بلوچستان: اپنے تین بھائیوں کے قتل میں قید چوتھا بھائی باپ کے معاف کرنے پر رہا


Crime
فائل فوٹو
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک عدالت نے راضی نامے کے باعث تین بھائیوں کے قتل کے مقدمے سے چوتھے بھائی کو بری کرنے کا حکم صادر کردیا ہے۔

تین بھائیوں کی ہلاکت کا واقعہ رواں برس 26 ستمبر کو کوئٹہ شہر میں پیش آیا تھا اور ان کا گھریلو ملازم فائرنگ سے زخمی ہوا تھا۔

اگرچہ تینوں بھائیوں کی ہلاکت کا مقدمہ ان کے والد نے نامعلوم افراد کے خلاف درج کرایا تھا تاہم پولیس نے قتل کے الزام میں ان کے چوتھے بھائی قیس خان کو گرفتار کرکے مقدمے کا چالان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس کوئٹہ میں دائر کیا تھا۔

بلوچستان کے پراسیکیوٹرجنرل ساجد ترین ایڈووکیٹ نے بتایا والدین نے اپنے تینوں بچوں کے قتل کو معاف کیا اور اس سلسلے میں راضی نامہ عدالت میں جمع کیا جس پر عدالت نے انھیں مقدمے سے بری کردیا۔

ہلاک کیے جانے والے بھائی کون تھے؟

ہلاک کیے جانے والے تینوں سگے بھائی سیدال خان، زریان خان اور زرنگ خان کوئٹہ شہر میں رہائش پزیر آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر ناصرخان اچکزئی کے بیٹے تھے۔

ان میں سے دوبھائی نوجوان تھے تاہم زرنگ خان کی عمر آٹھ برس کے لگ بھگ تھی۔
ڈاکٹر ناصر خان اچکزئی کے کزن ڈاکٹر بہرام خان اچکزئی کے مطابق سیدال خان ان میں سب سے بڑا تھا جنھوں نے انجنیئرنگ یونیورسٹی خضدار سے حال ہی میں انجنئیرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔

ان کا کہنا تھا مارے جانے والے دوسرے دونوں بھائی بھی تعلیم حاصل کررہے تھے۔

تینوں بھائیوں کی ہلاکت کا واقعہ کوئٹہ شہر میں کہاں پیش آیا تھا؟

امیر محمد دستی پولیس سٹیشن کوئٹہ کے ایس ایچ جاوید بزدار نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ تینوں بھائیوں اور ان کے ملازم اسفند کو جائنٹ روڈ پر واقع ریلوے ہاﺅسنگ سوسائٹی کے علاقے میں گولیاں ماری گئی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ تمام لوگ ایک گاڑی میں تھے اور اس گاڑی میں وہ اپنے گھر کی جانب جا رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تینوں بھائیوں کو مارنے والا ان کا اپنا بھائی قیس خان تھا جو کہ عمر کے لحاظ سے ان میں تیسرے نمبر پر تھا اور وہ بھی ان کے ساتھ اسی گاڑی میں سوار تھا۔

انھوں نے بتایا کہ جس مقام پر تینوں بھائیوں کوگولیاں ماری گئیں وہ ان کے گھر سے تقریباً آدھے کلومیٹر یا اس سے بھی کم فاصلے پر تھا۔

ایس ایچ او نے بتایا کہ ملزم پچھلی نشست پربیٹھا تھا اور وہاں سے ہی انھوں نے باقی لوگوں کوگولیاں ماری تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس میں ملزم کے تینوں بھائی ہلاک ہوئے جبکہ ملازم کو ایک گولی لگی تھی، جس سے وہ زخمی ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ ملازم بھی بچہ ہے اور ان کو بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر گولی لگی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ گولیاں چلانے کے بعد ملزم پہلے اپنے گھر کی جانب گیا تھا اور گھر میں اطلاع دی تھی کہ گاڑی پر فائرنگ ہوئی۔

Crime

لوگوں کے جمع ہونے پر زخمی ہونے ملازم بچہ گاڑی سے نکل گیا تھا

ایس ایچ او نے بتایا کہ ملزم سارے لوگوں کو گولی مارنے کے بعد جب گھر کی جانب گیا تھا تواس دوران لوگوں کی بڑی تعداد گاڑی کے باہر جمع ہوگئی تھی۔

ایس پی صدر نوید عالم نے بتایا کہ ملازم بچہ زخمی ہوا تھا لیکن وہ ہوش میں تھا اور جب لوگ جمع ہوئے تھے تو وہ اس وقت گاڑی سے نکل گیا تھا۔

ایس پی صدر پولیس کوئٹہ نوید عالم نے بتایا کہ قیس خان کا یہ خیال تھا کہ ملازم بھی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا ہوگا لیکن وہ زندہ تھا اور شاید زخمی ہونے کے علاوہ وہ خوف کی وجہ سے نیچے گرگیا ہوگا جس کی وجہ سے ملزم نے یہ سمجھا کہ وہ زندہ نہیں ہے۔

پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ ‘ملزم نے گھر پر سب کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ گاڑی پر کسی اور نے فائرنگ کی ہے’
۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ قیس کے پاس پسٹل پہلے سے موجود تھا لیکن گھر میں اطلاع دینے کے علاوہ انھوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی تھی کہ پسٹل ان کے پاس پہلے سے نہیں تھا بلکہ واقعے کے بعد انھوں نے پسٹل اس وقت گھر سے ا ٹھا لیا جب وہ اطلاع دینے آگیا۔

انھوں نے بتایا اس تاثر کو مزید قوی کرنے کے لیے کہ گاڑی پر حملہ کسی اور نے کیا اور انھوں نے پسٹل کو ابھی گھر سے اٹھا یا ہے انھوں نے گھر سے نکلنے کے بعد دو فائر بھی کیے تھے۔

ملزم تک پہنچنے میں کونسے دو شواہد مددگار ثابت ہوئے تھے؟

ایس پی صدر پولیس نے بتایا کہ دو طریقے سے ہم اس بات کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ تینوں بچوں کا قاتل ان کا چوتھا بھائی ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تینوں لاشوں کو ہسپتال پہنچایا گیاتو ملزم قیس بھی وہاں موجود تھا۔

انھوں نے کہا کہ چونکہ وہ پولیس کے لیے سب سے اہم اور بڑا عینی شاہد تھا اس لیے واقعے کی ابتدائی تفتیش کے لیے اسی سے پوچھ گچھ شروع کی گئی۔

‘اس واقعے کے بارے میں ابتدائی تفتیش کے موقع پر قیس نے جوبیان دیا تو وہ پولیس کو تھوڑا سا مشکوک لگا، جس پر تفتیش کا دائر وسیع کیا گیا، جس کے دوران ملزم نے یہ اعتراف کرلیا کہ انھوں نے ہی اپنے بھائیوں سمیت ملازم پر فائر کیا’۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ زخمی ملازم بچے سے تفتیش سے پہلے ہی پولیس یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوئی تھی کہ ملزم اپنے بھائیوں کے قتل میں ملوث ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ملازم بچہ نہ صرف خود زخمی تھا بلکہ اس واقعے کے باعث وہ بہت زیادہ خوفزدہ بھی تھا اس لیے ان سے اس وقت اس واقعے کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں جب ان کی حالت بہتر ہوئی۔

‘ملازم بچے نے بھی یہ بتایا کہ قیس نے ہی نے گاڑی میں ان پر اپنے بھائیوں پر گولیاں چلائی تھی’۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دو شواہد کی بنیاد پر پولیس بہت جلد ملزم تک پہنچ گئی اور ان کو گرفتار کرلیا گیا۔

Crime

یہ بھی پڑھیے

کراچی میں کمسن بچی کا مبینہ ریپ کے بعد قتل: ’میری بیٹی کا چہرہ تشدد سے سیاہ ہو چکا تھا‘

وقاض گورایہ: ’کرائے کا قاتل‘ برطانوی شخص پاکستانی بلاگر وقاص گورایہ کے قتل کی سازش کا مجرم قرار

کوئٹہ میں سات سال کی بچی نے اپنے بہن بھائیوں کے قتل کے ملزم کو ’تصویر سے پہچان لیا‘

چاروں بھائی اور ان کے ملازم کہاں سے آرہے تھے؟

ایس پی صدر نے بتایا کہ پانچوں لوگ ایک شادی کی تقریب سے واپس گھر آ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر کے اندر ایک میرج ہال میں شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد وہ ایک ہی گاڑی میں سوار ہوئے تھے۔

پولیس افسر کے مطابق ان میں سے بڑا بھائی گاڑی چلا رہا تھا جبکہ سب سے چھوٹا ان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پربیٹھا تھا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ملزم، ان سے ان کا بڑا بھائی اور ملازم پچھلی نشست پر بھیٹے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر سے کچھ فاصلے پرملزم نے پسٹل نکال کران پر گولی چلائی تھی۔

ملزم نے تفتیش میں پولیس کو بھائیوں کو ہلاک کرنے کی کیا وجہ بتائی؟

ایس پی صدر نے بتایا کہ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ ان کو اپنے دو بڑے بھائیوں سے رنج تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے بھائی ان کو ہر بات پرٹوکتے تھے اور منع کرتے تھے کہ یہ نہ کرو اور وہ نہ کرو۔

انھوں نے کہا کہ ملزم کو اس بات پر غصہ تھا کہ وہ کیوں ان کو ہر بات ٹوکتے ہیں اس لیے انھوں نے ان کو ماردیا۔

‘قصاص و دیت آرڈینینس کے تحت والدین کو قتل معاف کرنے کا اختیار ہے’

ملزم کی گرفتاری کے بعد مقدمے کا چالان ملزم قیس خان کے خلاف ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فائیو کوئٹہ کی عدالت میں جمع کیا گیا تھا۔

پراسیکیوٹر جنرل ساجد ترین ایڈووکیٹ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران بچوں کے والدین عدالت میں پیش ہوئے تھے اور یہ بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے تینوں بچوں کے قتل کو معاف کیا ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ طور پر راضی نامہ عدالت میں جمع کیا تھا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسداللہ خان نے پیر کے روز مقدمے پر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو راضی نامے کی بنیاد پر مقدمے سے بری کردیا۔

ساجد ترین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ قصاص و دیت آرڈینینس کے تحت اگر والدین زندہ ہوں توکم سن یا غیر شادی شدہ بچوں کے قتل کو معاف کرنے کا اختیار والدین کے پاس ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ چونکہ والدین کو معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے جس کے تحت انھوں نے تینوں بیٹوں کو معاف کیا اور عدالت نے اس کی بنیاد پر ان کے چوتھے بیٹے کو بری کردیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments