خضر کی بیٹی


خضر ایک آزاد منش انسان تھا۔
وہ اپنی کٹیا میں اکیلا رہتا تھا۔
اس کی تنہائی اس کی پرانی سہیلی تھی جس سے وہ اکثر سرگوشیاں اور راز و نیاز کی باتیں کرتا تھا۔
اس کا محبوب مشغلہ کتابیں پڑھنا اور کتابیں لکھنا تھا۔
اسے کتابوں سے محبت تھی ’پیار تھا‘ عشق تھا۔
خضر کے گھر میں چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔
کرسیوں پر کتابیں ’
میزوں پر کتابیں ’
فرش پر کتابیں ’
حتیٰ کہ اس کے بستر بھی کتابیں تھیں۔

خضر کہتا تھا یہ میری پرانی سہیلیاں ہیں اور ان کو لکھنے والے میرے محبوب دوست میں جب چاہوں ان سے ہمکلام ہو سکتا ہوں۔

وہ مختلف شہروں اور ملکوں سے مختلف ادوار کی کتابیں منگواتا تھا انہیں پڑھتا اور ان کے بارے میں اپنے تاثرات رقم کرتا تھا۔

اس کی شاعری ’اس کے افسانوں اور اس کے مقالوں کے بہت سے شہروں میں بہت سے مداح تھے۔
خضر جہاں ایک رائٹر تھا وہاں ایک مقبول ڈاکٹر بھی تھا۔
اس کے مریضوں کی تعداد بھی اس کے مداحوں سے کم نہ تھی۔

خضر کی شہر میں بہت سی سہیلیاں تھیں اور بہت سے دوست جو ہر شام اسے اپنے گھر کھانے پر بلاتے اور دیر تک تبادلہ خیال کرتے رہتے۔

خضر اپنی کٹیا میں ہوتے بھی نہ ہوتا اور نہ ہوتے ہوئے بھی ہوتا۔
اس کا اپنی کٹیا سے ایسا رشتہ تھا جیسے
جہاں ہونا نہ ہونا ہو
نہ ہونا عین ہونا ہو

خضر کے دوست ہی اس کا خاندان تھے۔ خضر کا اپنے شہر میں کوئی رشتہ دار نہ تھا سوائے ایک بھانجی کے جس کا نام سنبل تھا جو بھانجی کم اور دوست زیادہ تھی۔

سنبل ہر اتوار کو اپنے خضر ماموں سے ملنے آتی۔

خضر ماموں اپنی بھانجی کے لیے اپنے ہاتھ سے اس کی پسند کے کھانے پکاتے۔ کبھی گوبھی گوشت۔ کبھی چکن کڑاہی اور کبھی حلیم۔

سنبل بھی جانتی تھی کہ میٹھا اس کے ماموں کی کمزوری ہے اس لیے وہ بھی اتوار کو ان کے لیے کوئی خاص میٹھا لے کر آتی۔ کبھی گجریلا۔ کبھی حلوہ۔ اور کبھی جلیبیاں

خضر اور سنبل ڈنر کھانے کے بعد کافی دیر تک سبز چائے پیتے میٹھا کھاتے اور پھر میٹھی میٹھی باتیں کرتے۔

خضر کو ساری دنیا سے دعوت نامے آتے کہ وہ ان کے سیمیناروں اور کانفرنسوں میں آ کر اپنے نظریات کا اظہار کرے۔

ایک اتوار سنبل نے خضر ماموں سے پوچھا
’ آپ نے پیرس کی کانفرنس میں کس موضوع پر تقریر کی؟‘
’ میں نے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کی آزادی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا؟‘
’ اپنی تقریر کا لب لباب مجھے بھی بتائیں‘

’ میں نے حاضرین‘ سامعین اور ناظرین کو بتایا کہ کسی بھی فنکار کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تخلیقی آزادی کا بھرپور اظہار کرے۔

اور تخلیقی آزادی creative freedomکے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ادیب اور شاعر ’فنکار اور دانشور
تین طرح کی آزادی حاصل کرے
پہلی آزادی معاشی آزادی financial freedom ہے
دوسری آزادی جذباتی آزادی emotional freedom ہے اور
تیسری آزادی سماجی آزادی social freedomہے
یہ تین آزادیاں حاصل کیے بغیر ایک فنکار پوری طرح آزاد نہیں ہو سکتا۔
سنبل اپنے ماموں کی باتیں بڑے غور سے سنتی اور ذہین سوال کرتی۔
خضر ماموں! اور آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟
میں نے اپنا ہوم ورک کیا ہے۔
میں جب سے ڈاکٹر بنا ہوں میں معاشی طور ر خود کفیل ہو گیا ہوں یہ میری معاشی آزادی ہے

میں نے مذہب اور خدا کو بھی خدا حافظ کہہ دیا ہے اب میں احساس گناہ سے آزاد ہو گیا ہوں یہ میری جذباتی آزادی ہے

اور میں نے اپنے غیر روایتی دوستوں کا ایک حلقہ بنا لیا ہے جو میری ادبی و تخلیقی کاوشوں کا احترام اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ میری سماجی آزادی ہے۔

ان تین آزادیوں نے میری تخلیقی آزادی کی راہ ہموار کی ہے۔
ایک شام سبز چائے پیتے اور حلوہ کھاتے ہوئے سنبل نے خضر ماموں سے پوچھا۔
آپ کا شادی اور مذہب کے بارے میں کیا خیال ہے؟

خضر نے قہقہہ لگایا ’اپنا مخصوص زور دار قہقہہ‘ ایسا قہقہہ جو سنبل بھی لگاتی تھی اور جو سہیلیاں اور دوست ان دونوں کو جانتے تھے وہ کہتے تھے کہ سنبل کے چہرے سے زیادہ اس کے قہقہے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خضر کی بھانجی ہے۔ دونوں میں حس ظرافت بدرجہ اتم موجود تھی۔

سنبل! تم مذہب اور شادی کے بارے میں میرے خیالات جاننا چاہتی ہو تو عرض ہے کہ انسان ابھی تک یہ سچائی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ محبت اور روحانیت آزاد پرندے ہیں۔ بہت سے نادان لوگوں نے محبت کے پرندے کو شادی کے پنجرے میں اور روحانیت کے پرندے کو مذہب کے پنجرے میں بند کرنے کی کوشش کی۔ وہ پرندے پہلے ان پنجروں میں پھڑپھڑاتے ہیں اور پھر اداس ہو جاتے ہیں۔ کچھ تو مر بھی جاتے ہیں اور پھر نجانے کتنے لوگ اپنی شادی اور اپنے مذہب کی لاش ساری عمر اٹھائے اٹھائے پھرتے رہتے ہیں۔

خضر ماموں آپ نے زندگی میں بہت سے عشق کیے لیکن کبھی بچے پیدا نہیں کیے اس کی کیا وجہ ہے؟
خضر مسکرایا اور بڑی شفقت سے بولا

میرے انقلابی شاعر کہا کرتے تھے کہ جب سے میرے بچے پیدا ہوئے ہیں میں بزدل ہو گیا ہوں۔ اب میں پورا سچ نہیں کہہ سکتا ’نہیں لکھ سکتا۔ ڈرتا ہوں کہیں میرے سچ کی بھاری قیمت میرے بچوں کو نہ ادا کرنی پڑے۔

خضر کو اپنی بھانجی پر بہت فخر تھا۔ وہ نوجوانی میں ہی ایک ماہر اقتصادیات بن گئی تھی اور بہت سے ادارے اس سے مشورے مانگتے تھے۔ سنبل کا خیال تھا کہ ساری دنیا کی سیاست اقتصادیات کی سیاست ہے۔ ساری دنیا میں اتنے ذخائر موجود ہیں کہ سب انسانوں کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں تا کہ کوئی بچہ رات کو بھوکا نہ سوئے اور دن کو تعلیم سے محروم نہ رہے لیکن دنیا میں حرص اتنی بڑھ گئی ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

اس شام خضر کی سترویں سالگرہ 70 th birthdayتھی اس نے سنبل کے لیے خاص طور پر قیمے والے پراٹھے بنائے تھے اور سنبل نے خضر ماموں کی پسندیدہ مٹھائی خریدی تھی جس میں چم چم اور پیٹھا شامل تھے۔

سنبل نے پانچ بجے پہنچنا تھا۔
پانچ بج گئے
پھر چھ بج گئے
پھر سات بج گئے۔
خضر نے کئی بار فون کیا لیکن جواب ندارد۔

آخر خضر کو ہسپتال سے فون آیا کہ اس کی بھانجی سنبل ایمرجنسی میں ہے کیونکہ اس کی کار کا حادثہ ہو گیا تھا۔

خضر بھاگا بھاگا ہسپتال پہنچا۔
سنبل بستر پر بے ہوش پڑی تھی۔ وہ اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی تھی۔
خضر ساری رات سنبل کے سرہانے بیٹھا رہا۔

خضر سنبل کے چہرے کی طرف دیکھتا تو وہ اسے چونتیس برس کی عورت کی بجائے چار برس کی بچی دکھائی دیتی۔ وہ اٹھ اٹھ کر اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتا اور انتظار کرتا کہ وہ کب آنکھیں کھولے گی۔

سنبل کی سہیلیوں کو پتہ چلا تو وہ اس کا حال پوچھنے آئیں۔
سنبل کے رشتہ داروں کو خبر ملی تو انہوں نے خضر کو ان گنت پیغام بھیجنے شروع کیے۔

ان پیغامات کی اکثریت مذہبی لوگوں کی تھی جو سنبل کی صحتیابی کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔ سنبل کی ماں نے تو قربانی کے لیے دو کالے بکرے خرید کر داتا دربار بھی بھجوا دیے تھے اور ایک سہیلی کو مسجد نبوی میں دعا کرنے کے لیے بھی کہہ دیا تھا۔

خضر مذہبی انسان نہیں تھا۔ وہ ایک انسان دوست تھا لیکن وہ سنبل کی سہیلیوں اور رشتہ داروں کے مخلص جذبات کا احترام کرتا تھا اسے اندازہ تھا کہ وہ ان مذہبی لوگوں کے جذبات اور احساسات کا پر خلوص اظہار تھا۔

سنبل پر دوسرا دن بھی سخت گزرا۔ وہ ساری رات کراہتی رہی اور خضر اسے بڑے صبر و تحمل سے دیکھتا رہا۔

خضر نے جب سنبل کے ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس کے زندہ رہنے کے کتنے امکانات ہیں تو اس نے بڑے حقیقت پسندانہ انداز سے کہا۔ بیس فیصد

خضر کی روایتی بہن اس کی آزاد روی دیکھ کر مزاحیہ انداز میں کہا کرتی تھی۔ بھائی جان آپ بہت حقیقت پسند انسان ہیں کبھی کبھی تو آپ سنگدل بھی بن جاتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی سنبل بھی آپ کی طرح سنگدل بن جائے۔

سنبل کو اس حالت میں دیکھ کر خضر کے اندر کچھ بدلنے لگا اسے یوں محسوس ہوا جیسے ان دو راتوں میں خضر دھیرے دھیرے سنگدل سے موم دل بن رہا ہو۔

خضر کے دوست جانتے تھے کہ اسے اپنی بھانجی اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اور وہ سنبل کے دکھ کو دیکھ کر دکھی ہو گیا ہے ۔ خضر سے کئی دوستوں اور عزیزوں نے جب بڑے خلوص سے پوچھا کہ

کیا آپ نے سنبل کے لیے خدا سے دعا کی ہے؟

تو وہ مسکرا دیا۔ خضر خدا سے زیادہ ناخدا پر بھروسا رکھتا تھا۔ وہ دعا سے زیادہ دوا پر یقین رکھتا تھا۔ خضر جانتا تھا کہ وہ خوش قسمت ہے کہ اسے بہترین ملک کے بہترین ہسپتال کے بہترین ڈاکٹروں کی خدمات حاصل ہیں ان ماہرین پر ایمان ایمان بالغیب نہیں تھا۔ وہ کرامتوں اور معجزوں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ خود بھی ڈاکٹر تھا اور ڈاکٹروں اور نرسوں کو مسیحا سمجھتا تھا۔

تین دن کی بیہوشی کے بعد سنبل نے آنکھ کھولی تو جیسے خضر کی عید ہو گئی۔ وہ مٹھائی لے کر آیا اور اس نے اپنے دوستوں اور سنبل کی سہیلیوں کو مٹھائی کھلائی۔

سرجن نے خضر سے کہا کہ سنبل اکیلی رہتی ہے ہم اسے اس کے گھر ڈسچارج نہیں کر سکتے۔ سنبل کو چھ ہفتوں کے لیے ایک تیماردار چاہیے۔

ڈاکٹر نے کہا کہ ہسپتال کی ایک نرس ہر روز سنبل کے پاس جائے گی لیکن وہ صرف ایک گھنٹہ رہ سکے گی تا کہ اس کی دوائیوں کا خیال رکھ سکے۔ خضر نے جب ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ اسے اپنے گھر لے جائے گا تو سنبل کا ڈاکٹر بہت خوش ہوا۔

خضر سنبل کو اپنے گھر لے آیا اور چالیس دن تک اس کا خیال رکھا۔
خضر صبح و شام سنبل کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا ’دوا دیتا اور پانی پلاتا۔

خضر راتوں کو اٹھ اٹھ کر سنبل کے کمرے میں جاتا تا کہ دیکھ سکے کہ وہ سکون کی نیند سو رہی ہے۔ اگر سنبل درد سے کراہ رہی ہوتی تو اسے دوا کھلاتا۔

خضر کے سامنے وہ ایک چھوٹی سی بچی کی طرح تھی۔
خضر نے اس کو پہلی دفعہ
بستر پر بیٹھتے
بیساکھیوں کی مدد سے آگے بڑھتے
ویل چیر کی مدد سے چلتے
بغیر مدد کے غسل خانے جاتے
اور
اپنے ہاتھ سے کھانا کھاتے دیکھا
خضر اور سنبل کو پتہ ہی نہ چلا کہ ان چالیس دنوں میں سنبل اور خضر کا رشتہ کتنا بدل گیا تھا۔
بھانجی بیٹی بن گئی تھی اور ماموں ماں بن گیا تھا۔

آخر جس دن سنبل غسل صحت لے کر اپنے گھر جانے کے لیے تیار تھی اس دن سنبل نے اپنی تمام سہیلیوں اور خضر کے تمام دوستوں کو بلایا۔

سنبل کی خواہش پر خضر نے بار بی کیو BAR B Qکیا اور سب دوستوں اور سہیلیوں نے نان کباب اور ہیم برگر کھائے ’شکنجبین اور سبز چائے پی

کچھ ایسے بھی دیوانے تھے جنہوں نے سنبل کے جشن صحت منانے پر شیمپین پی اور جدید موسیقی پر رقص کیا۔

خضر کو یقین نہ آ رہا تھا کہ سنبل جو چھ ہفتے پہلے موت سے نبرد آزما ہو چکی تھی آج زندگی کا رقص کر رہی تھی۔

خضر اور سنبل کو خود بھی پوری طرح اندازہ نہ تھا کہ وہ چالیس دنوں میں کتنا بدل چکے تھے۔
جانے سے پہلے سنبل نے خضر کو گلے لگایا ’گال پر بوسہ دیا اور بڑی محبت اور اپنائیت سے پوچھا
اب آپ بتائیں کہ آپ کا بچوں کے بارے میں کیا خیال ہے تو خضر نے نم آنکھوں سے کہا
تمہاری محبت نے مجھے بزدل نہیں اور بھی بہادر بنا دیا ہے۔
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments