دوست پبلیکیشنز اسلام آباد نے لکھاریوں کے سینوں میں خنجر اتار دیے


مجھ نگوڑی پر تو وہی مثال صادق آ رہی تھی کہ
تیرا لٹیا شہر بھنبھور نی سسیئے بے خبرے

جمعے کی شب طاہرہ اقبال کو ان کے نئے ناول ہڑپہ جسے جہلم بک کارنر نے چھاپا ہے پر مبارک باد دینے کے لیے فون کیا۔ شکریہ کہتے ہوئے طاہرہ نے کہا ”تمہیں کچھ معلوم ہے دوست پبلیکیشنز اسلام آباد نے اپنا کاروبار سمیٹ کر ہماری کتابیں ردی والوں کو اٹھوا دی ہیں اور خود امریکہ چلے گئے ہیں۔“

”کیا کیا؟ طاہرہ ہوش میں تو ہو۔ کیا کہہ رہی ہو؟“ میرے اوپر تو جیسے بجلی گری تھی۔ میں جانتی تھی کہ اچھی کتابیں بہترین انداز میں چھاپنے کے لیے یہ ادارہ اپنی ایک شہرت رکھتا ہے۔ بہترین چھاپہ خانہ کا مالک ہے۔

”آپ کی بے خبری کی بھی حد ہی ہے۔ اس خبر کو تو سات آٹھ ماہ ہونے کو ہیں۔ میں تو سوگ منا منا کر اب کچھ کچھ سنبھلی ہوں۔“

”اور باقی لوگوں کا کیا حال ہے؟ ثروت محی الدین، نیلوفر اقبال، یونس جاوید، ڈاکٹر حامد بیگ، سیما پیروز، حسن عباس اور ہاں منشا یاد کی کتابیں بھی تو یہیں سے چھپتی تھیں۔ بے شمار لوگ اور بھی ہیں۔ ان کے بارے تو جانتی ہوں کہ کسی کی چار کسی کی تین، کسی کی دو اور میری تو ٹوکرا بھر یعنی چودہ کتابیں چھاپے بیٹھے تھے۔ تمہاری کون سی کم تھیں آٹھ تو مجھے یاد ہیں۔“

بڑی لمبی آہ طاہرہ اقبال کے سینے سے نکلی تھی۔ ”دیکھو میرے پاس تو کسی کی سافٹ کاپی بھی نہیں۔“

بقیہ رات کیسے گزری ہوگی۔ خود ہی جان جائیے۔ چودہ کتابیں جیسے سینے پر مونگ دلنے بیٹھ گئی تھیں۔
ان میں سے بیشتر اسفارتین ناول اور تین افسانوی مجموعے شامل ہیں۔

پیسہ، محنت، لہو رنگ فلسطین کو لکھتے ہوئے چار سال لگے تھے اور بھیجا ہی پلپلا ہو گیا تھا۔ لو بھئی اس پیسے والے نے تو ہم غریبوں کا پٹڑا کر دیا۔

کسی سیانے کی اس بات نے کبھی متاثر نہیں کیا تھا کہ اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں کبھی مت رکھو۔ تین پبلشروں میں بٹی ہوئی تھی مگر جی جان سے یہی چاہتی تھی کہ ایک ہی کے ساتھ نتھی ہو جاؤں۔

اب بستر پر لیٹی ماتم کرتے اندر کو سمجھا رہی ہوں۔ شکر کر باقی چودہ تین میں بٹی ہوئی ہیں۔ وہ بھی کہیں ان کے پاس ہی ہوتیں تو بلیے تیرا تو ککھ پت نہیں رہنا تھا۔

حال اس خستہ حال دکھیاری ماں جیسا تھا جس کے جوان بیٹے کی بے وفائی نے اسے نو ماہ پیٹ میں رکھنے جننے اور پالنے پوسنے کی کلفتوں اور مشقتوں کی اذیتوں کی یاد نے بے کل کر دیا ہو۔

پہلے تو اسفار یاد آئے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر پروفیسر معین نظامی کی ایک تقریر جو کسی تقریب میں سنی تھی کانوں میں گونجنے لگی۔ ”سفر نامہ لکھنے کے لیے سفر نہیں کرنا چاہیے۔ لو جی یہ اچھی ایکٹویٹی رہی۔ تب بھی بڑا پیچ و تاب کھایا تھا اور اس وقت بھی کھولنے لگی تھی۔ بھلا اب اس صاحب علم کی بات سے میں اتفاق کیسے کروں؟ جبکہ میں نے تو سفر کیے ہی لکھنے کے لیے ہیں۔ جتنی اذیتیں اور پریشانیاں میں نے بھوگیں ان کا کیا مول۔ پیسہ کی بربادی تو رہی ایک طرف خطرات میں کودنے سے بھی گریز نہ کیا۔ طعنے اور لعن طعن جو سہی اس کی بھی کئی کہانیاں۔

ساری کلفتیں، سارے دکھ، سارے مرنے، کہیں دوپہر کے کھانے کی بچت، کہیں رات کا کھانا گل۔ آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں کو پوروں سے پونچھتے ہوئے خود سے کہتی ہوں۔ ”اے میرے دل ناہنجار کہاں تک سنو گے اور کہاں تک سناؤں تمہیں۔ یہ تم ہی بد بخت تھے جو اکساتے تھے کہ فلاں ملک پر لکھو۔ فلاں جگہ جاؤ۔ پہلے جانے کے رپھڑ اور واپس آ کر اسے لکھنے کے سیاپے۔ ان کی صحت بارے مستند حوالوں کے لیے کہیں کتابوں سے مغزکھپائی اور کہیں انٹرنیٹ پر آنکھوں کو پھوڑنا۔ مواد کو دلچسپ بنانے کے لیے کوششیں اور حربے۔ قاری بور نہ ہو جائے کہیں۔ چھپوانے کے سیاپے اور پھر تنقید نگاروں کے کھیل تماشے۔

لہو رنگ فلسطین ناول یاد آیا تھا۔

”شومئی قسمت کہ مصر میرا خواب“ سفر نامہ کی تقریب رونمائی مصری سفارت خانے نے کی۔ مصری سفیر عامر مگدی نے تقریب کے دن مشرق وسطیٰ کے سفیروں کو بھی بلا لیا تھا۔ جہاں فلسطین کے نوجوان سفیر ابو شینب نے کہا۔ ”ہمارے فلسطین پر بھی تو لکھیے۔“ ہائے دل سے ہوک اٹھی۔ الطاف آپا یاد آئی تھیں۔ فلسطین سے ان کا عشق یاد آیا تھا۔ ان کی کہانیاں یاد آئی تھیں۔ ان کے گول برآمدے میں میٹ پر بیٹھے ان سے باتیں کرتے ہوئے اپنے اور ان کے آنسو یاد آئے تھے۔

تو رقت بھری آواز میں ہامی بھری تھی۔ اور یہ ہامی کتنی مہنگی پڑی۔ کسی کو کیا بتاؤں اور کیا سناؤں۔ ویزا کے لیے اسلام آباد کے چکر۔ اسرائیل بے ہودہ کی بے ہود گیاں ہر بار ایک نیا اعتراض۔ چار سال کی قید بامشقت کہ لاہور میں ہوتے ہوئے بھی فلسطین اور اسرائیل میں شب و روز گزرتے تھے۔

ردی کے بوروں میں ٹھونستے مزدور، بے دردی سے ٹائٹل اکھیڑتے، وحشیانہ انداز میں صفحات کو اکٹھے کرنے اور انہیں ردی کے بوروں میں ٹھونسنے کے رلا دینے والے منظر تھے۔ جان جگر سے بھی زیادہ قیمتی کتابیں کہ جنہیں شیشوں میں سجاتے نہ تھکتی تھی اب کیسے اپنی بے قدری اپنی بے حرمتی پر آنسو بہا رہی ہوں گی۔

ایسے قصے تو خیر آئے دن سنتے رہتے تھے کہ لوگ کتابیں ردی میں بیچ آتے ہیں۔ پر وہ تھڑوں پر سج جاتی تھیں۔ کراچی سے ایک دو سال پہلے جناب معراج جامی نے میرا ایک افسانوی مجموعہ ”بیچ بچولن“ کسی کباڑیے سے خریدا اور پھر اپنی آپا کو بھیجا تھا۔ میں نے اسے وصول پا کر بھی لمبی چوڑی آہیں بھری تھیں۔

اور تب اپنے آپ سے کہا تھا۔ چل چھوڑ کلیجہ نہ ساڑ اپنا۔ جب قو میں زوال پر آتی ہیں۔ تو ذہن سے سوچ اور فکر غائب ہوجاتی ہے۔ حرف سے محبت نہیں رہتی۔ لیکن اس پڑھے لکھے ادب سے وابستہ قابل ذکر لکھاریوں شفقت تنویر مرزا اور مظہر اسلام کے خاندان سے انتہائی قریبی تعلق کے با وجود آصف نے کیا کیا؟

کاروبار میں اتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہیں۔ اتنا احسان اور نیکی کرتے کہ ہر مصنف کو بلا کر اس کی کتابیں اور متعلقہ چیزیں انہیں پوری قیمت سے بھی زیادہ پر اٹھوا دیتے دعائیں لیتے۔ یہ ہلاکو خان والے کام تو نہ کرتے۔ اس نے دجلے کے پانیوں کو سیاہ کر دیا تھا اور آصف تم نے بے شمار لکھاریوں کے کلیجوں میں چھرے اور چھریاں گھونپ دی ہیں۔ خود امریکہ بھاگ گئے ہو۔ جو تم جیسوں بھگوڑوں کی جائے پناہ گاہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments