پروفیسر سلامت اختر: رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے


ستمبر 2020 ء کی بات ہے۔ کرونا کی وبا ان دنوں زوروں پر تھی۔ کام کاج بند ہونے کی وجہ سے ہمیں بھی فراغت تھی۔ ایسے میں اپنے کالج کے ہسٹری کے سابقہ استاد پروفیسر سلامت اختر صاحب کو فیس بک پر ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ جس کا نتیجہ مثبت نکلا، پروفیسر صاحب کا فیس بک پیج تو بنا ہوا تھا مگر وہ کافی عرصے سے فعال نہیں تھا۔ اسی تلاش میں پروفیسر صاحب کے ڈنمارک میں مقیم صاحبزادے نواز سلامت سے رابطہ ہو گیا۔ جن سے میسنجر پر پروفیسر صاحب کی خیریت دریافت کرنے کے لیے میسج کیا۔ جس کا جواب دو تین روز بعد ہی آ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد صاحب خیریت سے ہیں۔ تاہم سٹروک کی وجہ سے بیمار رہنے کے باعث گھر تک ہی محدود ہیں۔ اور بیماری کی وجہ سے ان کی بات کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔

گزشتہ سال میرا امریکہ سے پاکستان جانا ہوا تو خواہش کے باوجود پروفیسر صاحب سے ملاقات اور ان کی تیمارداری کے لیے دیگر مصروفیات کے باعث حاضر نہ ہو سکا۔ جس کا بعد میں ازحد افسوس رہا۔ کچھ عرصہ پہلے نواز سلامت کی طرف سے ایک پیغام ملا کہ وہ اپنے والد کی تعلیمی، سیاسی اور سماجی خدمات پر ایک ڈاکومنٹری بنانا چاہتے ہیں، آپ ان کے متعلق اپنے خیالات ویڈیو کی صورت بنا کر انہیں بھجوا دیں۔ جو میں نے انہیں فراہم کر دیے۔

پھر میں گاہے بگاہے نواز صاحب سے ڈاکومنٹری کے متعلق دریافت کرتا رہا۔ وہ جواب میں یہی کہتے کہ اور لوگوں سے بھی پروفیسر صاحب کے متعلق تاثرات کے لیے کہہ رکھا ہے۔ جونہی یہ سب ملتے ہیں، وہ کسی پروفیشنل سے یہ ڈاکومنٹری بنوائیں گے۔ شاید وہ ڈنمارک میں اپنی مصروفیات یا دیگر وجوہات کی بنا پر ڈاکومنٹری کے اس پراجیکٹ کو مکمل نہ کر سکے۔ اب انہیں ضرور اپنے والد اور ہزاروں شاگردوں کے محبوب استاد پروفیسر سلامت اختر صاحب کی یاد میں اس ڈاکومنٹری کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔

رواں ہفتے نواز سلامت کے فیس بک پر ایک پوسٹ سے ہی پتہ چلا کہ پروفیسر سلامت اختر صاحب 2 نومبر 2022 ء کو راولپنڈی میں اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے ہیں۔ ان کی عمر 82 برس تھی۔ یہ جان کر دل دکھ سے بھر گیا۔ اور ان کے ساتھ بیتے وقت کی کتنی ہی شیریں یادیں ایک فلم کی طرح دماغ میں چلنے لگیں۔ پروفیسر سلامت اختر بلاشبہ ایک شفیق، ہردلعزیز استاد، انسان دوست شخصیت اور انسانی حقوق کے علمبردار تھے۔ گزشتہ سال اپنے انگریزی کے استاد پروفیسر وسیم بیگ مرزا کے انتقال کے بعد پروفیسر سلامت اختر کی رحلت بھی دکھ کا باعث ہے۔ کیا، کیا جا سکتا ہے قدرت کا مگر اپنا نظام ہے۔ وقت کبھی رکتا نہیں، کیسے کیسے لوگ خاک اندر چلے گئے۔

وہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی جانے کہاں کہاں

گورنمنٹ سر سید ڈگری کالج گجرات میں وہ ہمارے ان چند اساتذہ میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی متاثر کن شخصیت سے مجھ سمیت اپنے ہزاروں شاگردوں کو متاثر کیا۔ وہ ایک بلند پایہ استاد کے علاوہ ایک شعلہ بیان، موٹیویشنل مقرر، ایک منٹور، ایک منفرد لہجے اور خوشگوار انداز سے پڑھانے والے تاریخ اور انگریزی کے استاد تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم 1982 ء میں گورنمنٹ سر سید ڈگری کالج گجرات میں داخل ہوئے تو ہسٹری کا مضمون پڑھانے کی ذمہ داری ان کی ٹھہری۔ کیونکہ کالج میں تاریخ کا مضمون پڑھانے والے وہ واحد استاد تھے۔ انہوں نے دل موہ لینے والے اپنے مخصوص انداز سے ابتدائی دنوں میں ہی ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔

وہ دو سال ہمیں اپنا مضمون کے علاوہ دیگر باتوں میں ایک بات ہمیشہ بڑی صراحت اور اصرار سے کہا کرتے تھے کہ زندگی میں ایف اے / ایف ایس سی کا امتحان پاس کرنا سب سے مشکل اور کٹھن کام ہوتا ہے۔ اس لیے اس امتحان کو سیریس لے کر اس کی تیاری کریں، اگر آپ یہ امتحان پاس کر گئے تو باقی امتحان آپ کے لیے پاس کرنے آسان ہوں گے۔

وہ اکثر یہ بھی کہا کرتے کہ ہمارے ملک میں طالب علموں کی ایک کثیر تعداد انٹرمیڈیٹ کے امتحان خصوصاً انگریزی کے مضمون میں فیل ہو کر پڑھائی سے بددل ہو جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انگریزی میں پاس نہ ہو سکنے کے باعث پڑھائی سے ہی باغی ہو جاتے ہیں۔ اس لیے انٹرمیڈیٹ کے امتحان کو انتہائی سیریس لینا چاہیے، کیونکہ اعلیٰ تعلیم تک پہنچنے کے لیے یہ امتحان پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔

مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ ہسٹری کا مضمون پڑھاتے ہوئے جب وہ اسلامک ہسٹری کے باب پڑھا رہے ہوتے تو دوران لیکچر ان کی شعلہ بیانی، جوش اور ولولہ دیکھنے والا ہوتا تھا۔ تاریخ کے مضمون کے علاوہ انہوں نے چونکہ انگریزی کے مضمون میں بھی ایم اے کر رکھا تھا۔ اس لیے کالج ٹائم کے بعد وہ پرائیویٹ طور پر انگریزی کی کوچنگ بھی کرتے تھے۔ بی اے میں انگریزی کے مضمون کی ٹیوشن پڑھنے والے طلباء آج بھی انہیں بڑے اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ سال ہا سال وہ پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے تاریخ اور انگریزی کے پیپر چیکر اور ایگزامینر بھی رہے۔

پروفیسر سلامت اختر نے کئی انگریزی شعراء کی نظموں کا پنجابی میں شعروں کی صورت میں ترجمہ بھی کر رکھا تھا۔ شاعر فطرت ولیم ورڈز ورتھ کی نظم The Solitary Reaper کا انہوں نے بڑا عمدہ پنجابی میں ترجمہ کیا تھا۔ جس کو بعض اوقات وہ دوران لکچر لہک لہک کر پڑھا کرتے تھے۔ جس کا آغاز کچھ یوں ہوتا تھا۔

”داتری تے چھک کے
او فصل پئی کٹے
میں جلوہ ادھا ویکھ
چئل نہ سکیا ”۔

میری بڑی خواہش رہی کہ ان کی ترجمہ کی ہوئی یہ پوری نظم مجھے مل سکے۔ اس کے حصول کے لیے ڈنمارک میں ان کے صاحبزادے نواز سلامت سے بھی متعدد بار درخواست کی کہ وہ اس کی فراہمی میں مدد کریں، مگر تاحال اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔

پروفیسر سلامت اختر نے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد مسیحی برادری کے حقوق کے لیے ایک سیاسی جماعت ”آل پاکستان کرسچن لیگ“ بھی بنائی۔ اور اس کے پلیٹ فارم سے اپنے آپ کو کافی فعال اور متحرک رکھا۔ انہوں نے شاعری بھی کی۔ ان کا ایک شعر جو انہوں نے ضیاء الحق کے دور میں لکھا تھا، وہ بڑا مقبول ہوا تھا۔

جو خوبی تھی وہ خامی ہو گئی ہے
بڑی سستی غلامی ہو گئی ہے
چمن والو، خدا حافظ چمن کا
یہاں ہر شے اسلامی ہو گئی ہے

پروفیسر سلامت اختر نے مختلف اخبارات اور جرائد میں مضامین کے علاوہ کئی کتب بھی تصنیف کیں۔ جن میں 1997 ء میں پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر تحریک پاکستان کے حوالے سے ان کی ایک کتاب ”تحریک پاکستان کے گمنام کردار“ کو بڑا سراہا گیا۔ جسے کرسچن سٹڈی سنٹر راولپنڈی نے شائع کیا تھا۔

پروفیسر سلامت اختر کے دوست ساجد سراج ساجد کے ان کی یاد میں لکھے گئے مضمون بعنوان ”مسیحی قوم کا فخر پروفیسر سلامت اختر“ میں لکھا کہ ان کی دو اور کتابیں ”لہو کی مشعلیں، تحریک پاکستان کا ایک سیاہ باب“ اور پاکستان کے وفادار مسیحی ”زیر طبع ہیں۔

پروفیسر سلامت اختر نے گورنمنٹ سر سید ڈگری کالج گجرات کے علاوہ گارڈن کالج راولپنڈی، گورنمنٹ کالج جھنگ، ایف سی کالج لاہور، اور گورنمنٹ ڈگری کالج کہوٹہ، راولپنڈی میں بھی تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے ابتداء میں کچھ عرصہ رنگ محل کرسچن ہائی سکول لاہور میں بھی پڑھایا۔

انکے بیٹے نواز سلامت کے مطابق پاکستان کے معروف انقلابی شاعر حبیب جالب نے ایک تقریب میں ان کے والد پروفیسر سلامت اختر کے متعلق خصوصی طور پر یہ شعر کہا تھا۔

عدو کے لیے تو قیامت رہے گا
سلامت ہمارا سلامت رہے گا

پروفیسر سلامت اختر، 8 دسمبر 1940 ء کو دھمتھل ضلع سیالکوٹ میں فوجی پس منظر رکھنے والے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا، جبکہ ان کے والد دوسری جنگ عظیم کے پنشن یافتہ تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مڈل سکول دھمتھل سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان سی ٹی آئی ہائی سکول سیالکوٹ سے پاس کیا۔ جبکہ بی اے کا امتحان امتیازی حیثیت سے گارڈن کالج راولپنڈی سے پاس کیا۔ بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے انگریزی اور ایم اے ہسٹری کے امتحانات پاس کیے۔

پروفیسر سلامت اختر نے بعد ازاں ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں 48 سال تک تدریسی و تعلیمی خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان کے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ ان کی کردار سازی کا فریضہ بھی سرانجام دیتے رہے۔

پروفیسر سلامت اختر نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ انہوں نے اپنی بیماری کا مقابلہ بھی بڑی جوانمردی کے ساتھ کیا۔ وہ طویل عرصہ بیمار رہنے کے بعد 2 نومبر 2022 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ایک وضعدار اور انسان دوست استاد ہم سے رخصت ہوا۔

ان کی یاد میں یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے لتا منگیشکر کے فلم ”ممتا“ کے لیے گائے ہوئے اس گانے کے یہ بول بے اختیار یاد آئے۔

جب ہم نہ ہوں گے جب ہماری خاک پہ تم رکو گے چلتے چلتے
اشکوں سے بھیگی چاندنی میں اک صدا سی سنو گے چلتے چلتے
وہیں پہ کہیں ہم، تم سے ملیں گے، بن کے کلی بن کے صبا، باغ وفا میں
رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے، بن کے کلی بن کے صبا، باغ وفا میں
گڈ بائے پروفیسر صاحب!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments