سلمیٰ اعوان کی ”بیچ بچولن“


سلمیٰ اعوان کی تصانیف میں چھے ناول (تنہا، لہو رنگ فلسطین، ثاقب، گھرونداریت کا ، زرغونہ اور شیبہ) پانچ افسانوی مجموعے (بیچ بچولن، کہانیاں دنیا کی اور اس کا ترجمہ ”The Sky Remained Silent“ ، خوابوں کے رنگ، برف میں دھنسی عورت کچھ کہتی ہے اور سنو تو افسانہ میرا) پاکستان شمالی علاقہ جات کے تین اور بیرونی ممالک کے دس ( 10 ) سفر نامے شامل ہیں۔ اس اجمال کی طرف توجہ دلانے کا مقصد یہ ہے کہ اگرچہ میں اس تقریب میں حاضر ہوں مگر میری تحریر کردہ یہ سطریں کسی طرح بھی ان کے تخلیقی کام کا محاکمہ نہیں کرتیں۔ کیوں کہ یہ شذرہ ان کے صرف ایک افسانوی مجموعے ”بیچ بچولن“ کے حوالے سے ہے۔

میرے پاس سلمیٰ آپا کی کئی کتابیں ہیں اور میں ادبی رسائل میں بھی ان کا پیچھا کرتا رہتا ہوں۔ میری اور خود ان کی خواہش ”کہانیاں دنیا کی“ پر لکھنے کی تھی مگر جب میں نے ”بیچ بچولن“ اٹھائی تو انھی میں آپا کی ایک ”چٹ“ پڑی ملی، جس پر درج تھا ”ساجد وقت کی کمی تو ہے۔ یہ کہانی ضرور پڑھ لیں۔“ سو میں نے ایک کم رو لڑکی کی کہانی پڑھنی آغاز کی اور اس کے سحر سے باہر نہیں آ سکا۔ نہ معلوم کیوں اس لڑکی سے مجھے کچھ ”سانجھ“ سی محسوس ہوئی اور میں نے ایک ہی نشست میں وہ کہانی اور کتاب پڑھ لی۔

کسی بھی کتاب کو اسی رغبت سے پڑھنے میں کئی امر مددگار ہوتے ہیں۔ زبان، بیانیے کا ڈھنگ، کتھا کی اپنی ندرت، قاری کی نفسیات اور طبع سے اس کی مناسبت اور سب سے بڑھ کر کہیں وجودی سطح پر کسی ان کہے، ان جانے رشتے کی مہک، جو مصنف اور قاری کے بیچ ایک من چاہا تعلق بنا دیتی ہے اور وہ معمول کی طرح قصے کے ساتھ بہنے لگتا ہے۔

سلمیٰ اعوان کی تحریر میں یہ ساری خوبیاں بیک وقت موجود ہیں۔ زبان کے حوالے وہ ”دبستان پنجاب“ سے وابستہ ہیں۔ پنجابی تہذیب، روایات اور آہنگ کی ایک نمایاں چھاپ ان کے بیانیے کو بھی کارگر بناتی ہے اور ان کے کرداروں اور قصے کے وجود کو بھی۔ اس خوش ادائی سے کہ گھر، گلیاں، درخت، پرندے، مظاہر فطرت اور لوگ ایک بڑے منظر نامے کا وجود دھار کر ہمارے ہمراہ ہو لیتے ہیں اور بعض اوقات ہم خود اسی میورل کا حصہ بن جاتے ہیں کہ اسی سارے کھلار میں ہمیں خود اپنے ہونے کا شائبہ ہوتا ہے۔ دیکھیے اس سحر نگاری کی دو ایک جھلکیاں :

”سارے دن کی تھکان کے بعد اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں کنوار پنے کی طرح راتوں کو اٹھ اٹھ کر دب اکبر کے روشن ستاروں کو دیکھتی پھروں۔ قطب تارے کی کھوج کروں۔ وقت کے اندازے لگاؤں اور پھر اپنے اندازوں کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے گھڑیوں کو دیکھوں۔ نظر کمزور ہونے کی وجہ سے مجھے الخوار نظر نہیں آتا تھا۔ اسی کا نظر نہ آنا میرے لیے بڑھاپے کا سگنل تھا اور بار بار اسی سگنل کا احساس مجھے تکلیف دینے لگا تھا، یقیناً اسی لیے میں نے کلاک پر نظر ڈالی اور آنکھیں موند لیں۔“

( ”خبر ہونے تک“ ص 17)

”یوں میں تگڑے جینزGenes کی پیداوار تھی۔ اسی اصول کہ عورت فطرت کی مکمل حیاتیاتی پیداوار ہے کی عملی تصویر تھی۔ تیز دھاری گنڈاسے سے اگر میں اپنی شخصیت کے تہ در تہ چانے اتارنے لگوں تو تھوڑے بہت تو ضرور اتر جائیں گے۔ پر اپنی کھال اتار کر اندر کو مکمل طور پر باہر لانا ممکن نہیں۔“

( ”بیچ بچولن“ ص 68)

”اسی دن پھوار پڑتی تھی اور آم کے پیڑوں پر کوئل کوکتی تھی۔ خدیجہ آپا اپنے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ سیاہ فلیٹ کریپ کا برقعہ ننھی ننھی بوندوں سے بھیگ سا گیا تھا۔ خدیجہ آپا نے اپنی آنگنائی میں آم کا پیڑ اگانے اس پر کوئل کے کو کنے کے لیے جس قدر کوششیں کی تھیں۔ جتنے ترلے مارے تھے، اتنے اپنی ازدواجی زندگی کو ناکامی سے بچانے کے لیے بھی نہ مارے ہوں گے۔ پر آم کا پیڑ اور پوت کٹھنائیوں سے پلتے ہیں۔“

( ”شو پیس“ ص 150)

یہ تین مثالیں غیر مرتب ہیں اور تین عورتوں کی ذات کے حوالے سے ہیں مگر ان میں کہیں نہ کہیں خود ہم یا ہمارے جاننے والوں کی شباہت ہے اور ان کے اردگرد کی دنیا ہمارے معمول کی دنیا ہے۔ سلمیٰ اعوان کردار خلق نہیں کرتیں۔ ان کو ازسرنو زندگی دیتی ہیں کہ وہ ان کے اندر یا باہر کہیں پہلے موجود ہوتے ہیں۔ وہ نرے مشاہدے کی نہیں، وجود کی حقانیت کی مفسر ہیں۔ اسی لیے ان کو زبان اور بیانیے پر ایک قابل تحسین دسترس ہے۔ میں نے ان کو جتنا پڑھا اور جس صنف میں پڑھا۔ ان کی تحریر میں ایک متوازن روانی دیکھی، سردیوں میں بہتے دریا سی، جو زمین سے چمٹ کر بہتا ہے اور اس کی تموج سے خالی سطح اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگانے دیتی۔

”بیچ بچولن“ کے مرکزی افسانے سمیت سلمیٰ آپا کے افسانوں کی مرکز نگاہ عورتیں ہیں، جن کی کتھاؤں کے کہنے کو انہوں نے کبھی سادہ بیانیے کی تکنیک بیان کی ہے اور کبھی دوہرے بیانیے کی مگر وہ کبھی اپنے کرداروں کو گنجھلگ بناتی ہیں نہ کتھاؤں کو ۔ اسی طرح قاری اور مصنف کے مابین تفہیم کا در کھلا رہتا ہے۔ وہ حقیقتوں کے بیان میں کافی دلیر اور منہ پھٹ ہیں مگر منٹو اور عصمت کی طرح کرداروں کی چیر پھاڑ کرنے اور ان کی جنسی نفسیات سے زیادہ رغبت نہیں رکھتیں۔ صرف نرم رو اشارے کرنے پر اکتفا کرتی ہیں۔ اسی طرح وہ منٹو یا موپاساں کی طرح دھماکہ خیز اختتامیہ کی بھی قائل نہیں، ایک لطیف روانی میں بہنے اور قصے کو چلتا چھوڑ دینے یا فطری انجام تک پہنچانے کی مشتاق ہیں۔ یہ ادا کچھ کچھ غلام عباس یا چیخوف کے مماثل ہے اور زندگی کے حقیقی رنگ سے قریب تر ہے۔

سلمیٰ اعوان کے نسائی کردار جمیل اور بے مثل ہیں۔ یہ اسی لیے خوب ہے کہ ہر عورت کسی نہ کسی روپ میں خوبصورت ہوتی ہے۔ کچھ صورت میں، کچھ سیرت میں، کچھ برتاؤ میں، کچھ ادا میں، کچھ سفر حیات میں اور کچھ قیام میں اور اسی پر بس نہیں کہ یہ سلمیٰ آپا کی خلق کردہ یا دریافت کردہ عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں۔ ثروت حسین نے کہا تھا۔ ”مٹی پہ نمودار ہیں، جتنے بھی جزیرے، ان میں کوئی گہرا نہیں عورت سے زیادہ۔“ مگر سلمیٰ آپا تو خود عورت ہیں اور سمندروں کی شناور ہیں۔ دنیا گھومی ہیں اور ادب اور اخلاق و نفسیات کی بے مثل شارح ہیں۔ ان کی عورتیں خواہ کیسی ہی اجنبی اور انوکھی کیوں نہ ہوں۔ ان میں ملاحت اور دل جوئی کا ایک دریچہ کھلا رہتا ہے اور وفا کی نئی نئی صورتیں سامنے آتی ہیں۔

سلمیٰ اعوان کے نسوانی کردار حسین، چلبلے، خود پسند، منہ پھٹ، حاسد اور ایثار پسند ہیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ زندگی کی ہما ہمی انہی تضادات کے باعث ہے۔ سلمیٰ آپا کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسی جلاپے، حسد اور رشک کی کیفیتوں کا بیان بھی کرتی ہیں جو مردوں کی نگاہ بصیرت سے اوجھل ہیں۔ بے شک ہر مرد میں ایک عورت موجود ہو مگر عورت کے دل کی رمز اور نفسیات کی درست خبر ایک عورت ہی کو ہو سکتی ہے اور وہی جانتی ہے کہ عورت کے سکھ اور دکھ کی جڑ کہاں ہے۔

”بیچ بچولن“ کی کم رو لڑکی اور دوسری عورتیں ان عورتوں سے مختلف ہیں، جو ہمیں ہمارے مرد افسانہ نگاروں کے یہاں ملتی ہیں بلکہ سچ پوچھیے تو ملتی ہی نہیں۔ جب سے افسانہ علامت اور تجرید کی سان چڑھا ہے۔ ہمارے افسانے سے عورت ناپید ہو گئی ہے۔ اسی لیے کہ زندگی سے جڑی یا زندگی کو وجود میں لاتی کہانی ناپید ہے۔ ہم تجربے کی لپک میں اگر کسی صنف کو بھولے ہیں تو وہ عورت ہے۔ اور عورت کو للکارتی یا مات دیتی عورت تو کبھی ہمارا موضوع رہی ہی نہیں۔ سلمیٰ اعوان کے کردار ایسے ہی اکل کھرے ہیں جو مردوں کو توڑ پھوڑ کر بلکہ چھیل کر برادہ بنا دینے پر قادر ہیں۔

ان میں ”بیچ بچولن“ کی کم رو لڑکی ایک بہت ہی الگ اور انوکھا کردار ہے۔ خود سے اور ساری دنیا سے لڑتی ہوئی یہ لڑکی وجودی شکست و ریخت اور تعمیر کے عجب چستان سے گزرتی ہے۔ یہ لاوے کے کسی پیکر میں ڈھلنے اور سما جانے کی کہانی ہے جو ایک عجیب استہزائی انداز میں آگے بڑھتی اور مرکزی کردار کے بے پہر وجود کو ڈھانپتی چلی جاتی ہے۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ایک مرحلے پر اس کردار کی پھڑپھراہٹ آسماں کے در کھول کر

رکھ دے گی اور آخر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب ہم ”ہاں“ کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس کی ایک ”نہیں“ سارے منظر نامے کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ذرا دیکھیے :

”جھٹ پٹے کا سمے تھا، گاڑی کو سڑک خالی کیے تین منٹ ہوچکے تھے۔ میں دوڑ کر نہر کی پٹڑی پر چڑھی اور دونوں بازو اوپر اٹھائے، یوں جیسے میں ایدمنڈ ہلاری یا شیریاتن سنگھ ہوں، جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ایورسٹ کی چوٹی فتح کی اور اب اپنی فتح کا جھنڈا لہرا رہی تھی، مجھے فتح کا خمار ضرور تھا پر کہیں دل کے ایک ننھے منے سے کونے میں جیسے سپاہیوں کے کٹنے مرنے کا دکھ بھی تھا۔“

( ”بیچ بچولن“ ص 122)

یہ لمحہ بہت خاص اور تشریح طلب ہے مگر اس کے لیے افسانے کی قرات شرط ہے۔ اس لیے کہ یہ لمحہ اس قصے کے مرکزی کردار کی زندگی میں آسانی سے سرایت نہیں کر آیا۔ بہت تپسیا اور انتظار کے بعد رینگ کر آیا ہے اور کردار کی اپنے آپ سے اور اپنے وجود سے ہمہ جہت جنگ کے بعد آیا ہے اور یہ جنگ اسی کہانی تک محدود نہیں، کم و بیش سبھی کہانیوں میں بکھری ہوئی ہے اور اس کی کیفیت چو مکھی لڑائی ہے، خود سے، وجود سے، مرد سے اور اپنی جیسی اور اپنے طرح جینے والی عورتوں سے بھی۔

سلمیٰ اعوان طول پسند ہیں مگر یہ طول پسندی ان کے اسلوب کا لازمہ نہیں۔ وہ کنائے میں کہنے کی شائق ہیں مگر علامت اور تجرید سے اجتناب کرتی ہیں۔ یہ اور بات کہ ان کے کردار اپنی نوع کے کرداروں کا استعارہ بن جائیں اور اپنی ایک مستقل شناخت وضع کر لیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے محدود مطالعے کی حد تک وہ مجھے خاتون افسانہ نگاروں میں کسی اور کے مماثل محسوس نہیں ہوئیں۔ ہاں مرد افسانہ نگاروں میں محمد سعید شیخ کو بھی عورت کی نفسیات اور کردار کی تعمیر سے بہت دلچسپی ہے مگر ان کی زبان لفظیات اور بیانیے کا ڈھنگ اور ہے اور ”عورت نگاری“ میں مردانہ نفسیات غالب رہتی ہے۔

سلمیٰ اعوان عالمی ادب اور تاریخ پر گہری نگاہ رکھتی ہیں۔ ان کو سیاست اور جغرافیائی حقیقتوں کی بھی خبر ہے مگر اپنے افسانوں میں وہ مقامیت کو ترجیح دیتی ہیں اور منظر نامے کے حوالے سے شمالی پنجاب سے ان کی رغبت کا پتا چلتا ہے۔ جس کے اثرات ان کی زبان پر بھی ہیں۔ یہ خود سے اپنے وجود سے یگانگت کی دلیل بھی ہے اور راست گوئی کی بھی۔ کیوں کہ دیکھی ہوئی اور برتی ہوئی دنیا سے مطالعہ کرنا بہتر بھی ہوتا ہے اور آسان بھی۔ اور بلھے شاہ کے بقول ”آئی صورتوں سچا رہنا“ اپنی جگہ ایک خوبی ہے۔

یوں تو ”بیچ بچولن“ کی کہانیوں میں چیچہ وطنی بھی ہے اور جلال پور جٹاں بھی مگر ان کا ذکر صرف بیانیے کی حد تک ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ مقامات کا ذکر صرف کراروں کی چلت پھرت کی تخصیص کے لیے ہے۔ ان کا اصل علاقہ تو مقابل کی روح ہے اور قاری کی ذات۔ ”بیچ بچولن“ کے سوا اس مجموعے کی ساری لڑکیاں خوبصورت ہیں مگر عموماً بدنصیب۔ شاید زندگی کی سچائی بھی یہی ہے اور حسن ایک اضافی قدر جو تصرف میں آنے کے بعد بے حیثیت ہوجاتی ہے۔

تو صاحب بیچ بچولن کی دسوں کہانیوں کا موضوع محبت ہے۔ ”روپ“ کی جمیلہ ہو یا ”جال“ کی ”سلیمہ عزیز“ ، ”خبر ہونے تک“ کی ”جہاں آرا“ یا ”عورت اور ماں“ کی ”ماہ رخ مجید“ سبھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی یعنی مڈل کلاس طبقے کی محبت اور نفرت کی نمائندہ ہیں اور سلمیٰ اعوان کی سبھی سے ایک خاص طرح کی ساجھے داری ہے۔ جیسے اسی نے یہ کردار خلق نہ کیے ہوں، اپنی ذات سے نوچ کر الگ کیے ہوں۔ یہ کہیں اسی کے اردگرد موجود تھے یا کہیں اندر اور ان کے باطن کہانی کار پر کھلے تھے۔

احمد ندیم قاسمی نے سلمیٰ اعوان کے مشاہدے کی باریک بینی کے لحاظ سے راجندرسنگھ بیدی سے مماثل قرار دیا ہے۔ قاسمی صاحب اردو افسانے کا ایک بڑا نام اور پارکھ تھے مگر وہ سلمیٰ اعوان کی طرح عورت نہیں تھے اور سلمیٰ اعوان کا مشاہدہ ایک عورت کا مشاہدہ ہے جو آئینے کے پار بھی خود کو دیکھتا ہے اور اپنے پیچھے کھڑے مرد کو بھی اور اس شبیہ کو بھی جو اس مرد یا عورت کی آنکھ میں ہے۔ اسی لیے اس کا مشاہدہ کسی مرد کے مشاہدے کے مماثل نہیں ہو سکتا ۔

رہی ”بیچ بچولن“ تو بقول ذوالفقار احمد تابش وہ اردو ادب میں اپنے موضوع اور نوعیت کی اکلوتی کہانی ہے اور رہے گی، جب تک کوئی اور کم رو لڑکی اس کی مان بھری زندگی کو نشٹ نہیں کر دیتی۔

۔ یکم نومبر 2018ء۔ لاہور
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments