میری کہانی – صحافی بننے کا سفر


میرے بھائی بتاتے ہیں کہ۔ سن 2000 سے قبل ہم مورو شہر میں رہا کرتے تھے جو کہ حیدرآباد سے سکھر جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے۔ میری دو بہن اور ایک بھائی مجھ سے بڑے تھے میں سب سے چھوٹا تھا۔ رشتے داروں کے گھر تو وہاں قریب نہیں تھے کیوں کہ ہمارا تقریباً پورا خاندان اور سب رشتے دار ضلع شکارپور کے تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں عاقل خان جعفری میں آباد تھے۔ ہمارے گاؤں کا نام میرے والد صاحب کہ چاچا (عاقل خان) کے نام پہ تھا۔

مالی اعتبار سے ہمارا گھرانا خوشحال تھا۔ کیوں کہ گاؤں میں اپنی زمینیں تھی جو کہ میرے چاچا لوگ سنبھالتے تھے۔ بابا پی ٹی وی نیوز میں (ٹی وی انجینیئر) تھے اور مورو شہر کے قریب ہی نور پور میں واقع (پی ٹی وی نیوز) کے بوسٹر پر نوکری کرتے تھے۔ اس سے قبل بابا پی آئی اے میں ملازم رہ چکے تھے لیکن کراچی کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے اور پی ٹی وی میں آفر آنے کی وجہ سے مورو منتقل ہوئے۔ گاؤں میں کچھ قبائلی تکرار بھی تھے جس کی وجہ سے ہماری پوری فیملی وہاں نہیں جاتی تھی اس سے قبل میرے ایک چاچا کو 1999 میں قتل کر دیا گیا تھا جس کا نام ”ممتاز“ تھا اور اس کے بعد جب سن 2000ء میں میری پیدائش ہوئی تو ان سے منسلک میرا نام بھی ممتاز رکھ دیا گیا، لیکن گھر میں سب پیار سے ”بابل خان“ کے نام سے پکارتے تھے اور یہ ہی سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ بہت سارے رشتے داروں کو تو آج تک میرے اصل نام کا علم نہیں۔

وقت گزرتا رہا۔ 15 شعبان کی عید بیت نزدیک آ چکی تھی میرے چھوٹے چاچو غلام سرور اور کچھ گاؤں کے رشتے دار عید کرنے ہمارے پاس (مورو) تشریف لائے تھے ویسے بھی گاؤں سے کوئی نہ کوئی ہمارے گھر آتا تھا، موبائل کا دؤر نہیں تھا تو کسی بہت ضروری کام سے خاندان والے یا رشتے دار اکثر وہاں آیا کرتے تھے۔

31 اکتوبر 2001، 15 شعبان عید کی رات تھی سب تیاریوں میں مصروف تھے ہمارے گھر میں بھی خوب تیاریاں ہو رہی تھی کوئی گھومنے کے لیے جانے کا کہہ رہا تھا تو کوئی قلندر لعل شہباز پے حاضری بھرنے کا کہہ رہ تھا کسی کے علم میں نہیں تھا کہ کچھ دیر بعد ہمارے اوپر ایک بڑی مصیبت رونما ہونے والی ہے۔ اب شام کا وقت ہو چکا تھا بابا گھر سے عصر کی نماز پڑھ کر آفس کے لیے روانہ ہوئے اور صبح گھومنے جانے کا بھی بولا۔ مورو سے نور پور ادھے گھنٹے کا سفر ہے تو یہ وقت گزرنے کہ بعد اچانک خبر آئی کہ پی ٹی وی کی گیٹ پر ایک افسر کو قتل کر دیا گیا۔ جب پی سی او آفس سے کال کر کہ پوچھا تو پتہ چلا کہ رحمت اللہ جعفری کو قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہمارے گھر میں عید کی خوشیاں ماتم میں تبدیل ہو گئی۔ اور وہ دن ہمارا آخری دن تھا اس شہر میں۔

ایک سال کا تھا تو والد صاحب کے جانے کہ بعد میری والدہ کا سایہ ہم سب پہ ہمیشہ رہا اور ماں تو ماں ہوتی ہے لیکن اللہ کی رحمت سے ہمارے تمام چاچا لوگوں نے بھی کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ ویسے تو ہمارے گاؤں میں جو بچے یتیم بن جاتے ہیں تو انہیں کھیتی باڑی میں لگا کر ہمیشہ کے لیے یہی ان کی زندگی کا مقصد بنا دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے گھر میں سب تعلیم یافتہ تھے تو ہمیں بھی اس نقش قدم پہ چلنے کے لیے 2006 میں گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخلہ کروا دیا گیا۔ پرائمری اسکول میں پڑھنے جاتا تھا اور ابھی سے خاندان میں پڑھا لکھا مشہور ہو گیا تھا۔ خاندان میں بھی اسی نظر سے دیکھا جانے لگا تھا کہ میں پڑھ لکھ کر اپنے مرحوم والد کا نام روشن کروں گا۔ سارے رشتے داروں کے گھر
ہی قریب تھے دلوں میں بھی فاصلہ نہ تھا۔ سب روزانہ ملتے تھے ایک دوسرے کے حالات، دکھ سکھ اور اونچ نیچ سے واقف تھے۔ شام کو بزرگ اور درمیانی عمر کے لوگ گاؤں کی بیٹھک (اوطاق) پر جمع ہوتے اور باتیں کرتے تھے۔

2010 میں دس سال کا ہو چکا تھا پانچویں جماعت میں پڑھ رہا تھا کہ اس دوران پورے سندھ کو سیلاب نے گھیر لیا۔ ہر روز ٹی وی پر خبریں آتی تھی کہ سندھ کہ کچھ اضلاع کو خالی کرنے کا کہا جا رہا ہے خطرہ بڑھ رہا تھا پانی کا دباؤ زیادہ تھا، لیکن کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارے تحصیل تک پانی نہیں آئے گا۔ سیلاب کی حقیقت کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس کا اعلان کر دیا گیا۔ اسی دوران کچھ واقعات بھی سننے میں آئے اور پانی نزدیک پہنچ چکا تھا تو مجبوراً گاؤں چھوڑنا پڑا۔ شکارپور شہر کی طرف منتقل ہوئے۔ ویسے بھی شہر میں پہلے سے میرے ایک چاچا رہتے تھے اور کچھ رشتے دار بھی لیکن اس بار پورا خاندان وہاں منتقل ہوا۔

اس دوران میں نے وہاں پانچویں جماعت میں ایک نجی سکول میں دوبارہ داخلہ لی۔ پانی کا گھیراؤ ختم ہونے کہ بعد سب لوگ گاؤں کی طرف واپس چلے گئے تھے۔ ہمارے گھر والے بھی کچھ چلے گئے تھے کچھ شکارپور میں ہی رہنے لگے کیوں کہ سب گورنمنٹ ملازم تو تھے ویسے بھی۔

دسویں کے بعد بارہویں کے لیے میں نے شکارپور کے ڈگری کالج میں داخلہ لی۔ پری میڈیکل میں ڈاکٹر بننے کا سوچ میرے ذہن پر بھاری تھا اسی سوچ سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد (انٹری ٹیسٹ ) کی تیاری کہ لیے کراچی پہنچ گیا۔ اس دوران میرے بڑے بھائی بھی اسلام آباد سے بدلی ہو کر کراچی آ چکے تھے۔ میرے بڑے بھائی میرے والد مرحوم کی جگہ (پی ٹی وی نیوز) میں بھرتی ہوئے تھے۔

ٹیسٹ کی تیاری کے لیے کراچی کے نامور سینٹر میں داخلہ ہونے کہ بعد بھی بدقسمتی سے میڈیکل کی ٹیسٹ پاس نہیں کر سکا۔ وہ کہتے ہیں جو نصیب میں ہوتا ہے ملتا ہے۔ کچھ وقت کہ لیے تو میں ذہنی طور پر پریشانی میں مبتلا ہو چکا تھا کہ شاید اب کچھ نہیں رہا زندگی میں۔ لوگوں کے طعنے، سوالات نے میرے دماغ پر بہت بوجھ بنا دیا تھا۔ میں اکثر خود سے سوالات کرتا رہتا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیوں ہو رہا ہے۔ خود سے خود باتیں کرنے لگتا تھا۔

کچھ وقت گزرا تو سال 2018 میں جامعہ کراچی میں داخلہ فارم جمع کرانے کے لیے اشتہار آ چکا تھا۔ اب تھوڑا ذہنی سکون مل چکا تھا کہ شاید اس بار میں ان لوگوں کو تمام سوالات کے جوابات دے سکوں۔ ٹیسٹ ہونے کہ بعد میں واپس شکارپور چلا گیا۔

کچھ دن گزر چکے تھے سب نارمل ہو چکا تھا کہ اچانک ایک دن میرے رشتے دار نے فون کیا کہ بھائی مبارک ہو۔ میں پریشان ہوا اور سوال کرتے ہوئے کہا کہ ”کیا بات ہے بھائی مجھی بتاؤ تو“ خوشی کہ ساتھ کچھ گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی۔ اس رشتے دار نے دراصل میرے ساتھ ہی جامعہ کراچی میں داخلہ کے لیے ٹیسٹ دیا تھا۔ میرے سوال پہ اس نے بتایا کہ یونیورسٹی میں داخلہ کی لسٹ لگی ہے اور تمہارا نام آیا ہے اور وہ بھی تمہارے پہلے انتخاب کے شعبے ”ماس کمیونیکیشن“ میں۔ وہ دن میرے زندگی کا خوبصورت ترین دن تھا خوشی کے مارے سب کو بتا رہا تھا کراچی کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ کراچی میں میری داخلہ ہوئی ہے۔

اور آج یونیورسٹی میں چار سال کہ اختتام پہ یہ کہانی لکھی ہے۔

(بیٹا آپ نے زندگی میں بہت سی اونچ نیچ دیکھ لی ہے۔ صحافت انسانوں کی خدمت کا شعبہ ہے۔ کوشش کرنا کہ آپ کی کارکردگی سے آپ کے والد کی روح کو اطمینان نصیب ہو۔ مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments