ڈاکٹر بشیر چودھری: پورے شہر کی آبرو


بے مثال رجائی

پاکستان کی تاریخ میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ امید کی شمعیں بھی جلیں، مایوسیوں کے اندھیرے بھی پھیلے۔ لوگ ساکت و جامد تباہی کے منتظر ہوتے لیکن یہ شخص ہر آن متحرک رہتا۔ پاکستان پر نہ اس کا ایمان اس وقت ڈگمگایا جب بیوروکریسی کے مہروں نے اسے پھانسی کے تختے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی، نہ اس وقت جب سقوط مشرقی پاکستان کے وقت ان کا دل بیٹھ گیا اور یہ صدمہ انھیں اندر ہی اندر کھاتا رہا لیکن ان کی رجائیت کی کوئی حد نہ تھی۔ وہ ساٹھ کے عشرے میں کہا کرتے تھے، غم نہ کرو ہمیں جتنا پست ہونا تھا ہو چکے۔ اس سے نیچے جگہ ہی نہیں۔ اب ہمارے لیے اوپر اٹھنے کے سوا چارہ ہی نہیں۔ جب ہمارا مشرقی بازو کٹا تو دل گرفتگی کا ٹھکانا نہ تھا لیکن وہ اس وقت بھی بڑے وثوق سے کہتے

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
جو ملتا اسے بڑی دلسوزی سے سمجھاتے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے۔

منظور ہے گزارش احوال واقعی

میں نے تحریک پاکستان میں شعوری طور پر حصہ نہیں لیا۔ لڑکپن کے دن تھے۔ جھنڈے اٹھائے، نعرے لگائے، جلسے سنے۔ آزادی، مساوات، اللہ کا قانون، عدل فاروقی خوش آئند تصور ضرور تھے لیکن ان سے آگاہی نہ تھی۔ جب آگاہی ہوئی تو پتہ چلا وطن عزیز میں ان کا حصول سعی لاحاصل ہے۔ اقتدار جن ہاتھوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے وہ انسانی مساوات کی بنیاد رکھنے سے قاصر ہیں، یہاں کچھ لوگ کی قسمت میں لٹتے رہنا ہے۔ یہ صورت حال مایوسی اور جھنجھلاہٹ کو جنم دیتی ہے۔

ہم نے مانا جنگ کڑی ہے
سر پھوٹیں گے خون بہے گا
خون میں غم بھی بہہ جائیں گے
ہم نہ رہیں گے غم بھی نہ رہے گا

کے نقطۂ نظر کے لیے جواز فراہم کرتی ہے۔ تخریب کاری اور دہشت گردی سے نفرت کے بجائے ہمدردی پیدا ہونے لگتی ہے۔ جب نظام ناقابل اصلاح ہے تو اس کی بنیادیں اکھاڑ پھینکو اور نیا نظام لے آؤ۔ اس کی بنیاد اٹھاؤ

ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند
اول آں بنیاد را ویراں کنند

فرسودہ نظام کی پشت پناہی کرنے والی قوت سے ٹکرانا تمھارے بس میں نہیں تو اس سے بڑی قوت کا ساتھ دو۔ عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے۔ خیالی مفروضے، منطقی نظریے بن جاتے ہیں۔ دشمن دوست نظر آتا ہے اور دوست دشمن۔ ایسے میں نہ آزادی کا خیال دامن گیر ہوتا ہے نہ قومی غیرت کے تقاضے اپیل کرتے ہیں۔ موجود اقتدار سے حکومت چھیننا مقصد حیات، اس کے لیے ہر حربہ جائز۔ اس کشمکش میں غیروں کی غلامی بھی قابل قبول معلوم ہوتی ہے۔ آج حقیقت بین نگاہیں وطن عزیز میں یہ کیفیت دیکھ رہی ہیں۔

ہمارے ڈاکٹر صاحب ایک قصہ بار بار سنایا کرتے تھے۔ وہ کہتے ”قائد اعظم ایک جلسے میں تقریر کر رہے تھے۔ میں سٹیج کے قریب بیٹھا تھا۔ میں نے دیکھا جلسے کے آخری سرے سے ایک بابا کھسکتے کھسکتے سٹیج کے نزدیک آ گیا، کان ہمہ تن متوجہ، نگاہیں قائد پر جمی ہوئیں۔ میں نے پوچھا، بابا کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ بولا،“ میں تاں چٹا ان پڑھ آں ”۔ میں نے کہا، یوں بت بنے کیوں دیکھ رہے ہو۔ اس نے سرگوشی میں کہا،“ اے بندا اک اشارے تے لکھاں بندے مروا سکدا اے ”۔ اور ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی اور میں قائد کے سپاہی کی جھلک دیکھ لیتا۔

میں سوچتا ہوں قائد اعظم کی جیب میں کھرے سکے بھی تھے۔ کامل عیار سکے۔ وہ عوام میں بکھر گئے۔ جب حکومت ملی تو بقول ان کے ان کی جیب سے بس کھوٹے سکے ہی نکلے۔ اگر زمام کار مخلص کارکنوں کے ہاتھ میں ہوتی تو آج ہمیں اپنی شناخت کے لیے کسی سے نہ پوچھنا پڑتا۔ لیکن کیا کریں، قائد کے معتمد اور جاں نثار عبد الرب نشتر نے جو تصویر آغاز میں کھینچی تھی وہ بعد کے لیے بھی سچی پیش گوئی نکلی

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

کر قصہ مختصر

بات سے بات نکلتی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ آپ کو ڈاکٹر صاحب کی تعلیم، بہار کے مسلم کش فسادات کے میڈیکل مشن اور بنگال کے قحط کے بعد کی طبی امداد میں ڈاکٹر صاحب کی کہانی سناؤں۔ ہاؤس جاب، سرکاری ملازمت میں ان کی انفرادیت کا تذکرہ کروں۔ سیاست میں ان کی معرکہ آرائیوں کی جھلک دکھاؤں، ان کی کلب لائف کے کچھ گوشے بے نقاب کروں۔ ان کے حج کے انوکھے سفر کا قصہ بیان کروں اور سب سے بڑھ کر بحیثیت معالج مریضوں کے دکھ درد دور کرنے میں ان کی مہارت کی تصویر کشی کروں لیکن وقت کی قلت مانع ہے۔ اللہ نے اگر توفیق دی تو ڈاکٹر صاحب کا ذکر زندگی بھر چلے گا۔ آج کی محفل میں ڈاکٹری پیشے سے متعلق ڈاکٹر صاحب کے خیالات کا مختصر سا بیان مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ہمیں تم سے کوئی ہمدردی نہیں

منگل کی رات میں یہ تحریر کاغذ پر بکھیرنے بیٹھا تو حمزہ صاحب کا فون آ گیا۔ ان کی آواز مغربی پاکستان کی اسمبلی میں گونجی تھی۔ ان کی جرات، بہادری، استقامت اور دیانت نے اس آواز کو لوگوں کے دل کی دھڑکن بنا دیا۔ میں مجلس شوریٰ کے تجربے میں سب سے اہم متاع ان کی دوستی کو سمجھتا ہوں۔ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کی وفات پر تعزیت کی۔ ان کی جرات، دلیری اور اخلاص کو خراج تحسین پیش کیا اور پھر فرمانے لگے :

ڈاکٹروں کے مسائل پر تمھاری تحریریں میرے پاس پہنچتی رہتی ہیں۔ وہ میرے لیے بہت مفید ہیں لیکن یہ تو بتاؤ تمھاری پی ایم اے کیا کر رہی ہے۔ ڈاکٹر لٹیرے اور ڈاکو کیوں بن گئے ہیں۔ میڈیکو لیگل میں رشوت، جھوٹے سرٹیفکیٹ، لالچ، لاپروائی۔ سوچو تم کیا بن گئے ہو۔ جیسے پٹواری تحصیل دار بدنام تھے ویسے ہی تم بن گئے ہو۔ انھوں نے اسی دن کا تازہ قصہ سنایا کہ کس طرح وہ ہسپتال گئے۔ انچارج ڈاکٹر کے کمرے میں ایک جونیر ڈاکٹر کو بلایا۔

اس نے اعتراف جرم کیا اور وعدہ کیا کہ رشوت کے پانچ سو روپے اگلی صبح واپس کر دے گا۔ پھر ہمارے جرائم کی فہرست گنوانی شروع کر دی اور تان اس پر توڑی کہ ”ہمیں تم سے کوئی ہمدردی نہیں“ ۔ میں ہنس دیا اور کہا، ”چنگا جناب ناں سہی ہمدردی۔“ وہ بولے میں تمھیں نہیں کہتا تمھاری برادری سے کہتا ہوں۔ آخر تمھاری ایسوسی ایشن کی یہ ذمہ داری بھی تو ہے کہ ڈاکٹروں کو ان کے فرائض یاد دلاؤ۔ حقوق کی جنگ لڑو۔ لیکن ڈاکٹروں کو بھی تو سیدھا کرو۔

وہ بھی تو ڈاکٹروں کا شیوہ اپنائیں۔ میں نے کہا، حمزہ صاحب! آپ بھی تو ذرا وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سے کہیں کہ وہ سیاسی تدبر کا ثبوت دیں۔ دھماکہ خیز صورت حال کی سنگینی کا احساس کریں۔ بروقت اقدام کریں۔ جو قانون موجود ہیں ان کا نفاذ ہی عمل میں لے آئیں۔ جو فیصلے کاغذوں میں ہو چکے ہیں انھیں زمین پر لائیں، قومی نمائندے نے اس پر جو تبصرہ کیا وہ بھی خوب تھا۔ پتہ چلا

ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔
دوستان عزیز! اقبال کی بات پھر دہراتا ہوں
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ

ہم سائنس کے طالب علم ہیں۔ حقائق کو جوں کا توں دیکھنے کی تربیت پاتے ہیں اور نتائج کو اسباب سے مرتب کرنے کے عادی ہیں۔ خدا توفیق دیے تو اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور دیانت داری سے اپنے آپ سے پوچھیں کہ لوگوں کو ہم سے ہمدردی کیوں نہیں۔ الزامی جواب بے حد آسان ہیں۔ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں خرابی اپنی بدترین شکل میں رائج نہیں۔ سیاست میں، حکومت میں، عدالت میں، تجارت میں، زراعت میں، صنعت میں، تعلیم میں، دینی اداروں میں، سچائی کی روح کہاں ہے؟

لیکن اس سے بات نہیں بنتی۔ ترکی بہ ترکی جواب تو ہو جاتا ہے۔ برا کہنے والوں کو اپنی اوقات بھی معلوم ہو جاتی ہے لیکن ہمدردی کا عنصر پھر بھی نہیں ابھرتا اور شکایت کی تلخی بڑھتی جاتی ہی جاتی ہے۔ آخر اس کا کیا سبب ہے؟ ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنے سرکاری ملازم ساتھیوں سے اکثر کہا کرتے تھے، بھائی ہم لوگوں سے پیسے بھی لیتے ہیں، انھیں اپنی مرضی پر چلاتے بھی ہیں لیکن وہ ہمیں دعائیں دیتے ہیں اور خوش دلی سے ہمارے پاس آتے رہتے ہیں۔ ہمارے خلاف ہر جگہ شکایت نہیں کرتے پھرتے۔ تم ان کی خدمت بھی کرتے ہو، پیسے بھی نہیں لیتے، دوائیں بھی مفت دیتے ہو، آپریشن بھی مفت کرتے ہو لیکن تمھارے خلاف شکایات کا طوفان اٹھا رہتا ہے۔ لوگوں کو تو تمھیں پوجنا چاہیے۔

آخری چند سالوں میں ڈاکٹروں کے عمومی رویے میں طبی اخلاق کے ضابطے کے منافی سرگرمیوں سے بے حد آزردہ خاطر رہتے۔ انھیں رپورٹیں ملتی رہتی تھیں اور وہ بسا اوقات بڑے تلخ لہجے میں اپنے ہم پیشہ بھائیوں کی شکایت کیا کرتے۔

معزز دوستو! ہمیں اپنی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی ہونی چاہیے۔ طاقت اور کمزوری کی بیلنس شیٹ بنائیے اور پھر تحریک کے آغاز سے انجام تک آپ ہی نقشہ بنا لیجیے۔

میں سمجھتا ہوں ہم انتہائی خوش قسمت گروہ ہیں۔ اپنی قوم نے حکمرانوں کو ظلم کا شیوہ اپناتے اسے دائمی بناتے دیکھا۔ اسے برداشت کر لیا۔ ججوں اور وکیلوں کو انصاف سے دور ہٹتے دیکھا۔ قضائے مبرم سمجھ کر چپ ہو رہی۔ استاد کو اخلاقی پستیوں میں گرتے دیکھا، اسے سہ گئی۔ لیکن ایک ڈاکٹر ہے جس کے بگاڑ کے متعلق یہ آج بھی اتنی حساس ہے جتنی آغاز میں تھی۔ ہمارے خلاف اس کی شکایات روز افزوں ہیں۔ ان میں تلخی بڑھ رہی ہے۔ وہ تڑپ تڑپ اٹھتی ہے۔

خدا کے لیے تم اپنے مقام سے نہ گرو۔ یہ فریاد یہ تڑپ داد کی طالب ہے بے داد کی نہیں۔ قوم یہ توقع رکھتی ہے ہم دوسرے تمام پیشوں سے مختلف ہوں۔ وہ اپنے قول اور عمل سے ہمیں اپنی عظمت کا احساس دلاتی ہے۔ ہمیں اس انتخاب پر پوری قوم کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اپنے رب کا احسان مند۔ اور یہ فیصلہ پوری نیک نیتی سے کرنا چاہیے ہم اعلی انسانی قدروں کے امین بن کر عوام کے دلوں کو جیتیں۔ یا کم از کم طبی اخلاق اور ملکی قوانین کی کما حقہ پابندی کر کے لوگوں کے دلوں مسخر کر لیں یا اس کے برعکس ننگوں کے حمام میں ننگے ہو کر اپنی اذیت دینے کی صلاحیت کو کام میں لائیں اور مادی آسائشوں کو مقصد حیات بنا کر اپنی زندگی کی راہیں متعین کریں۔

مضمون بوجھل ہو رہا ہے اور شاید بے زار کن بھی۔ اس کے لیے معذرت نہیں کرتا۔ یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر، ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔

آئیے واپس چلیں۔ اپنے بھائی کو رخصت کر لیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments