان کے حق میں مہم چلاتے پائے گئے اور تا امروز اب بھی اسی جدوجہد کا حصہ ہیں۔

حمید گل مرحوم اور عمران خان کافی عرصہ اکٹھے رہے اور انہوں نے ہی مذکورہ اسلامی صدارتی نظام کا خاکہ اور پروپیگنڈا بشمول اس کے آمرانہ حکومتی فوائد عمران خان کے ذہن میں ٹھونسے اور موصوف اس پر پکے ہو گئے۔

ناچیز نے بھی کافی عرصہ ایک مذہبی سیاسی جماعت میں گزارا اور گرمیوں کی تپتی دھوپ میں بارہا گھنٹوں امریکہ مردہ باد ریلیوں، دھرنوں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگائے ہوئے ہیں۔

سچ ہے کہ تیسری دنیا کے بیشتر، مذہبی، غریب اور کرپٹ اور آمرانہ ممالک میں مرگ بر امریکہ ایک انتہائی مقبول اور جلد بکنے والا نعرہ ہے مگر اس کا ایک فیصد مثبت آؤٹ پٹ بھی کبھی عوام کو نہیں ملا جبکہ حکمران اشرافیہ اسے ہر لحاظ سے صد فیصد کیش کرواتی چلی آئی ہے اور کرواتی رہے گی۔

سائفر سازش، امریکی غلامی کا بیانیہ اب فقط غیر ملکی سازش رہ گیا ہے۔ امریکہ کا نام گم ہو چکا ہے بلکہ اس کا ذکر بھی اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ کمزور یاداشت کی عوام کو اب حقیقی آزادی، غلامی سے نجات اور جہاد کے نعروں کے لالی پاپ اور نان ایشوز سے پھسلایا جا رہا ہے۔

عمران خان کے پیش نظر اب بھی وہی اسلامی صدارتی نظام اور کم از کم دس سالہ مسلسل اقتدار کا حصول ہے۔ خود پسندانہ آمریت ویسے بھی اس کی ذاتی شخصیت کا حصہ ہے۔

1979 سے قبل کا ایران اس وقت کا ایک ترقی یافتہ ملک تھا۔ معیشت و معاشرت، تہذیب و ثقافت مضبوط تھی اور ترقی کا سفر جاری تھا۔ بین الاقوامی دنیا میں رسوخ بھی تھا گو کہ بادشاہت تھی مگر اظہار رائے کی آزادی آج کی نسبت زیادہ تھی۔ پھر ایرانی عوام کو انقلاب کی سوجھی اور بخدا انقلاب کے اگلے ہی روز سے ایرانی عوام کے لئے آہ و زاری ان کے مقدر میں لکھ دی گئی اور چار دہائیوں سے تا امروز وہ روتے ہی چلے آ رہے ہیں۔

سن 1979 میں ایران کی کرنسی ریال تھی اور اب بھی حقیقی معنوں میں ریال ہی ہے۔

تب ایک ایرانی ریال پاکستانی روپے سے زیادہ ویلیو رکھتا تھا اور آج ایک کروڑ ایرانی ریال پاکستانی 5200 روپے کے برابر ہیں اور اب دنیا کی کم ترین قدر کی کرنسیوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ دوسرے نمبر پر کم ترین قدر والی کرنسی والا ملک ترکمانستان ہے اور وہاں بھی اسلامی صدارتی نظام نافذ ہے۔

عمران خان صاحب نے ایک بار پھر لانگ مارچ شروع کر دیا ہے جبکہ پاکستان اس وقت پہلے سے بھی زیادہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی غیریقینی کی صورت حال کا شکار ہے۔

ایسی بھی کیا آفت آن پڑی ہے کہ قبل از وقت انتخابات ہی پاکستان کے جملہ مسائل کا حل ہیں؟ اور انتخابات اپنے وقت پر ہونے سے کون سی آفت ٹوٹ پڑے گی؟

اگر پی ڈی ایم حکومت قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ تسلیم کر لیتی ہے تو اس کا دھڑن تختہ نکلتا ہے اور اگر خان اس مرتبہ بھی بوجوہ ناکام واپس آتا ہے تو پی ٹی آئی کا نروس بریک ڈاؤن نکلتا ہے جبکہ

اس وقت پولرائزیشن اپنے عروج پر ہے اور خانصاحب کے اس لانگ مارچ سے کسی بھی قسم کا ناخوشگوار واقعہ رونما ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا جس سے ملک میں سیاسی و سماجی عدم استحکام اور معاشی غیریقینی کی صورتحال میں ہی اضافہ ہو گا۔

وفاقی حکومت قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ مانتی فی الوقت تو نظر نہیں آ رہی۔ بالفرض خان صاحب کے بھرپور لانگ مارچ، دھرنے کے باوجود حکومت نہیں مانتی تو کیا ضمانت ہے کہ دھرنا پر امن ہی رہے گا اور خان صاحب حسب سابق دھمکیوں بھری اشتعال انگیز تقاریر نہیں کریں گے۔

میری ناقص فہم تو یہ کہتی ہے کہ حکومت کو ملک کے وسیع تر مفاد میں مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخ دے کر خان کے غبارے سے فی الوقت تو ہوا نکال دینی چاہیے۔ پھر فریقین اپنی اپنی انتخابی تیاریاں کریں اور الیکشن میں دیکھا جائے گا۔

بصورت دیگر لانگ مارچ میں فریقین یا کسی بھی اندرونی یا بیرونی دشمن کی پھینکی ہوئی ایک چنگاری بھی آتش فشاں بن سکتی ہے۔

پس تحریر : قارئین کرام! دو تین موضوعات بیک وقت ذہن میں گردش کر رہے تھے۔

وقت کی قلت کے پیش نظر تینوں کو اس ایک مضمون میں سمو دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی حد تک بے ربط لگیں مگر یقین کیجئے اصل مدعا ایک ہی ہے۔

بہرحال اگر ربط کا فقدان نظر آئے تو کھلے دل سے معاف کیجئے گا کہ آج کل ذہن و دل کی کیفیت بھی کچھ بے ربط سی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments