ڈاکٹر بشیر چودھری: پورے شہر کی آبرو


حکایت قد آں یار دل نواز کنیم
بہ ایں بہانہ مگر عمر خود را دراز کنیم
جان سے پہچان تک

انھیں جانا 1954 میں، پہچان 1958 سے شروع ہوئی اور ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔ فورتھ ایر میں تھا جب انھیں پہلی بار دیکھا۔ صادق بازار کی مشرقی گلی میں ایک مکان تھا جہاں وہ پریکٹس کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے کلینک میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت کا دھندلا سا عکس باقی ہے۔ اتنا یاد ہے کہ سن کر تعجب ہوا کہ ایل ایم ایس سے ایم بی بی ایس تک پہنچنے والا ڈاکٹر عام پرائیویٹ پریکٹیشنروں کی طرح صرف عرف عام بوتل کی پریکٹس ہی نہیں کرتا ہر قسم کے آپریشن بھی کرتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے انھیں پیٹ سے رسولی نکالتے ہوئے دیکھا۔ عام سا کمرہ اس میں ایک میز پر میلے کپڑوں میں ایک عورت، اس کے پیٹ کو اچھی طرح صاف کیا۔ عین مرکز میں طولاً ایک چیرا دیا۔ اندر ایک بہت بڑی
(Ovarian cyst)
رسولی۔ میں نے سوچا یہ باہر کس طرح نکلے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے
(Trocar cannula)

منگوایا۔ گاڑھا سا مواد باہر نکلا اور چند منٹ بعد رسولی باہر تھی۔ بڑے اعتماد اور سکون سے آپریشن کرتے تھے۔ صحت اور مہارت کا حال بھی سن لیجیے۔

کوئی تین ہفتے ہوئے ہمارا جمعدار خان کہنے لگا ”ڈاکٹر بشیر صاحب کو کیا ہو گیا، میں تو انھیں پہچان بھی نہیں سکا۔“ پھر بولا ”جب ڈاکٹر صاحب پہلے پہل یہاں آئے تو میں نے انھیں کشمیری سمجھا۔ سیب کی طرح سرخ، بھرپور جوانی اور ڈاکٹر صاحب آپریشن! میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ایک گھنٹے کے اندر تین مریضوں کے مثانوں سے پتھریاں نکال دیں۔“

باغی اور دہشت گرد

غالباً نومبر ( 1958 ) کی آخری تاریخ تھی۔ جنرل ایوب خان کا مارشل لا نیا نیا لگا تھا۔ ہر سمت خوف کی فضا تھی۔ لوگ سہمے سہمے سے رہے۔ مجھے پتہ چلا کل بہاولپور سرکٹ ہاؤس میں ملٹری کورٹ میں ڈاکٹر بشیر چودھری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایک مقدمے کی سماعت ہو گی۔ الزام ہے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا۔ میں ان دنوں بہاولپور کے میڈیکل سکول میں لیکچرر تھا۔ دوسرے دن چھٹی لی اور سرکٹ ہاؤس پہنچ گیا۔ پلاٹ میں ایک مجمع تھا۔

اس میں گھرے دو نوجوان کھڑے تھے بہت گھبرائے ہوئے اور بے چین۔ لوگ سراسیمہ اور دبی زبان میں بولتے تھے۔ اتنے میں ایک ادھیڑ عمر کا دیہاتی سا پاس سے گزرا۔ پولیس ساتھ تھی۔ دونوں نوجوان ایک ساتھ بول اٹھے ”ابا! ہماری نہیں اپنے ایمان کی فکر کرنا۔“ اور وہ شخص جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں زور زور سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرنے لگا۔ یہ مدعی تھا لال دین۔ تھوڑی دیر گزری کہ عدالت کے جج آ گئے۔ سناٹا چھا گیا۔

سب لوگ سانس روکے کھڑے تھے۔ ذرا دیر میں کرنل، میجر اور مجسٹریٹ باہر نکلے اور سرکٹ ہاؤس پر لہراتے جھنڈے کو دیکھنے لگے۔ دو ایک منٹ بعد وہ لوگ واپس کمرۂ عدالت میں چلے گئے۔ ایک آدمی چھت پر چڑھا، پرچم اتارا، اسے الٹایا اور پھر بلند کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ عدالت میں جاتے ہی ڈاکٹر بشیر صاحب اٹھ کر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ”جناب والا! ہمارا پرچم ہماری آن اور عظمت کا نشان ہے۔ آپ اس کے محافظ ہیں۔ اس کی بے حرمتی نہیں ہونی چاہیے۔ ذرا دیکھیے عمارت پر پاکستان کا جھنڈا الٹا لگا ہوا ہے، اسے سیدھا کیجیے، پھر کارروائی شروع کیجیے۔“

اللہ اللہ، عدالت کے باہر سینکڑوں لوگ کھڑے تھے، فوجی بھی اور سول بھی۔ پرچم کو غور سے صرف ایک آنکھ نے دیکھا۔ وہ ملزم جسے ایسے جرم کے الزام میں عدالت میں لایا جا رہا تھا جس کی سزا موت تھی۔

آگے بڑھنے سے پہلے ذرا چند روز پیچھے چلیں۔ ڈاکٹر صاحب اور دوسرے ملزمان کے عزیزوں نے ایک وکیل صفائی کی خدمات حاصل کیں۔ موصوف لاہور سے آئے۔ بڑی تگ و دو کے بعد انھیں ملاقات کی اجازت ملی۔ جب ملز مین کمرے میں آ گئے تو وکیل نے ڈاکٹر بشیر صاحب کے بہنوئی سے پوچھا ان میں ڈاکٹر بشیر کون ہے؟ انھوں نے اشارہ کر دیا۔ اب ڈاکٹر صاحب اپنے مخصوص کھدر کے سفید سوٹ میں ملبوس ہیں۔ دیہاتیوں کی طرح چادر دونوں بغلوں کے نیچے سے لا کر کندھوں پر پھینک رکھی ہے اور بڑے سکون اور اطمینان سے بیٹھے ہیں۔ وکیل صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے عزیز کے کان میں کہا، ”ایہہ تے ٹیررسٹ لگدا اے۔“

ڈاکٹر صاحب کے عزیز کو بڑے ملزم کی صفائی وکیل صفائی کے سامنے پیش کرنا پڑی۔ پھر وکیل نے سب ملزموں سے بات چیت کی۔ بعد میں کہنے لگے ”عجیب آدمی ہے۔ اسے پروا ہی نہیں اس پر الزام کیا ہے اور سزا کیا ہے۔“

تو صاحبو! الزام تھا بغاوت کی سازش کا۔ کیس ڈی سی اور ایس پی نے ہر پہلو سے بڑا پکا بنایا تھا۔ بڑے ملزم تھے ہمارے ڈاکٹر بشیر چودھری۔ جرم کی سزا تھی پھانسی۔

وکیل صفائی بعد میں ہمارے صدر مملکت بنے، چودھری فضل الہی۔

اب باقی قصہ سنیے! لال دین اٹھا۔ عدالت بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ بولنے کا عہد لیا۔ بیان دینے کو کہا تو لال دین کی ہچکی بندھ گئی۔ بڑی مشکل سے چپ کرایا۔ کہنے لگا: ”جناب سچ بولتا ہوں تو میں اور میرے بیٹے نہیں بچتے۔ جھوٹ بولتا ہوں تو یہ لوگ نہیں بچتے۔

عدالت نے اسے تحفظ کا یقین دلایا اور سچ کہنے کی تلقین کی۔

اس نے کہا، ”جناب اگر سچ پوچھتے ہیں تو میں ان ملزموں سے کسی کو جانتا تک نہیں۔ مجھے پولیس نے حراست میں رکھا اور ڈرایا کہ اگر مدعی نہیں بنو گے تو تمھارے دونوں بیٹوں کو قتل کے مقدمے میں پھنسا کر پھانسی پر لٹکا دیں گے۔“

پولیس کے سوا استغاثے کے گواہ بھی واقعے سے یکسر لاعلمی کا اظہار کرنے لگے۔ عدالت کی کارروائی ملتوی ہو گئی۔ ہم لوگ امید و بیم میں مبتلا تھے کہ اچانک ڈاکٹر بشیر صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ باہر نکلے۔ لوگ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ ان کی طرف لپکے مگر وہ خدا کا بندہ اپنے رب کے حضور سجدہ میں پڑا تھا۔

دوستان عزیز! اس سارے واقعے میں ہر مرحلے پر اس شخص کی عزیمت، صبر اور استقامت کے نشانات کندہ ہیں۔ ان کی تفصیل بیان کروں تو اس کے لیے گھنٹوں درکار ہوں گے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سولہ سترہ سالوں کی رفاقت اور طویل صحبتوں میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی طالب علمی، تحریک پاکستان کی جد و جہد، پیشہ ورانہ زندگی کی کہانیاں، سیاست کے اسرار، سب کچھ بیان کیا اور بار بار قند مکرر کے طور پر سنایا لیکن یہ قصہ استفسار کے باوجود خوبصورتی سے ٹالتے رہے۔ تفصیلات دوسرے ذرائع سے معلوم ہوئیں۔

رازق اللہ ہے

میں جنوری 1969 ء میں رحیم یار خان میں پریکٹس میں بیٹھا۔ ایک دن میرے ماموں جان مجھ سے کہنے لگے، ”ڈاکٹر بشیر نے جان لیا ہے کہ اس کا رازق اللہ ہے۔ جو ڈاکٹر بھی ان کے پاس جاتا ہے اس سے کہتے ہیں نوکری مت کرو، پریکٹس کرو۔ رحیم یار خان بہت اچھا شہر ہے۔ بڑی جلدی کامیاب ہو جاؤ گے“ ۔

ہم نے فروری 1971 ء میں پی ایم اے رحیم یار خان کی بنا ڈالی۔ ہماری یگانگت اور یکجہتی نے پورے ملک میں ہمارا امیج بنا دیا۔ لوگ بار بار مجھ سے پوچھتے ہیں تم لوگوں کے بھائی چارے کا راز کیا ہے؟ فلاں فلاں شہر میں دو تین پریکٹیشنر ہیں۔ ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار نہیں۔ میں نے انھیں ایک ہی جواب دیا ہے۔ ہمارے لیے جس شخص نے پریکٹس کی راہ روشناس کی ہے وہ جانتا ہے کہ رازق اللہ ہے۔ وہ ڈھائی ماہ کے لیے افریقہ گیا تو اپنے پیچھے کلینک ایک نوجوان ڈاکٹر کے سپرد کر گیا۔

یہ نوجوان سرجری کا ماہر اور شوقین تھا۔ سرجری میں ڈاکٹر صاحب کی ساکھ تھی۔ مریض آتے گئے اور نوجوان ڈاکٹر کی شہرت ہوتی گئی۔ ڈھائی ماہ بعد وہ نوجوان رخصت ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے معقول رقم دی۔ اس نے اپنا اڈا الگ جما لیا۔ مریض سرجری کے لیے اس کا پتہ پوچھنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب بہت خوش ہوتے اور مریضوں کو اس کے کلینک کا پتہ بتاتے رہتے۔ کسی مریض سے یہ نہیں کہا، میں آپریشن کر دیتا ہوں۔

پیسہ تو کنجروں کے پاس بہت ہے

ڈاکٹر صاحب اکثر یہ فقرہ دہرایا کرتے تھے۔ انھیں بہت دکھ ہوتا تھا کی بعض ڈاکٹر مریضوں کی مجبوری کو دولت سمیٹنے کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ کلینک کی پرچی پر ”خیر الاشغال خدمت الناس“ چھپوا رکھا تھا۔ اور خدمت ہی پر عمل بھی تھا۔ دولت مندوں سے معقول رقم لیتے۔ وہی دوا غریبوں کو مفت دے دیتے، یا برائے نام پیسے لے لیتے۔ پیسے کی کمی نہ تھی۔ فضول خرچ نہ تھے لیکن جوڑ کر رکھنے کے قائل نہ تھے۔ سمجھتے تھے کہ جس نے آج دیا ہے وہ کل بھی دے گا۔

اللہ کا مال ہے اس کے بندوں کا حق ہے۔ چند سالوں کو چھوڑ کر اکیلے پریکٹس کی۔ ان تھک محنت کی۔ شہرت کے عروج پر پہنچے۔ مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا لیکن لالچ کو نگاہ غلط انداز سے بھی نہیں دیکھا۔ پیسوں کی ریل پیل ہے۔ مریضوں کی بھرمار ہے۔ رات کو خیال آیا کہ فلاں کانفرنس میں جانا چاہیے۔ فلاں قومی کام میں شریک ہونا چاہیے۔ دوسرے دن اٹیچی کیس اٹھایا اور چل دیے۔ جہاں ہزاروں آتے تھے وہاں سینکڑوں ہوئے۔ چند روز بعد بیسیوں ہوئے۔

انھیں فکر نہیں۔ آرام سے واپس آ گئے۔ نہ اشتہار دیا، نہ لوگوں سے کہلوایا میں واپس آ گیا ہوں۔ مریض کم ہوئے اخبار اور رسالے پڑھتے رہے۔ ان سے گپ لڑاتے رہے جو ملنے یا دوا لینے آ جائیں۔ پچاس روپے کما لیے تو بھی خوش و خرم۔ پانچ سو آ گئے تو بھی وہی کیفیت۔ چاہتے تو سب ڈاکٹروں کی مجموعی جائیداد سے زیادہ بنا لیتے لیکن اس طرف کبھی سوچا ہی نہیں۔ رہائشی پلاٹ کوڑیوں میں نیلام ہوئے ان میں بولی دے لی۔ کوڑیاں آج کے حساب سے۔

اس زمانے میں تو تین ہزار روپے پلاٹ بڑی رقم تھی۔ بنجر زمین لے کر بیٹھ رہے۔ خرچ بہت، آمدنی منفی۔ اللہ کو اپنے بندے کی عادات کا علم تھا، رہائشی پلاٹ کے سامنے کمرشل ایریا بن گیا۔ دکانیں کھل گئیں۔ بنجر زمین بھی رہائشی علاقے کی زد میں آ رہی ہے۔ یوں پسماندگان کا انتظام ہو گیا۔ ورنہ اسے فکر ہی کب تھی۔ فکر ہے تو اس نادار طالب علم کی ہے جو مفلسی کے سبب میڈیکل کی تعلیم نہیں پا سکتا یا قابلیت کے باوجود کالج نہیں جا سکتا۔ ان کی ضرورتوں کے لیے جب اپنے پاس گنجائش نہ پاتے تو دوستوں کو پکڑ لیتے، اداروں کو توجہ دلاتے۔

ہزار خوف ہو لیکن

ایک کمشنر کا دبدبہ مشہور تھا لوگ باگ اس سے ڈرتے تھے۔ اس نے ترنگ میں آ کر ڈاکٹر صاحب کو بھی چھیڑ دیا۔ بولا، ڈاکٹر صاحب کھدر کے کپڑے پہننے لگے ہو، غریب ہو گئے ہو کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً کہا، میں حیران ہوں۔ آپ کی تنخواہ کو دیکھتا ہوں اور اپنی آمدنی کو تو سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ مجھے گزارے کے لیے کھدر پہننا پڑتا ہے اور آپ کے ٹھاٹھ باٹھ کیا کہنا۔ آمدنی آپ کی مجھ سے کہیں کم اور خرچ کئی گنا زیادہ۔ وہ کھسیانا ہو کر دوسری میز پر چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا پیچھا کیا۔ بے چارے کے لیے چائے پینی محال ہو گئی۔

ایک دفعہ ڈویژنل کونسل میں رشوت کا ذکر چلا۔ آپ نے کہا، جناب اب تو رشوت ختم ہو چکی ہے۔ نائب تحصیلدار بیگمات کو خریداری کے لیے لے جاتے ہیں۔ نقدی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ان کمشنر صاحب کی بیگم ایسی خریداری کے لیے مشہور تھیں۔

ڈاکٹر صاحب دو مرتبہ میونسپل کمیٹی کے وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ اس زمانے میں عوامی نمائندے وائس تک ہی پہنچ پاتے تھے۔ افسر آتے، وزیر آتے۔ ڈاکٹر صاحب اپنا سپاس نامہ فی البدیہ سناتے تھے۔ مہمان خصوصی اس براہ راست حملے کی تاب نہ لا سکتا، اکثر پسینے چھوٹ جاتے۔ آخر یہ طے کر لیا کہ جب تک ڈاکٹر بشیر چودھری وائس چیئرمین ہیں رحیم یار خان کا رخ نہیں کریں گے۔

لیکن جہاں دل کی بات زبان تک لانے میں بہت بے باک تھے وہاں اپنا مطلب استعاروں میں ادا کرنے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ اپنے ہاں عام شیوہ یہ ہے کہ اٹھتے بیٹھتے افسروں کی رشوت اور دھاندلی کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔ جب کہا جائے بھری بزم میں بیان کرو تو کہتے ہیں ان سے دشمنی کون مول لے، نہ عزت محفوظ نہ جان۔ ایسے ہی عوامی نمائندے ڈویژنل کونسل میں بھی موجود تھے۔ ایک میٹنگ میں انھوں نے اصرار کیا کہ ڈاکٹر صاحب بھی رشوت کے موضوع پر بولیں۔ ڈاکٹر صاحب ہر بار اپنا وقت کسی اور کو دے دیتے۔ جب ہر طرف سے فرمائش ہونے لگی تو کہنے لگے، بھائیو، ایک کہانی سن لو۔

ایک راجے کی فوج چولستان سے گزر رہی تھی۔ کمانڈر تھا رام لعل۔ پانی ختم ہو گیا۔ آس پاس کہیں کنواں نہ تالاب، دھوپ کی شدت، جان لبوں پر۔ خدا کی قدرت ایک کنواں مل گیا۔ اس میں پانی بھی موجود تھا لیکن شومئی قسمت بوکا گائے کے چمڑے کا۔ رام لعل نے کہا، بھائیو دھرم بھرشٹ نہ ہونے دو۔ پرماتما نے چاہا تو پانی آگے بہت مل جائے گا۔ فوج نے ایک نہ سنی۔ جی بھر کر پانی پیا۔ ایک رام لعل الگ بیٹھا رہا۔ فوج تازہ دم تازہ لب، کمانڈر کے ہونٹوں پر پپڑیاں، تالو میں کانٹے۔

آگے بڑھے۔ آدھا کوس گئے ہوں گے کہ ایک اور کنواں مل گیا۔ ڈول بھی لوہے کا۔ یہاں رام لعل نے پیاس بجھائی۔ مہم سے پلٹے تو راجے نے حالات دریافت کیے۔ ایک ہی رپورٹ ملی سب کی طرف سے ”مہابلی جی! ایک دفعہ ہمارا پانی ختم ہو گیا۔ پیاس کی شدت سے بے حال تھے۔ کہیں پانی نظر نہ آتا تھا۔ اتفاق سے ایک کنواں راہ میں آیا لیکن وہاں بوکا تھا گائے کے چمڑے کا۔ رام لعل نے حکم دیا پانی پی لو۔ ہم نے کہا سردار جان چلی جائے لیکن دھرم بھرشٹ نہ ہو۔ اس نے بہت زور دیا لیکن ہم نہ مانے۔ رام لعل نے اس بوکے کا پانی پیا۔ تھوڑی دور آگے پہنچے تو ہمیں ایک اور کنواں مل گیا۔ اس پر ڈول لوہے کا تھا۔ وہاں باقی فوج نے پانی پیا۔“ تو بھائیو میں رام لعل نہیں بننا چاہتا۔ یہ کہا اور بیٹھ گئے۔

اقبال، قائد اعظم، پاکستان

ڈاکٹر صاحب کی یادداشت غضب کی تھی۔ اور اس یادداشت میں سب سے نمایاں اقبال کے اشعار تھے۔ یوں تو انھیں اکبر الہٰ آبادی سے لے کر جگر اور جوش کے شعر بھی یاد تھے اور انھیں بڑی خوبصورتی سے اپنی گفتگو میں سجاتے رہتے تھے۔ لیکن اقبال کی غزلیں اور نظمیں تو ان گنت یاد تھیں۔ جب فارسی کلام پڑھتے تو مجھ سے کہتے، ڈاکٹر صاحب آپ تو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ بھلا وہ اشعار کیا ہیں۔ انھیں خوش فہمی تھی کہ میں فارسی بہت جانتا ہوں۔

اور اپنا حال یہ تھا کہ شروع میں میں سوچا کرتا تھا کیا یہ اشعار واقعی علامہ ہی کے ہیں۔ جب اقبال کا تفصیل سے اور قند مکرر کے طور پر مطالعہ کرتے رہنے کا ذوق پیدا ہوا تو ڈاکٹر صاحب کی اقبال فہمی اور اقبال شناسی کا اندازہ ہوا۔ بانگ درا کی نظم ”حضور رسالت مآب میں“ کو اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے اور مخصوص مقامات پر رک کر وضاحت کرتے۔ دوسرے بند میں ”کہا حضور نے اے عندلیب باغ حجاز!“ سے آخری شعر ”نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا۔ ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا، پر پہنچ کر رک جاتے اور مخاطب کو داد طلب نگاہوں سے دیکھتے پھر آگے چلتے۔

حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو ایک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں

تان اس پر ٹوٹتی کہ آبرو کے لیے خون بہانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد جنگ طرابلس، فاطمہ بنت عبداللہ، تحریک خلافت، جہاد آزادی، تحریک شہیدین سے چلتے چلتے بدر تک جا پہنچتے۔ بارش کی طرح برستے ہوئے اشعار واقعات میں موتیوں کی طرح جڑتے جاتے۔

قائد اعظم کے واقعات سناتے۔ عقیدت اور محبت کو عقل کے ترازو میں تولتے۔ موتی رولتے، سننے والے سر دھنتے رہتے۔ وہ گھنٹوں بے تکان بولتے رہتے اور سننے والے اکتاہٹ کا ذرا سا احساس بھی نہ کرتے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments