فسانہ آزاد کا فن


فسانہ آزاد ”پنڈت رتن ناتھ سرشار“ کا وہ شہکار ناول ہے جس میں لکھنؤ کی مٹتی ہوئی تہذیب کی عکاسی کی گی ہے۔ سرشار 1847 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام پنڈت بیج ناتھ در تھا۔ آپ کا تعلق کشمیری برہمن خاندان سے تھا جو تجارت کی غرض سے کشمیر سے ہجرت کر کے لکھنؤ آباد ہو گے۔ سرشار کا پہلا مضمون کشمیری پنڈتوں کے فرقوں کی جناب سے شائع ہونے والے ایک رسالے ”مراسلہ کشمیر“ میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ سرشار کے کئی مضمون ”سررشتہ تعلیم اودھ، ریاض الاخبار، اودھ پنچ“ وغیرہ میں شائع ہوتے رہے۔

سر شار کے اندر مزاح کی حس بہت زیادہ تھی۔ عبد القدر (نقاد) کے مطابق سرشار کے نئے طرز تحریر کی ابتدا اودھ پنچ سے ہوئی۔ یہ لکھنؤ سے نکلنے والا ایک مزاحیہ جریدہ تھا جس کے ایڈیٹر ”منشی سجاد حسین“ تھے۔ منشی نول کشور نے 10 اگست 1878 کو سرشار کو اودھ اخبار کا مدیر مقررہ کیا۔ سرشار نے 1878 میں ظرافت کے عنوان کے تحت قسط وار اودھ اخبار میں لکھنا شروع کیا۔ فسانہ آزاد جلد اول کی تمام قسطیں ظرافت کے عنوان سے اودھ اخبار میں لکھی اور آخر میں یہی اخبار 1880 کو فسانہ آزاد کے عنوان سے کتابی صورت میں چھپا۔

فنی جائزہ:۔

فسانہ آزاد کے فنی جائزے میں پائے جانے والے اجزائے ترکیبی ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں۔

پلاٹ:۔

واقعات کی منطقی ترتیب کو پلاٹ کہتے ہیں یا فن کار کی فنکاری کو جس کے تحت وہ واقعات کو ترتیب دیتا ہے پلاٹ کہلاتا ہے اگر بات کی جائے فسانہ آزاد کے پلاٹ کی، تو یہ ایک طویل ناول کی طرح چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ناول ہے جس کے اندر ”چھے“ پلاٹ ہیں جن کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ مرکزی پلاٹ آزاد میاں اور حسن آرا کا ہے باقی تمام پلاٹ اسی کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ فسانہ آزاد کے پلاٹوں میں کوئی ربط اور تسلسل نہیں۔

زمان و مکاں :۔

فسانہ آزاد سرشار نے 1878 میں لکھنا شروع کیا تھا تو اس لحاظ سے اس کا زمانہ 1877۔ 1878 کے حالات واقعات اور اس کا مکاں ”لکھنؤ“ ہے جس کی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔

منظر نگاری:۔

منظر کشی سے ناول کی دلکشی اور تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ منظر کشی کامیاب ہو تو جھوٹا قصہ بھی سچا لگنے لگتا ہے۔

اقتباس ملاحظہ ہوں!
”سحر کاذب کے وقت مرغ بے ہنگام نے گربہ مسکین کی آہٹ جو پائی تو گھبرا کر ککڑوں کی بانگ لگائی“

مصنف نے اپنے فن کو استعمال کرتے ہوئے صبح کا انتہائی خوبصورت منظر کھینچا ہے قاری یوں محسوس کرتا ہے جیسے یہ سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہا ہوں۔

کردار نگاری:۔

فسانہ آزاد میں کرداروں کی پہچان کی جائے تو اس ناول میں چھوٹے بڑے تقریباً دو سے تین ہزار کردار ہیں۔ اس ناول کا ہیرو یا مرکزی کردار ”میاں آزاد“ ہے اور ہیروئن ”حسن آرا“ ہے۔ اس ناول میں کھوجی کا کردار مزاحیہ ہے جو لکھنؤ کی مٹتی ہوئی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمایوں فر، سہپرا آرا، روح افزا، اللہ رکھی، قمرت، نازو، چھمی جان، شاہ جی، اچھے مرزا، ذوالفقار علی خان، بڑی بیگم، وغیرہ جیسے کردار ناول کو آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔

مکالمہ نگاری:۔

ناول کی کامیابی اور ناکامی کا بڑی حد تک دار و مدار مکالمہ نگاری پر ہوتا ہے۔ ناول کے جو کردار آپس میں بات چیت کرتے ہیں وہ مکالمہ کہلاتی ہے۔

اقتباس ملاحظہ ہوں۔
جانے والا: (ٹھہر کر) ارشاد آپ اپنا مطلب فرمائیے میرے پھسلنے کی فکر نہ کیجئے۔
نازک بدن: گریے گا تو مجھ ضرور پوچھ لیجیے گا۔

جانے والا: بہت خوب ضرور پوچھ لوں گا۔ بلکہ آپ کو ساتھ لے کر گروں تو سہی نیچے آپ ہوں اوپر بندہ۔ ان شا اللہ۔

فسانہ آزاد میں بڑے بڑے مکالموں کے ساتھ انتہائی چھوٹے مکالمے بھی ملتے ہیں

سراپا نگاری/حلیہ نگاری:۔

مطلب کسی شخص یا چیز کا مکمل عکس لفظوں کے ذریعے کھینچنا۔ اقتباس ملاحظہ ہوں!

” ایک صاحب وضع قطع دنیا سے نرالے پتلون خاکی جاکٹ کالی۔ کوٹ پیلا دیس کوٹ ڈھیلا۔ گھنی داڑھی خرگوش کی جھاڑی ہاف بوٹ پہنے کھٹ پٹ کرتا ڈبل چال چلے چلا جاتا تھا“

نقطہ نظر :۔

ہر تخلیق کے پیچھے کوئی نقطہ نظر کارفرما ضرور ہوتا ہے جس کی خاطر مصنف تخلیق کا کرب جھیلتا ہے۔ فسانہ آزاد میں سرشار لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ اسی نقطہ کے پیش نظر سرشار نے اس ناول کو تخلیق کیا۔

اسلوب و بیان:۔

اسلوب و بیان سے مصنف کی فنکاری کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس حد تک اپنی تخلیق میں کامیاب ہوا ہے۔ سرشار نے فسانہ آزاد میں مختلف اسلوبی خوبیاں کو استعمال کر کے ناول کو خوبصورت بنایا ہے۔

محاورات کا استعمال:

باچھیں کھلنا، کلیجہ اچھلنا، منو پر موئیاں، قہقہہ اڑنا وغیرہ

تراکیب کا استعمال:

دقیقہ نفس، صبح نقس وغیرہ

مترادف الفاظ :۔

حسن پرست، وارفتہ مزاج، رنگین طبع، آزاد منشق وغیرہ۔

تلمیح:۔

عنقا، سلیمان ساؤ جی وغیرہ۔
عنقا ایک خیالی پرندہ
اور سلیمان ساؤ جی ایران کے مشہور فارسی شاعر کی طرف اشارہ ہے۔

تشبیہات کا استعمال:

نمونہ گلزار ارم، نعمونہ فردوس بریں وغیرہ

استعارہ کا استعمال :۔

اس عالم متبحر کی تحقیق انیق سے فیض پاتے ہیں۔ مطلب ”عالم کو سمندر“ کے استعارے میں استعمال۔

تکرار لفظی:

جھک جھک کر، پھونک پھونک وغیرہ۔

متضاد الفاظ کا استعمال:۔

سرخرو ہوئے یا روسیاہ۔ فارغ البال ہوئے یا تباہ۔

حاصل کلام:

پنڈت رتن ناتھ سرشار ایک عالم فاضل بلکہ ہر فن مولا شخص تھا۔ مختلف زبانوں کا علم رکھتا تھا۔ عربی، فارسی، سنسکرت اور دیگر زبانوں کے استعمال سے، اسلوب و بیان کی مختلف تکنیکوں کے استعمال سے اپنے فن کو عروج بخشتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments