سٹیفن ہاکنگ اور فلکیات کے راز


ترجمہ و تخلیص : نعیم اشرف

سٹیفن ہاکنگ کا شمار اکیسویں صدی کے سب سے زیادہ ذی وقار اور سراہے جانے والے سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ بطور ایک فلکیات داں اور نظریہ ساز طبیعات داں ان کو اکیسویں صدی میں سب سے زیادہ شہرت نصیب ہوئی۔ ان کا یہ نظریہ کہ بلیک ہول شعاعیں خارج کرتے ہیں، ’ہاکنگ ریڈیئیشن‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی میں کئی دہائیوں تک ریاضی کے پروفیسر اور شعبۂ تحقیق کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ وہ موٹر نیوران کی بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے جس نے ان کو اتنا معذور اور ناتواں بنا دیا تھا کہ وہ زندگی کا زیادہ حصہ ایک وہیل چیئر پر گزارنے پر مجبور رہے مگر اس کے باوجود انھوں نے پیشہ وارانہ، سماجی، تخلیقی اور سیاسی طور پر ایک متحرک زندگی بسر کی۔

ہاکنگ کو دنیا کے اہم انعامات سے نوازا گیا۔ وہ اتنے ذہین تھے کہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گلیلیو، نیوٹن اور آئن اسٹائن کی روحیں ان میں حلول کر گئی ہوں۔ کارل سیگن کی طرح انھوں نے سائنس اور فلکیات کو اتنا فروغ دیا کہ وہ علمی دنیا سے نکل کر عملی دنیا میں نظر آنے لگیں۔ ان کی کتب ایک عرصے تک کثیر تعداد میں فروخت ہوتی رہیں۔ انھوں نے دنیا بھر کے سفر کیے اور خصوصی آلات اور چہرے کے تاثرات کو استعمال میں لا کر مختلف مقامات پر لیکچر دیے۔ ہاکنگ تخلیقیت اور ذہانت کے ساتھ ایک دلکش شخصیت اور حس مزاح کے حامل شخص کے طور پر بھی سراہے اور مانے جاتے ہیں۔

ہاکنگ 1942 ء میں برطانیہ کے شہر آکسفورڈ کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فرینک طب کے شعبے سے وابستہ تھے اور والدہ آئیسوبل نے فلسفہ اور سیاست پڑھ رکھی تھی۔ ہاکنگ نے یونیورسٹی کی سطح پر بہت سے علوم کا مطالعہ کیا مگر اعلیٰ تعلیم، نظریاتی طبیعات میں حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1963 ء میں جب ہا کنگ کی عمر صرف 21 سال تھی بد قسمتی سے مندرجہ بالا عارضے میں میں مبتلا ہو گئے۔ جب ان کو بیماری کی تشخیص کا علم ہوا تو وہ شدید دلبرداشتہ ہو گئے کیونکہ ان کو صرف دو سال مزید زندہ رہنے کی مہلت ملی تھی۔

بعد ازاں جب ہاکنگ کو بتایا گیا کہ ان کی حالت سست روی کے ساتھ ابتر ہو گی تو ان کے مزاج پر چھائے ہوئے مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور انھوں نے اپنی زندگی اور تعلیم پر توجہ دوبارہ مرکوز کر دی۔ مگر کچھ برسوں کے بعد رفتہ رفتہ وہ معذور ہوتے چلے گئے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا: ”میں نے نظریاتی طبیعات کا انتخاب اس لیے کیا کہ اب یہی میرے دماغ میں باقی بچی ہے۔“

ہاکنگ کی شادی دو بار ہوئی۔ پہلی دفعہ جینگ کے ساتھ اور دوسری دفعہ ایلین کے ساتھ جو ان کی نرس تھیں۔ اپنی مشہور زمانہ تصانیف: ’بریف ہسٹری آف ٹائم‘ اور ا ’گرینڈ ڈیزائن‘ میں انھوں نے سائنس کی تاریخ بیان کی ہے اور گزشتہ 3000 برس کے سائنسی نظریات اور دریافتوں کے ارتقاء کا نچوڑ پیش کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’یونانی فلاسفروں نے پہلی بار دنیا کو دلیل اور شعور سے آشنا کیا۔ یونانیوں نے سائنس، فلسفے، ریاضی اور علم فلکیات کی بنیاد رکھی۔

ہاکنگ نے اپنی کتابوں میں قدیم یونانی فلاسفروں سے لے کر آج کے یورپ اور شمالی امریکہ کے جدید نامور اور اہم سائنسدانوں کی خدمات کا احاطہ مختصر مگر جامع انداز میں اس طرح کیا ہے :

” طالیس وہ پہلا یونانی فلاسفر تھا جس نے سب سے پہلے یہ انکشاف کیا کہ کائنات کسی الوہیاتی کرتب کی بجائے قوانین فطرت کے تحت کام کر رہی ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ قوانین فطرت کو ہم قدرت کے مظاہر کے حوالے سے مزید تحقیق کے بعد سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ طالیس ہی وہ پہلا سائنسداں تھا جس نے 585 قبل مسیح کے سورج گرہن کو بیان کیا۔ اور اہرام مصر کی اونچائی ان کے سایوں کی مدد سے معلوم کی۔ ان کو مغرب کا پہلا سائنسداں مانا جاتا ہے۔

طالیس کا تعلق فلکیات دانوں، ریاضی دانوں، سائنسدانوں اور دانشوروں کے اس گروہ سے تھا جو اس زمانے میں آئیونہ میں اکٹھے ہوئے تھے۔ ان سب کو آئیونین کہا جاتا ہے۔ ایک اور یونانی مفکر ارا طاستینیز نے سائے کی لمبائی والا طریقہ استعمال کر کے زمین کا قطر معلوم کر لیا تھا۔ آیونینز کے گروہ کا ایک درخشندہ ستارہ فیثا غورث ہے۔ جو 500 سے 495 قبل مسیح کے درمیان زندہ رہا۔ فیثا غورث ایک ریاضی داں اور دانشور تھا مگر سب سے پہلا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو فلاسفر کہا۔ اس ریاضی داں نے علم مثلثیات میں“ قائمہ زاویہ مثلث ”کا نظریہ پیش کیا جو آج بھی“ فیثا غورث تھیورم ”کے نام سے ریاضی کے بنیادی نصاب میں شامل ہے۔

384 سے 322 قبل مسیح کے یونانی فلاسفر، ارسطو کو اجرام فلکی میں بہت دلچسپی تھی۔ اس نے نظریہ پیش کیا کہ زمین گول، ساکن اور کائنات کا مرکز ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ سورج، چاند اور دیگر اجرام فلکی زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کے نظریے کو کلا ڈیئس بطولیمی ( 100 سے 170 بعد مسیح) نے تفصیلی حساب و شمار کے ساتھ تسلیم کیا۔ وہ اتنا با اثر تھا کی کیتھولک چرچ نے بھی اس کے نظریے کو درست مان لیا۔ اور یہ نظریہ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی مقبول اور درست مانا جاتا رہا جب تک کوپرنیکوس ( 1473 ء۔1543 ء) نے اس پر سوال نہیں اٹھا دیا۔ اس نے ارسطو اور بطولیمی کے نظریے پر دوبارہ غور کرنے کی صلاح دی۔ کوپرنیکوس نے کائنات کا ”سورج مرکزی“ نظریہ پیش کر دیا جس کے تحت سورج کائنات کے مرکز میں کھڑا ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔ البتہ کوپرنیکوس کو کیتھولک چرچ کی جانب سے فتویٰ اور سخت سزا کا خوف دامن گیر تھا اس لیے اس نے اپنے نظریے کو عام نہیں کہا۔ بعد ازاں کوپرنیکوس کے نظریے کو گلیلیو گلیلی ( 1564 ء۔1642 ء) نامی فلکیات داں نے عام دنیا کے سامنے ثبوت کے ساتھ زندہ کر دیا۔ اس نے اپنی دور بین کی مدد سے یہ ثابت کر دیا کہ بطولیمی کا نظریہ غلط تھا جب کہ کوپرنیکوس کا نظریہ درست تھا۔ اس پر کیتھولک چرچ غصے سے سیخ پا ہو گیا اور گلیلیو پر من گھڑت مفلوظات کا الزام لگا کر مقدمہ چلایا اور اپنے ہی گھر میں تا حیات نظر بند کر دیا۔ گلیلیو کی دور بین بہت سادہ تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی دور بین بڑی اور طویل ہوتی گئی۔

1929 ء میں ( 1953 ء۔ 1889 ء) ایڈون ہبل نے 200 انچ کی عظیم الجثہ دور بین استعمال کر کے علم فلکیات میں اہم اضافہ کیا۔ کیلیفورنیا میں ماؤنٹ پالومارکی معائنہ گاہ میں نصب اس طاقتور دور بین سے ہبل نے آسمان پر موجود کہکشاؤں کا نظارہ کیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ کچھ اجرام فلکی جن کو ہم اس سے قبل نیبولائی کہتے تھے دراصل ہماری کہکشاں، ”ملکی وے“ سے آگے کی کہکشائیں ہیں۔ اس نے نہ صرف مزید کہکشاؤں کی موجودگی کی خبر دی بلکہ یہ بھی دریافت کیا کہ وہ کہکشائیں ہماری کہکشاں ’ملکی وے‘ سے تیزی سے دور ہو رہی ہیں۔

اور یہ کہ ان کی رفتار جس قدر زیادہ ہے وہ اسی قدر ہم سے دور ہیں۔ ہبل نے سب سے پہلے پھیلتی کائنات کا نظریہ پیش کیا۔ ہبل کی دریافت سے قبل کئی سائنسداں جن میں البرٹ آئن اسٹائن بھی شامل تھے، ایک جامد کائنات پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن پھیلتی کائنات کے مشاہدات اور گزرتے وقت کی شماریات کی مدد سے سائنسدانوں نے ثابت کیا کہ وقت کا سلسلہ 13.7 ارب سال قبل ایک عظیم دھماکے یا بھ بینگ سے جا کر ملتا ہے۔ بگ بینک نظریہ یہ بتاتا ہے کہ آج ہم جس کائنات میں زندہ ہیں اس کا آغاز نہایت کثیر درجہ حرارت اور کثافت سے ہوا تھا۔

جوں جوں یہ کثیر کثافت مادہ پھیلتا گیا، ٹھنڈا بھی ہوتا گیا۔ اور ستارے کہکشائیں اور سیارے بناتا گیا جس میں ایک سیارہ ہماری زمین ہے جو 4.5 ارب قبل وجود میں آئی۔ ہبل نامی خلائی دوربین کا نام اسی فلکیات داں، ہبل کی یاد میں رکھا گیا ہے۔ ہاکنگ کی پیش کردہ فلکیاتی نظریات سے قبل دو اہم سائنسدانوں کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے کائنات کی ہیئت پر اپنے اپنے نظریے پیش کیے تھے۔ پہلے سائنسدان کا نام آئزک نیوٹن ( 1642 ء۔1726 ء) تھا جس نے کشش ثقل اور حرکت کے قوانین پیش کیے۔ اس نے ایسے قوانین فطرت معلوم کیے جن کے تحت زمین اور دیگر سیارے حرکت کر رہے ہیں۔ اس نے حرکت کے عالمگیر قوانین دریافت کیے۔ نیوٹن کا قانون ثقل یہ بیان کرتا ہے کہ ’کائنات میں موجود ہر جسم دوسرے جسم کو ایک خاص کشش سے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ کشش کی یہ قوت ان اجسام کی کمیتوں کے حاصل ضرب کو ان کے درمیان فاصلے کے مربعے سے تقسیم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ ‘ دوسرا سائنسداں البرٹ آئن اسٹائن ( 1953 ء۔1879 ء) تھا جس نے نیوٹن کے نظریات کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ وسعت بھی دی۔ اس نے دریافت کیا کہ روشنی ذرات اور لہروں دونوں اشکال میں سفر کرتی ہے۔ اس نے یہ بھی معلوم کیا کہ زمان و مکاں میں وقت زماں کی تین سمتوں سے جدا نہیں ہو سکتا اور یہ کہ وقت گزرنے کی رفتار کا تعلق مشاہدہ کرنے والے کی اپنی رفتار سے ہوتا ہے۔

آئن اسٹائن کی اسپیشل تھیوری آف ریلے ٹیویٹی کا نچوڑ یہ ہے کہ:
( 1 ) خلا میں روشنی کی رفتار یکساں ( غیر متغیر) رہتی ہے۔
( 2 ) کسی بھی مخصوص نظام میں طبیعات کے قوانین یکساں رہتے ہیں خواہ وہ نظام حرکت میں ہی کیوں نہ ہو۔

آئن اسٹائن نے اپنی اسپیشل تھیوری 1905 ء میں پیش کی تھی۔ اور 1916 ء میں اس نے اپنی جنرل تھیوری آف ریلے ٹیوٹی کو حتمی شکل دے دی۔ جس میں اس نے اپنی مشہور زمانہ مساوات E=mc 2 یش کی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”توانائی اور کمیت (مادے کی مقدار) نہ صرف آپس میں مساوی ہیں بلکہ آپس میں قابل تبادلہ بھی ہیں۔“

ہاکنگ نے اس نظریے سے انکار کر دیا کہ عالم کائنات کو خدا نے بنایا ہے۔ بطور سائنسداں اس کا یقین کامل ہے کہ کائنات کا نظام قوانین فطرت سے چل رہا ہے۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ: ”سائنسی وجوہات اور تخمینے کائنات کے نظام کی وضاحت کرتے ہیں اور یہاں معجزات وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور نہ ہی خدا یا کسی غیر مرئی مخلوق کا کائنات چلانے میں کوئی کردار ہے۔ البتہ یہ سوال مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا خالق کون ہے؟ اگر اس سوال کا جواب خدا ہے تو اگلا سوال یہ ہو گا کہ خدا کو کس نے تخلیق کیا ہو گا؟ اس تناظر میں یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ ایسا امکان موجود ہے کہ کوئی ایسی ہستی موجود ہو جس کو کسی خالق کی ضرورت نہ ہو اسی کو خدا کا نام دیا جا سکتا ہے۔“

فطرت کی چار قوتوں کو سمجھنے کے لیے سائنسدانوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ ان قوتوں کے نام یہ ہیں :

1۔ کشش ثقل
2۔ برقی مقناطیسیت
3۔ کمزور نیوکلیائی طاقت
4۔ طاقتور ایٹمی طاقت

گزشتہ چند صدیوں میں سائنسدانوں نے مختلف سائنسی نظریات کو یکجا کر کے کائنات کا ایک مکمل اور حتمی نظریہ تشکیل دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ ہاکنگ نے لکھا: ”انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں میکس ویل اور آئن اسٹائن نے بجلی (برقی) ، مقناطیسیت اور روشنی کو یکجا کیا۔ جبکہ 1970 ء میں ایک باقاعدہ ماڈل تیار ہوا جس میں کمزور یا عام نیوکلیائی طاقت اور برقی مقناطیسی طاقت یکجا تھے۔ بعد ازاں، سٹرنگ تھیوری اور ایم تھیوری کا ظہور ہوا جس میں باقی رہ جانے والی فطرت کی قوت یعنی کشش ثقل بھی شامل ہو گئی۔

ایم تھیوری قوت ثقل پر سب سے زیادہ موزوں، مستقل اور یکساں نظریہ ہے۔ اسی وجہ سے ایم تھیوری اب تک کائنات کے نظریے کی تکمیل کے لیے واحد“ امیدوار ”ہے۔ اگر کائنات کی کوئی حد ہے تو۔ مگر یہ ثابت کرنا بھی ابھی باقی ہے۔ اور یہ کائنات کا ایسا نظریہ ہو گا جس میں وہ اپنے آپ کو خود پیدا کرتی ہے۔ ہم ضرور اس کائنات کا حصہ ہیں کیونکہ کوئی اور ماڈل سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر مشاہدے سے یہ تھیوری ثابت ہو گئی تو یہ گزشتہ 3000 سال سے جاری تحقیق کا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمیں“ عظیم منصوبہ ”تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔“

زندگی اور کائنات پر گہری غور و فکر کرنے کے بعد ہاکنگ اس نتیجے پر پہنچا کہ ”عظیم منصوبے“ کے مطابق ایک سے زائد کائناتوں کا وجود ممکن ہے۔ اور متعدد کائناتیں ) اپنے آپ کو پیدا کر سکتی ہیں، تباہ کر سکتی ہیں اور دوبارہ پیدا کر سکتی ہیں۔ کارل سیگن، ہاکنگ کی مشہور تصنیف :اے بریف ہسٹری آف ٹائم کے تعارف میں یوں رقم طراز ہے :

”ہاکنگ، جیسا کہ اس کی تحریروں سے ظاہر ہے، خدا کے ذہن کو پڑھنے کو کوشش کر رہا ہے جس کا نتیجہ بہت غیر متوقع برآمد ہوا ہے، کم از کم لمحہ موجود تک ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کائنات کا کوئی سرا نہیں، کوئی آغاز نہیں، کوئی اختتام نہیں اور اس میں خدا کے کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔“

اپنی سائنسی خدمات کے ساتھ ساتھ سٹیفن ہاکنگ سیاست میں خوب جان کاری رکھتا تھا۔ اور اپنی آراء کو بہت موثر انداز میں بیان کرتا تھا۔ اس نے ویتنام اور عراق کی جنگوں کی مخالفت کی اور سٹیم سیل پر تحقیق کی حمایت کی۔ ہاکنگ نے بطور سیاسی مدبر کے عالمگیر نظام صحت اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کی بھی ہمیشہ حمایت کی۔ اس نے اپاہج افراد اور صحیح سلامت جسم کے ساتھ معذور اذہان رکھنے والے انسانوں کی مخصوص ضروریات کو پورا کر نے کے لیے ہمیشہ مثالی کردار ادا کیا۔

اور ایسے انسانوں کے حقوق کے لیے جہد مسلسل کی جن کو مختلف عارضے لاحق ہیں۔ شدید معذوری، مبہم و مدھم آواز رکھنے کے باوجود لوگ اس کی بات، صدور، وزرائے اعظم اور بادشاہوں کی تقریروں کے مقابلے میں زیادہ غور سے سنتے تھے۔ ہاکنگ کا شمار ایسے دانش وروں میں ہوتا ہے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہاکنگ کی پہلی بیوی ”جینگ“ نے اس کی سوانح حیات تحریر کی۔ اس کتاب کا نام ” اسٹیفن کے ساتھ میری زندگی“ ہے۔ 2014 ء میں اس کتاب پر ایک فلم بھی بنی ہے جس کا نام تھیوری آف ایوری تھینگ ہے۔ ہاکنگ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ سائنسدانوں اور عام انسانوں کے دل و دماغ پر یکساں حکومت کرتا تھا۔ عالم کائنات و فلکیات کے رازہائے سر بستہ سے پردہ اٹھانے اور سائنسی علوم کے فروغ کے حوالے سے سٹیفن ہاکنگ کی خدمات کو آنے والی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔

(بحوالہ :
تخلیقی اقلیت : مصنف ڈاکٹر خالد سہیل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments