وحید مراد سے جڑی پانچ شہروں کی کہانی!


کوئٹہ
ٹیلی پرنٹر، تب صحافتی ادارے کی بنیادی ضرورت ہوتی تھی کہ اسی کے توسط سے خبروں کا بڑا ذخیرہ ملک بھر سے اخبارات کو میسر آتا تھا۔ اس کی مخصوص آواز اس بات کی گواہی دیتی تھی کہ کہیں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے جو خبر کے زمرے میں آتا ہے۔ ہاں، یہ الگ بات کہ یہ آواز یہ بتانے سے قاصر ہوتی کہ اس کے تعاقب میں آنے والے الفاظ، کس نوعیت کا پیغام لے کر آرہے ہیں۔ ایسا اس لئے بھی محسوس ہوتا ہو گا کہ خبر، عام طور پر وصول کنندہ تک پہنچ کر اپنی نوعیت ظاہر کر سکتی ہے وگرنہ اخبار کے ماحول میں ہر خبر، صرف خبر ہوتی ہے۔

جذبات سے عاری مشین، اس دن بھی روز کی طرح اپنی مخصوص آواز کے ساتھ کبھی بول اٹھتی اور کبھی خاموش ہو جاتی۔ اس کی ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ ہی ڈیسک پر کچھ اور خبروں کا اضافہ ہو جاتا۔ یہ نومبر کی 23 تاریخ تھی اور سال تھا 1983۔ روزنامہ زمانہ کے ٹیلی پرنٹر سے برآمد شدہ تراشوں کے ڈھیر میں چھپی ایک مختصر سی خبر ڈیسک پر آ موجود ہوئی۔ اس پر نظر ڈالتے ہی، بے ساختہ یہ ( انہونی ) خواہش اجاگر ہوئی کہ کاش یہ خبر درست نہ ہو۔

مگر خواہشات، حقائق کے آگے کہاں اپنا وجود برقرار رکھ پاتی ہیں۔ حقیقت وہ ہی تھی جو اس تراشے پر درج تھی۔ سو فوری طور پر یہ حوصلہ نہ ہوا کہ اسے اردو میں ڈھالنے کی ذمہ داری لی جائے۔ ساتھ بیٹھے، ساتھی اور کراچی یونیورسٹی کے کلاس فیلو ( طاہر نور ) کا ردعمل بھی وہ خبر دیکھنے کے بعد مختلف نہ تھا مگر اخبار کی اشاعت کے لئے مختلف خبروں سے وابستہ ذاتی احساسات کو بہر طور قابو میں رکھنا ہی پڑتا ہے،

لہٰذا یہ فریضہ انھیں ہی انجام دینا پڑا۔

کوئٹہ کی سرد شام میں اداس کردینے والی یہ خبر، جہاں جہاں پہنچی، اپنے گردونواح میں گزرے ہوئے کل کو موضوع بناتی چلی گئی۔ پرانی یادیں ذہن کی سکرین پر تصاویر کی صورت متحرک ہونے لگیں اور کیوں نہ ہوں کہ وہ شخصیت جس نے فلم انڈسٹری میں اپنے تخلیقی انداز سے کامیابی اور شہرت کی نئی داستان رقم کی، آنکھیں اس کے عکس اور سماعت اس کی آواز سے کیسے غافل ہو سکتی ہے۔ جانے کتنے ہی منظر نمودار ہو کر ان یادوں میں رنگ بھرتے اور پھر بکھرتے دکھائی دیے۔ دل یہ ماننے کو یکسر تیار نہ تھا کہ اب اس کینوس پر ایسے خوش نما رنگ دوبارہ کبھی اپنی جگہ نہ بنا سکیں گے۔

اوکاڑہ

کینوس پر رونما ہونے والے ان رنگوں کی کہانی درحقیقت اوکاڑہ سے شروع ہوئی اور مڈل اسکول کے طالب علم ہوتے ہوئے، اس وقت یہ بات یقیناً نظروں سے اوجھل تھی کہ آگے جا کر اس کہانی نے کتنے مدارج سے گزرنا ہے۔ اوکاڑہ جیسے چھوٹے شہر میں کم از کم یہ سہولت جی بھر کر میسر آئی کہ سینماؤں پر لگنے والی فلمیں کہیں دیکھنے سے رہ نہ جائیں۔ نہیں معلوم اس صورت حال کے پنپنے میں وہاں دوسری تفریحی سہولیات کا فقدان تھا یا اس عمل میں معاونت، بڑوں کے رجحان سے ہوئی۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ دونوں باتیں ہی اس سمت میں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ پھر ان ہی سینما گھروں میں سے کسی ایک سنیما گھر میں فلم دل میرا دھڑکن تیری نے اپنے اثرات کے حوالے سے اسم با مسمی ہونے کا ثبوت دیا اور دھڑکنوں نے اپنے جھکاؤ کا فیصلہ سنا دیا۔

اس سطح اور نوعیت کے پسند اور ناپسند کے یہ فیصلے بہ ظاہر منطق سے ماورا اور دلیل سے بالا دکھائی دیتے ہیں اس لئے انھیں کیوں اور کیسے کی کسوٹی پر پرکھنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس دوران میں، کئی دوسری فلموں کو دیکھنے کا موقع بھی ملا جیسے سدھیر کی میں زندہ ہوں اور شعلہ و شبنم، ندیم کی آؤ پیار کریں اور سنگدل، محمد علی کی آگ اور تاج محل، کمال کی لو ان یورپ اور شریک حیات اور اعجاز کی درد اور دیا اور طوفان، ان کی چند مثالیں ہیں، وگرنہ یہ فہرست قدرے طویل ہے۔ یہ طویل فہرست بھی دل میرا دھڑکن تیری کے انتخاب پر کسی قسم کا منفی اثر نہ ڈال سکی۔

یوں دل میرا دھڑکن تیری کے بعد تم ہی ہو محبوب میرے، اک نگینہ، زندگی اک سفر ہے اور افسانہ نے، تعلق کی اس کہانی میں مزید رنگ بھرے اور کہا جا سکتا ہے کہ عندلیب اور انجمن سے یہ رنگ پختہ قرار پایا۔ اس تعلق نے کیا کیا اثرات چھوڑے، اس کا احاطہ اب شاید اس طور ممکن نہ ہو مگر اس دور کی یہ علامت کافی ہے کہ ماتھے پر بال بکھرا نے کا شوق جب اچھا لگنے لگے، تو پھر کسی توجیہہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

کراچی

یہ سلسلہ وقت کے ساتھ اظہار کا طالب ہوا، تو بات رسائل اور جرائد میں جذبات پہنچانے سے شروع ہوئی۔ سوال و جواب کا گوشہ ہو یا مراسلات کا کالم، ہر جگہ حاضری لازم ٹھہری۔ اس طرح ملک بھر کے اس قبیل کے اشاعت پذیر لٹریچر تک رسائی کی جستجو میں اضافہ ہوا، اور جہاں جہاں ایسا امکان نظر آیا، اس کے حصول کے لئے اتنے ہی ہاتھ پاؤں مارے گئے۔ اسی چکر میں ہفت روزہ کے لئے، ہفتے بھر کا اور ماہانہ کے لئے، مہینے بھر کا بیتابانہ انتظار، معمول ٹھہرا۔ انتظار کا ہدف ان رسائل و جرائد میں شائع ہونے والی تحاریر بھی تھیں کہ کس اداکار کے لئے کیا لکھا جا رہا ہے اور اس سے اہم، یہ کہ کتنا لکھا جا رہا ہے۔ حمایت اور مخالفت کی معصومانہ تکرار میں، مقدور بھر وکالت سے کب کون پیچھے رہنا چاہتا ہے۔

کمپیوٹر کے عہد میں رہنے والی نسل جس کی خواہش پر آج کمپیوٹر، لمحوں میں، تحریری اور بصری معلومات کا ڈھیر لگا دیتا ہے، وہ شاید یہ تصور ہی نہ کرسکے کہ اس کی ایجاد سے قبل، ہر نوعیت کی اک اک تحریر اور اک اک تصویر، دیکھنے اور پڑھنے والوں کے لئے کس قدر اہمیت کی حامل سمجھی جاتی تھی۔ ان مخصوص رسائل اور جرائد میں بھی مختلف الخیال، اپنی ترجیح اور پسند کے مطابق چیزوں کے متلاشی ہوتے۔ بلاواسطہ اور بالواسطہ مباحث میں اپنے من پسند کے حق میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی جاتی۔ ادھر یہ احساس بھی ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں موجود تھا کہ ہیرو کی تنہائی پسندی اور محتاط طرزعمل، میڈیا سے دوری کا سبب بن رہا ہے۔ اسی مشاہدے کا غالباً یہ نتیجہ تھا جو ملتان میں ظاہر ہوا۔

ملتان

اخبارات اور جرائد میں اظہار خیال کی کوششیں یہاں بھی جاری رہیں۔ حلقہ احباب میں تین اور دوست اسی میدان کے شہسوار ہوئے۔ ان میں اختر عباس قریشی ہم خیال تھے جبکہ طارق اسماعیل جعفر اور سید مہدی حسن ندیم ( مرحوم ) ، اداکار محمد علی کے مداحوں میں تھے۔ وقت کے ساتھ یہ احساس جب اور قوی ہوا کہ اخبارات و جرائد میں ہیرو کی نمائندگی منصفانہ نظر نہیں آتی تو ذہن، ان تراکیب کے تعاقب میں چل پڑا جن کی مدد سے اس کمی کا ازالہ ہو سکے۔

اس وقت اس بات کا قطعی اندازہ نہ تھا کہ یہ عمل، مستقبل میں رجحان ساز صورت اختیار کر لے گا۔ شبانہ روز ذہنی مشقت کارگر ثابت ہوئی اور یہ خیال سامنے آیا کہ منظم ہو کر شاید مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں۔ یہ وہ موڑ تھا جہاں آل پاکستان وحیدی کلب کی بنیاد رکھنے کا طے ہوا۔ پہلے اس کے لئے کئی نام ذہن میں آئے جن میں ایک نام فدائین وحید بھی تھا۔ ( شاید یہ سوچ ان دنوں فلسطینیوں کی نمایاں کارروائیوں سے متعلق نمایاں خبروں کا عکس تھی ) ۔

وحیدی کلب کے نام میں، ہیرو کے گھریلو نام ( ویدو) کے صوتی اثرات موجود تھے، سو، یوں یہ نام فائنل ہوا۔ اب دوسرا مرحلہ اپنی نوعیت کی اس پہلی تنظیم کے اعلان کا تھا جس کے لئے ہفت روزہ نگار کراچی کا سہارا لیا گیا۔ یہ امر آج بھی حیران کن ہے کہ محکمہ ڈاک کے محدود رابطے کے عہد میں یہ خبر خوشبو کی طرح اس تیزی سے کیسے پھیلی۔ کیوں کر پاکستان بھر میں ایک دوسرے سے رابطے ہوئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے فاصلے قربت میں سمٹ آئے۔ جس ہیرو نے اداکاری کی دنیا میں نیا انداز متعارف کرایا، تب یہ احساس تک نہ تھا کہ یہ نئی ریت ڈالنے کا اعزاز بھی اس کے پرستاروں کے ہی حصے میں آ جائے گا۔ خوش گوار ردعمل میں، اس اعلان کے بعد دوسرے فنکاروں کے نام سے بھی تنظیموں کا قیام عمل میں آیا۔

وحیدی کلب جلد ہی سینماؤں اور فلم بینوں کے سب سے بڑے مرکز کراچی منتقل ہو گیا۔ یہاں اس کے دو اولین ارکان زاہد حسین احمد اور شفیع احمد کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ یہ دونوں بھائی رام سوامی کراچی کے رہائشی تھے اور کلب کے اعلان ہوتے ہی اس میں شامل ہوئے مگر دونوں کی زندگی نے وفا نہ کی۔ کراچی میں ملیر، لیاقت آباد اور لانڈھی کورنگی، کلب کے بڑے مراکز ثابت ہوئے۔ پہلا مرکزی دفتر شمشاد حسین کی متحرک قیادت میں ملیر میں قائم ہوا۔ مختلف جگہوں پر شاخیں بنیں۔ تنظیم کے آغاز کے بعد اب تنظیم کی تصدیق کا مرحلہ درکار تھا جس کے لئے لاہور منزل ٹھہری۔

لاہور
گلبرگ کا رہائشی علاقہ اور اتوار کا دن۔

اس ملاقات میں شمشاد حسین، شفیع احمد مرحوم اور گلزار شریک تھے۔ سکرین سے باہر، سکرین کی شخصیت کچھ الگ ہی مزہ دیتی ہے اور یہی صورت حال اس وقت مقابل تھی۔ اس مختصر مکالمے میں جانے کیا کچھ نمایاں ہوتا دکھائی دیا۔ گفتگو میں اختصار کسے کہتے ہیں، اس کا بھی فوری اندازہ ہوا۔ صاف گوئی سے کیسے بات کی جاتی ہے، یہ بھی تجربے میں آیا۔ اختلاف رائے کو کیسے جگہ دی جانی چاہیے، اس کا بھی مشاہدہ ہوا۔ اپنے نقطہ نظر میں دلائل کو سلیقے سے سمونے کا ہنر بھی دیکھا۔ اس طرح مختلف فلمی اور تخلیقی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کلب کے لئے تحریری تائید حاصل کی گئی۔

1983 میں بچھڑنے والے ہیرو کے لئے اب بھی دل اسی طرح دھڑکتے ہیں، 2022 میں انتالیسویں برسی کے موقع پر فلمی شائقین، ناقدین اور مبصرین کی اس حیرت کا یہی جواب ہو سکتا ہے کہ منفرد ہیرو کے پرستار بھی منفرد ہی ثابت ہوئے۔ پرستاروں کی تخلیق آل پاکستان وحیدی کلب سے آگے چل کر کئی چشمے اور پھوٹے، اور سب نے اپنے اپنے انداز سے عقیدت کے اظہار کے لئے جداگانہ راستہ اختیار کیا۔ آج بھی کراچی اور آبائی شہر سیالکوٹ کی طرف سے خاص طور پر یادگار تقاریب کا انعقاد ایک مستند روایت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

بعد از حیات، جس تواتر اور تسلسل سے، مختلف صورتوں میں پرستاروں کی وابستگی کا مظاہرہ ہوتا آیا ہے وہ بلاشبہ فلمی تاریخ کا انوکھا باب ہے۔ اس سلسلے میں ہیرو کے نام سے منسوب ایوارڈز کا اجرا اور سرکاری سرپرستی کے بغیر دس سال تک ان ایوارڈز کی تقسیم، ناقابل یقین حقیقت دکھائی دیتی ہے۔ بچھڑنے والے کی انفرادیت میں اب نئی نسل نے شامل ہو کر مزید نئے رنگ شامل کر دیے ہیں۔ انھوں نے ہر چند کہ ہیرو کو بڑی سکرین پر نہیں دیکھا، مگر چھوٹی سکرین سے ہی بڑی رائے قائم کر لی ہے اور سوشل میڈیا میں اپنی موجودگی اور تیکنیکی صلاحیت سے خراج عقیدت کے نئے سے نئے اسلوب متعارف کرانے کا سلسلہ شد و مد سے جاری کر رکھا ہے۔

 

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments