عکسی مفتی نے ”محمد ﷺ“ لکھ کر ہم جیسے پڑھے لکھے جاہلوں پر احسان کیا ہے


پاکستانی قوم کو عکسی مفتی کا مشکور ہونا چاہے کہ انہوں نے لوک ورثہ جیسا شاندار تحفہ اسے دے کر ثقافتی سطح پر کچھ تھوڑا سا معتبر کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1986 سے 1990 تک میرا بھی شمالی علاقہ جات میں آنا جانا مسلسل رہا۔ تب راستے بڑے دشوار گزار تھے۔ میں جہاں جاتی عکسی بارے سنتی۔ تب ان دور افتادہ علاقوں کی وادیوں میں گھومنا، لوک موسیقاروں کو کھوجنا، مقامی شاعروں اور داستان گو لوگوں کی تلاش، نادر اور نایاب قدیم اشیاء کے حصول کے لیے دربدری انھوں نے اپنے لیے مقدر کرلی تھی۔ پھر انہی پر ہی اکتفا نہیں ہوا۔ پاکستان کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہا جہاں وہ نہیں گئے اور جس کا اثاثہ انہوں نے میوزیم میں اکٹھا نہیں کیا۔

سچ تو یہ ہے کہ ان سینہ گزٹ قصے کہانیوں اور خواتین کی فوک شاعری کو کتابی اشکال میں لانا اور اس میوزیم کو اس پائے کا بنانا کہ جہاں پاکستان منی صورت میں موجود ہو ان کا گرانقدر کارنامہ ہے۔ عام آدمی اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔ مگر وژن رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کی موجودگی کسی قوم کو ثقافتی سطح پر کتنا امیر بنا دیتی ہے۔ سیاحت جو آج کی دنیا میں زرمبادلہ کمانے کا چوتھا بڑا ذریعہ ہے۔ کوئی بھی ملک کمائی کے لیے ان ورثوں کا محتاج ہی نہیں ان پر نازاں بھی ہوتا ہے۔

عکسی مفتی کی شخصیت کی بے شمار جہتیں ہیں۔ وہ لکھاری ہیں، تحقیق کار ہیں، دانشور ہیں۔ ممتاز مفتی جیسے صاحب علم کے بیٹے جن سے انہیں وراثت میں دانش وری، تصوف اور جستجو جیسے عناصر بھی ملے۔

حال میں ہی چھپنے والی ان کی نئی کتاب ”محمدﷺ“ جو انگریزی میں ہے مجھے کچھ دن پہلے ملی۔ ایک بہت بڑی کتاب۔ یاد آیا تھا۔ انہوں نے فلسفہ اور نفسیات جیسے مضامین کو صرف ڈگریوں کے لیے نہیں پڑھا بلکہ یورپ کے جدید و قدیم فلاسفروں کا گہرا مطالعہ کیا۔ مختلف ادیان کے تقابلی جائزوں کے بعد انہوں نے جب برصغیر کے صوفی شعرا کو پڑھا تو ان پر اسرار کی وہ وہ گتھیاں کھلیں کہ جنہوں نے انہیں احساس دلایا کہ وہ کہاں بھٹکتے پھر رہے تھے۔ ”اللہ“ ان کی تخلیق پہلے ہی مقبولیت کی سند لے چکی ہے۔

محمد ﷺ پر قلم اٹھانے پر مائل کرنے والے متعصب مغربی مصنفین ہی نہیں تھے۔ مسلم دنیا کے رجعت پسند علماء اور برصغیر کے نام نہاد ترقی پسندوں کی تحریروں نے بھی مائل کیا ہو گا کہ وہ اس ہستی پر لکھیں ان سب شہادتوں کے ساتھ جو مستند ہیں پر جو صحیح ترجمے کی رسائی نہ ملنے باعث نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ انہوں نے اسے لکھنا اور صحیح چہرہ دنیا کو دکھانا بہت ضروری سمجھا۔

مفتی تمہارے اوپر اللہ کی عنایات ہوں کہ تم نے اس مشکل کام کا بیڑہ اٹھایا اور سرخرو ہوئے۔ دنیا میں اور یقیناً آخرت میں بھی۔

پہلا باب مغربی اور مشرقی تہذیبوں کے موازنے کرتا ہے۔ اس جائزے کا کیا منفرد اور دلکش انداز ہے۔ زندگی کے وہ پہلو جن کا تعلق خواہ تمدن سے ہو، معاشرتی اقدار سے یا مذہبی، سماجی و ثقافتی پہلووں سے ان کا تقابل اور بیانیہ جس حسن و خوبصورتی سے سامنے آیا ہے۔ اس نے سچی بات ہے سرشاری میں بھگو دیا۔

یہاں میں بے شمار مثالوں میں سے صرف ایک کا حوالہ دوں گی۔

مشرقی تہذیبی خد و خال میں خوئے تسلیم کا اہم کردار ہے۔ بیشتر مشرقی مذاہب تصوف اور راہبانہ طریق کے داعی ہیں۔ ان کے ہاں ہر نوع کے معاملات میں عفو اور درگزری بہترین خیال کی جاتی ہے جب کہ ساہوکارانہ تہذیب کی حامل مغربی دنیا ظالمانہ حد تک موقع پرست، اپنے اطوار میں تند، جارحانہ اور اپنی بات پر ثابت قدمی سے کھڑی ہونے والی ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ مغربی معاشرے میں رحم، خدا ترسی اور انسانی اقدار کی کمی ہے۔ میں ان دونوں تہذیبوں کے موازنوں میں منصف بھی نہیں۔ میرا ان دونوں دنیاؤں کے باسیوں کا صرف ایک طائرانہ سا جائزہ ہی ہے کہ مغرب فرد کی ذات کو انفرادی حیثیت اور اسے اپنی بات کہنے اور اس پر کھڑے رہنے کا حق دیتی ہے جب کہ مشرق میں اجتماعیت کی اہمیت اور فرد کی ذات کی نفی ہے۔ یعنی ”سر تسلیم خم کرنا ہے“ میں نجات ہے۔

اب اس اکلوتی دنیا میں اس طرح کے ڈرامائی اختلافات اور بھیدوں پر تعجب کا اظہار بھی فطری ہے۔ دلیل جو سائنس ہے اس کا جواب دیتی ہے مگر وہ بھی ایک مقام پر آ کر بے بس ہوجاتی ہے اور پھر ان بھیدوں کا رخ مذہب کی جانب مڑتا ہے۔ قرآن مجید اس حقیقت کو رب المشرقین اور رب المغربین، عالم اشہادہ اور عالم الغیب کی صورت بیان کرتا ہے۔ یہ تخلیق کی وہ صورتیں ہیں جو متوازی چلتی ہیں اور ایک دوسرے کی متضاد ہیں۔ ایک مادی حقیقت ہے دوسری روحانی۔

روحانی دنیا، حقیقت کی دنیا کی اقدار کے لیے قاعدے کلیے وضع کرتی ہے۔ دنیا میں موجود مذاہب اور ان کے رہنماؤں کے فرمودات کیا کہتے ہیں؟ اور اپنے پیروکاروں کو وہ کیا لائحہ عمل دیتے ہیں سب کا ذکر عکسی نے جس انداز میں کیا ہے۔ اس میں حسن ہے، اختصار ہے اور جامعیت ہے۔

یہاں اس تقابلی جائزے میں وہ محمد ﷺ کو Pragmatic لکھتے ہیں یعنی وہ حقیقت پسند شخصیت تھے کہ دنیاوی زندگی اور اس کے رنگ و بو اور آسائشوں کو یکسر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے انہوں نے دینی اور دنیاوی معاملات میں میانہ روی کو پسند کروایا۔ اس جیسی صفت سے عکسی مذہبی رہنماؤں میں ان کے فرمودات اور ان کے اعمال کی روشنی میں محمد ﷺ کی انفرادیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہاں وہ کہتے ہیں کہ خدا کے کسی پیغمبر، کسی گورو نے دنیا کو اس انداز میں پیش نہیں کیا۔

باب چار سے پیغمبر کی زندگی کا آغاز ہے اور یہ آغاز بڑا منفرد ہے، دلچسپ ہے، روایتی انداز سے منحرف ہے۔ غار حرا میں عطائے پیغمبری کی دلکش تصویر سے منظر نامہ کھلتا ہے۔ واپسی پر اظہار کی صورتیں۔ ٹکراؤ میں تجزیاتی جائزہ ہے۔ پیغمبروں کی مماثلت میں بت شکنی، ہر عہد کی مروجہ زبان میں ان کی بول چال اور اسی میں الہامی کتب کا نزول۔ وقت کے لوگوں کی ان کے خلاف نفرت اور تعصب جیسے مشترکہ حقائق سامنے آتے ہیں۔

صحرائی زندگی، قریش قبائل کا تعارف، ان کی مذہبی، معاشرتی، ثقافتی اور ادبی زندگی کی مختصر جھلک ہے۔

محمدﷺ کی زندگی کا ہر باب ایک نئے رنگ و آہنگ سے شروع ہوتا ہے۔ منفرد انداز جو فی الفور آپ کو قابو کرتا ہے۔ واقعات آپ کے جانے پہچانے ہیں کہ ہوش سنبھالنے سے بوڑھے ہونے تک آپ نے کسی نہ کسی رنگ میں انہیں پڑھا ہے۔ مگر آفرین ہے عکسی پر کیا ادبی رنگ چڑھایا ہے ان پر۔ کیا فسوں خیزی بکھیری ہے صفحات پر۔ ابراہیم ؑ کی کہانی کا حسن اور محمد ﷺ کا متاثر ہونا۔

بیانیے کا انداز دل نشین ہے۔ عکسی آخر ہے کس باپ کا بیٹا۔ ممتاز مفتی جیسے بڑے ادیب کا جن کی اردو پڑھنے والی دنیا دیوانی ہے۔ عکسی کتابی علوم کا شہنشاہ ہے۔ مشاہدے کا علمبردار ہے۔ مختلف النوع ثقافتوں اور قلم و فن کا اثاثہ رکھنے والا ایک دنیا گھوما ہوا انسان۔ ایسا بندہ جب قلم اٹھاتا ہے تو پھر تحریر کا شاہکار بننا لازم ہوجاتا ہے۔

محمد ﷺ کی شادیاں وہ اہم باب ہے جس کی عالمی سطح پر دلائل کے ساتھ وضاحت کی ضرورت ہے کہ مغرب تو رہا ایک طرف مشرق کے متعصب غیر مسلموں کو بھی گولی مارو یہاں تو پاکستان کی ترقی پسند عورتیں ہی نہیں مانتیں۔ کراچی میں اس نوع کے تماشے نے تو مجھے دہلا کر رکھ دیا تھا۔

ان اعتراضات کو اس دور کے زمینی حالات اور ماضی بعید سے لے کر اس وقت تک اور اب تک کی دنیا کے معاشروں کے اندر وقوع پذیر ہونے والی تمدنی، سماجی، معاشرتی زندگی کی تصویروں کو سکہ بند تاریخی دلائل کے ساتھ جس خوبصورتی سے لکھا گیا ہے وہ یقیناً کمال کا ہے۔

محمد ﷺ کی کم سن عائشہ ؓ سے شادی کے مقدمے کو تفصیلاً پیش کرتے ہوئے اس کا اختتام ان سطور کے ساتھ ہوتا ہے۔

Muhammad ’s marriage with young Aisha was not an ordinary wedlock, it was intended by destiny and divinely ordained.

وہ جس ڈھب میں اس پر اپنی مہر ثبت کرتے ہیں۔ اس کا انداز کچھ ایسا ہی ہے کہ جاؤ فیر کرلو جو کرنا ہے۔

عورت کے حقوق، اس کی شادی، طلاق کے قاعدے، قانون، ایک سے زیادہ شادیاں اور ان سے متعلق خدائی احکامات اور فیصلے تحریر کا حسن بڑھاتے ہیں۔ مختصراً اہل بیت کے ذکر اور حج الوداع کے ساتھ کتاب ختم ہوتی ہے۔

بہت شکریہ جس مدلل انداز میں آپ نے اس وقت کی عرب دنیا کے رائج معاشرتی اور سماجی پہلوؤں کا زمینی حقائق کے ساتھ تجزیہ پیش کیا ہے۔ وہ قابل ستائش ہے۔

عکسی مفتی بہت شکریہ آپ کا۔ آپ نے ہم جیسے پڑھے لکھے جاہلوں کے لیے اسے لکھ کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔

کتاب کا ٹائیٹل اور اس کی پرنٹنگ بہت خوبصورت ہے۔ لگتا ہے ”عکس“ پبلیکیشنر کے فہد نے بھی اس ہستی سے اپنی محبت کو اس میں شامل کیا ہے۔

دعائیں۔
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments