سفاک قاتل، شیطان کے طور پر پیش جانے والی قدیم روم کی مہارانی کیا حقیقت میں بھی ایسی تھیں؟


روم کی پہلی مہارانی لیویا ڈروسیلا کو طویل عرصے تک ایک سفاک قاتل، ولن اور شیطان کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ قبل ریلیز ہونے والے ایک نئے ٹی وی ڈرامے میں ہدایتکار ڈیزی ڈن پہلی بار ان کے متعلق حقیقت کو فسانے سے الگ کر کے پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

’لیویا: ماں کے طور پر قوم کے لیے ایک کلنک ہے، سوتیلی ماں کے طور پر سیزر کے گھر کے لیے ایک بدنما داغ ہے۔‘ روم کی پہلی ملکہ لیویا ڈروسیلا کے بارے میں ٹیسیٹوئس نے یہ باتیں کہی تھیں۔

قدیم مؤرخ بتاتے ہیں کہ لیویا نے اپنے شوہر شہنشاہ آگسٹس کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا اور اپنے بیٹے یعنی آگسٹس کے سوتیلے بیٹے ٹائبیریئس کو اس کے جانشین کے طور پر لانے کے لیے اس نے تخت کے ہر ممکنہ وارث کو جلاوطن یا قتل کروا دیا تھا۔

جب شہنشاہ کی بالآخر سنہ 14 عیسوی میں موت ہوئی تو ان کی اہلیہ اور مہارانی پر انھیں مارنے کا بھی الزام لگایا گیا۔

ٹیسیٹس کا بیانیہ اور اسی قسم کے دوسرے بیانیے اتنے منھ بسورنے والے ہیں کہ یہ مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا کیا کیا جائے۔

کیا اس انتہائی معزز مؤرخ نے جو بیان کیا وہ افسانہ تھا؟ وہ اور سویٹونیئس جیسے ان کے چھوٹے ہم عصر لیویا کی موت کے تقریباً ایک صدی بعد لکھ رہے تھے اور دیگر مورخین جنھوں نے مہارانی کا تذکرہ اس طرح کیا ہے وہ تو اور بھی بعد میں آئے۔ کیا انھوں نے جو کتابیں لکھیں ان میں سچائی کے عناصر موجود ہیں؟

سویٹونیس روم میں لائبریریوں کے سربراہ تھے اور انھیں شاہی آرکائیوز تک رسائی حاصل تھی۔ یقیناً یہ ان کے مفاد میں تھا کہ وہ محض من گھڑت باتوں کا سہارا لینے کے بجائے اپنی دسترس میں موجود مواد سے حقیقت حال حاصل کرتے۔

ناول نگار رابرٹ گریوز نے ان دونوں کے تذکروں کا استعمال کرتے ہوئے ’آئی، کلوڈیئس‘ نامی ناول لکھی جن ان کے خاندان کے بارے میں ایک دلکش ناول قرار دیا گیا۔ اس میں انھوں نے لیویا کے ہکلانے والے پوتے شہنشاہ کلوڈیئس کے مطمح نظر سے یہ ناول پیش کیا ہے۔

ان کی کتاب سے مہارانی کی جو شبیہ بنتی ہے وہ کسی تیزابی زبان والی اور ایک سازشی اور حسد کرنے والی نظر آتی ہے جو کہ ہمیشہ سازشوں میں مصروف رہتی ہے اور اس کا وارڈ روب یعنی کپڑے کی الماری انتہائی پرتعیش ملبوسات سے بھری ہوتی ہے۔

اسی کتاب پر منبی سنہ 1976 کے ٹی وی سیریئل میں ان کا کردار سیان فلپس نے شاندار طریقے سے نبھایا اور سہل انداز میں یہ دکھایا گیا ہے کہ وہ مجسم برفانی خاتون کس طرح اپنے آس پاس کے مردوں کو اپنے اشاروں پر نچاتی تھیں۔ رابرٹ گریوز اور سیان فلپس کی پیش کردہ لیویا بعض معاملات میں تو قدیم تاریخ کی کتابوں میں پیش کی گئی لیویا سے بھی زیادہ ظالم تھی۔

اب قدیم روم کی مہارانی لیویا حال ہی میں ریلیز ہونے والی ڈرامہ سیریز ’ڈومینا‘ کا موضوع ہیں۔ پہلی قسط میں ہم ایک بہت ہی مختلف قسم کے لیویا سے ملتے ہیں جو کہ ’آئی، کلاڈیئس‘ سے مختلف ہے۔

مثال کے طور پر ہم ابتدا میں ایک 15 سال کی عمر والی لیویا سے ملتے ہیں جو دنیا بھر میں مشہور اس عورت سے کافی چھوٹی ہے جس کا ہمارے ذہنوں میں تصور ہے۔

ابتدائی مناظر میں فاختہ جیسی آنکھوں والی نوجوان (نادیہ پارکس) اپنی شادی کے دن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس کے والد طاقتور کلاڈیی خاندان کے وارث نے ان کا رشتہ اپنے ہی خاندان میں تقریباً اس کی تین گنا عمر کے کزن کے ساتھ طے کیا ہے جس کا نام ٹائبیریس نیرو ہے۔ اور اب تک جتنا پیش کیا گیا ہے وہ تو سچ ہے۔

یہ شادی جولیس سیزر کے قتل کے بعد سر پر منڈلانے والی خانہ جنگی کے پس منظر میں ہو رہی ہے۔ نام نہاد آزادی پسند، جو خود کو رومن ریپبلک کو آمر کے ہاتھوں سے چھڑانے والے کے طور پر دیکھتے تھے، ان سبھوں نے راہ فرار اختیار کر رکھی ہے۔

سیزر کی موت کا بدلہ لینے کی مہم کی قیادت کرنے والوں میں ان کا لے پالک بیٹا آکٹیوین بھی شامل ہے۔ لیویا کے والد ابھی تک آزادی پسندوں کے مقصد کی حمایت کر رہے ہیں۔

مشہور تاریخی حقائق کو تیزی کے ساتھ سرسری طور پر پیش کرتے ہوئے یہ دکھایا گیا ہے کہ نوجوان آکٹیوین (ٹام گلن کارنی نے کردار ادا کیا ہے) لیویا کی شادی میں چلے آتے ہیں، جہاں وہ چھپ کر پرجوش بوسے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

تھوڑے دنوں بعد جب آکٹیوین کی فوج روم میں داخل ہوتی ہے تو لیویا اور اس کا شوہر (اس سیریز میں اسے ایک بے کیف، ظالم اور سست جنسی بیمار کے طور پر کاسٹ کیا گیا ہے) اپنے بچے، ٹائبیریئس کو لے کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔

مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس نوجوان خاندان نے سسلی اور یونان میں پناہ لی تھی۔ لیویا کے لیے یہ المیہ ہے کہ آزادی پسندوں کو شکست ہوتی ہے اور اس کے والد جو ان کی طرف سے لڑے تھے وہ خودکشی کر لیتے ہیں۔

شادی: ایک موڑ

قسمت ایک عجیب کروٹ لیتی ہے اور لیویا بعد میں اپنے شوہر، نوجوان ٹائبیریئس، اور اس کے پیٹ میں پلنے والے دوسرے بیٹے کے ساتھ روم لوٹ آتی ہے۔ جہاں اس کی طلاق اور پھر آکٹیوین سے شادی ہوتی ہے۔

قدیم ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ آکٹوین نے حاملہ ہونے کے باوجود اسے اس کے شوہر سے الگ کر دیا تھا کیونکہ وہ اس کی خوبصورتی سے انتہائی متاثر ہوا تھا اور اپنی بیوی سکریبونیا اور اس کے باغیانہ رویے سے تنگ آ چکا تھا۔

ڈومینا کی اس قسط میں لیویا کو زیادہ پرکشش انداز میں پیش کیا گیا ہے جو وہ آکٹیوین کو رضامند کرتی نظر آتی ہے جبکہ آکٹیوین خوابیدہ انداز میں اس کی خواہش ہی کرتا ہے۔

لیویا اسے یہ باور کراتی ہے کہ اس شراکت داری سے دونوں کو کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا ہے اور وہ اس کے حوالے سے اپنے نامور خاندان سے تعلق، اٹلی سے اپنے فرار کے بعد اپنی دولت اور حیثیت کو دوبارہ قائم کرنے کا ذکر بھی کرتی ہیں۔

اصلی لیویا بھی اسی طرح کا طاقتور کردار رہی ہوگی۔ آخرکار وہ ایک ایسی عورت تھی جسے اپنے دو بیٹوں کی پرورش ترک کرنی پڑی تھی (جو چھ سال تک اپنے والد کی موت تک اپنے والد کے ساتھ رہنے کے لیے گئے تھے) ایک ایسے شخص سے شادی کرنے کے لیے جو جنگ میں اس کے والد کے مخالف کھڑا تھا۔

اس نے اس صورتحال کو قبول کیا تھا یا فعال طور پر اس کی حوصلہ افزائی کی تھی یہ کہہ پانا مشکل ہے۔ بہر حال سیوٹونیئس کے مطابق آکٹیوین اپنے بہتیرے افیئرز کے باوجود زندگی بھر صرف لیویا سے محبت کرتا رہا اور اس کا اعتراف بھی کیا۔ ان کی شادی بظاہر سہولت کی شادی سے زیادہ تھی۔

ڈومینا کسی بھی طرح سے مہارانی کی دستاویزی تصویر کشی نہیں ہے۔ پہلی تین اقساط میں کچھ متجسس اختراع اور کہانی کے کچھ بیانیے پیش کیے گئے ہیں، جن میں لیویا کے سابق غلام، ایک میڈم، اور کچھ ٹیراپن کے قتل پر مشتمل ایک وسیع پلاٹ شامل ہے۔

لیکن زیادہ تر حصے میں یہ اس عہد یعنی عصری روح، اس کی اقدار اور کچھ صداقت کے ساتھ (لیویا کے زعفرانی رنگ کے شادی کے ملبوسات پر مبنی) فیشن اور فن تعمیر کو بھی اچھی طرح پیش کیا گیا ہے۔ خاص طور پر آمریت اور بادشاہت کے خوف کی انتہائی عمدہ تصویر کشی ہوئی ہے جو کہانی میں زیریں لہر کی طرح ہے۔

یہ خوف اس وقت حقیقت بن جاتا ہے جب مبینہ طور پر لیویا کی سازش کے نتیجے میں آکٹوین روم کا پہلا شہنشاہ ’آگسٹس‘ بن جاتا ہے۔

جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھے گا (عمر دراز لیویا کا کردار کاسیا سمٹنیاک نے ادا کیا ہے)۔ ہمیں امکان ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس لیویا کو دیکھیں گے جن سے ہم واقف ہیں۔ اسے لازمی طور پر ریاست کے معاملات میں غرق دکھایا جائے گا۔

قدیم ذرائع میں ہم اس کی جانب سے پسندیدہ غیر رومیوں کو شہریت دینے کی درخواستیں کرنے اور موت کی سزا پانے والے افراد کی جان بچانے کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ وہ اتنی بار روایتی طور پر مردانہ حصے یا دائرے میں داخل ہوتی تھیں کہ ان کے اپنے پوتے کیلیگولا نے انھیں ’عورت کے لبادے میں اوڈیسیئس‘ کہا تھا۔

قدیم مؤرخین کی طرح رابرٹ گریوز کے لیے بھی لیویا کی اپنے شوہر کے کام میں دلچسپی مداخلت اور کنٹرول کے مترادف تھی۔ آئی، کلاڈیئس میں کلاڈیئس کہتا ہے کہ ’ہر کوئی جانتا تھا کہ لیویا آگسٹس کو سخت ڈسپلین میں رکھتی ہے اور یہ کہ اگر وہ حقیقت میں اس سے خوفزدہ نہیں تھا تو بھی وہ کسی حد تک بہت محتاط رہتا تھا کہ وہ اس ناراض نہ کرے۔‘

اس قسم کی مداخلت کی ڈومینا میں یہ نئی تشریح کی گئی ہے عوامی معاملات میں لیویا کی شمولیت بری مداخلت کی بجائے اس کی ذہانت اور گہری سیاسی بصیرت کا ثبوت تھا۔ اس بات کے اچھے اشارے ہیں کہ سیریز میں ایسا ہی ہوگا۔

اس سے قطع نظر کہ ہم سکرین پر کیا دیکھتے ہیں، ہمیں یہ تلخ گھونٹ پینا پڑے گا کہ لیویا نے اپنے بیٹے ٹائبیریئس کے حریفوں کو ہٹانے کے لیے کام کیا تھا اور آگسٹس کی موت میں تیزی کا سبب بنی تھی جب اسے یہ اسے خدشہ ہونے لگا کہ آگسٹس اپنے پوتے کو اپنا جانشین بنانے والا ہے۔

زیادہ قابل اعتبار نظریہ یہ ہے کہ لیویا نے آگسٹس کو اپنے بیٹے اور وارث کے طور پر ٹائبیریئس کو اپنانے پر آمادہ کرنے میں مدد کی۔ چونکہ آگسٹس کا لیویا سے پیدا ہونے والا کوئی بھی بچہ زندہ نہیں بچا تھا اس لیے لیویا کو یہ یقینی بنانا تھا کہ اس کی نسل اس کے بیٹے کے ذریعے چلے جو بعد میں جولیو-کلاؤڈین خاندان بن کر ابھرا۔

تاریخ میں لیویا اور ٹائبیریئس کے درمیان کے تعلقات کو ایک بدصورت طاقت کی کشمکش کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مورخین کا دعویٰ ہے کہ ماں شریک حکمران بننے کی خواہش رکھتی تھی، جبکہ بیٹے کو اس کا اثر و رسوخ گوارا نہ تھا۔ اس کے بجائے ہم ایک ایسی عورت کی تصویر بنا سکتے ہیں جو اپنی حکمت اور تجربہ ایک ایسے بیٹے کو دینا چاہتی ہے جو صرف اپنے طریقے سے کام کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

جیسا کہ مورخین بیان کرتے ہیں بلاشبہ لیویا ٹائبیریئس کے ساتھ طویل ملاقاتیں کرتی تھیں اور اسے مشورہ دیا کرتی تھیں۔ لیکن کئی ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹائیبیریئس اسے یہ یاد دلاتا کہ وہ محض ایک عورت ہے، جس کے پاس مردوں کی سیاست میں آنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

ڈومینا میں لیویا کا کہنا ہے کہ ’طاقت کا پہلا اصول بقا ہے۔‘

وہ ایک عورت ہو سکتی ہے لیکن جب پہلی مہارانی کی سنہ 29 عیسوی میں 86 سال کی عمر میں وفات ہوئی تو اس نے یہ ظاہر کر دیا تھا کہ ان کے بارے میں جو کچھ بھی تھا وہ ’محض‘ نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments