( 1 ) ڈاکٹر وزیر آغا اور سید فخرالدین بلے، داستان رفاقت


سال 2022 کو دنیائے اردو ادب میں ڈاکٹر وزیر آغا صدی کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا عمر میں والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے سے تقریباً آٹھ برس بڑے تھے لیکن ہم نے ہمیشہ انہیں والد گرامی کا حد درجہ احترام کرتے دیکھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور سید فخرالدین بلے کی داستان رفاقت کا آغاز کب اور کیسے ہوا، اس حوالے سے کوئی حتمی بات کہنا ہمارے لیے دشوار ہے البتہ ہم نے اپنے ہوش سنبھالنے سے ہی مدیر اوراق ڈاکٹر وزیر آغا، مدیر فنون احمد ندیم قاسمی، پروفیسر غلام جیلانی اصغر، پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر سلیم اختر، پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل، مدیر انشاء جون ایلیاء، مدیر نقوش محمد طفیل، مدیر معاصر عطاءالحق قاسمی، مدیر محفل طفیل ہوشیار پوری، مدیر اقدار شبنم رومانی، مدیر افکار صہبا لکھنوی، مدیر بیاض خالد احمد، مدیر سیپ نسیم درانی، مدیران ادب لطیف فیض احمد فیض، انتظار حسین، مسعود اشعر، ناصر زیدی، ذکاء الرحمن، کشور ناہید، مدیر اعلی ادب لطیف صدیقہ بیگم، محترمہ ادا جعفری، محترمہ بانو قدسیہ، اشفاق احمد خاں، ، کلیم عثمانی، پرتو روہیلہ، ڈاکٹر وحید قریشی، عطاء شاد، مدیر اعلی ادبیات مرتضی برلاس، مدیر اعلی مشرق ضیاء الاسلام انصاری، وقار انبالوی، بشری رحمن، ڈاکٹر اجمل نیازی، امجد اسلام امجد، شہزاد احمد، ڈاکٹر اسلم انصاری، مدیر انشعاب جاوید اختر بھٹی، مدیر اعلی آفتاب ممتاز طاہر، مدیر اعلی نوائے وقت مجید نظامی، مدیر اعلی کارواں سید آل احمد، مدیر اعلی جنگ میر خلیل الرحمن، مدیر اعلی انکشاف بیدار سرمدی، مدیر اعلی دستگیر سلطان ارشد القادری، مدیر اعلی گہراب جعفر شیرازی اور دیگر نامور علمی و ادبی شخصیات کو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے حلقۂ احباب میں نمایاں حیثیت میں دیکھا اور جانا ہے۔

سرگودھا میں قیام کے دوران کہ جب سید فخرالدین بلے محکمۂ اطلاعات و نشریات کے ڈویژنل سربراہ تھے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کی پوسٹنگ بھی سرگودھا ہی میں تھی اور ڈاکٹر انور سدید کی بھی۔ اور ہاں مرتضی برلاس بھی بحیثیت ریونیو کمشنر سرگودھا ہی میں تعینات تھے۔ دیگر احباب جن کا بلے ہاؤس اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا اور گھر میں منعقد ہونے والی ادبی محافل میں تو یقینی طور پر شریک ہوا کرتے تھے ان میں پروفیسر غلام جیلانی اصغر، پرویز بزمی، انجم نیازی، عبدالقدیر اشک کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

سرگودھا سے رخصت ہونے کا وقت آیا تو سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے اعزاز میں متعدد تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔ انجم نیازی کی اقامت گاہ پر بھی ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر خورشید رضوی، عبدالقدیر اشک، ڈاکٹر انور سدید، مرتضی برلاس، شہزاد احمد اور انجم نیازی نے سید فخرالدین بلے کی شخصیت اور فن کے حوالے سے شاندار مضامین پڑھے جبکہ پرویز بزمی نے منظوم خراج پیش کیا۔ بلا شبہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے مضمون میں سید فخرالدین بلے کی تخلیقی صلاحیتوں کا انتہائی بھر پور انداز میں اعتراف فرماتے ہوئے انہیں تصوف پر ایک اہم اتھارٹی قرار دیا۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے سید فخرالدین بلے کی نظم اور نثر انتہائی پختہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی نظم ہو یا یا نثر وہ نین نقش کی اتنی پختہ ہے کہ اس میں عیب نکالنا محال ہے۔ انہوں نے بلے صاحب کی ادبی اور ثقافتی خدمات کا بھی جائزہ لیا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے سید فخرالدین بلے کے فنی کمالات اور شاعری کا انتہائی گہرائی سے ناقدانہ تجزیہ فرماتے ہوئے انہیں ایک باکمال شاعر قرار دیا۔ تقریب کے اختتام پر سید فخرالدین بلے کا کلام ساز و آواز کے ساتھ پیش کیا گیا۔ تمام تو نہیں البتہ سید فخرالدین بلے کی بس ایک ہی غزل یاد آ رہی ہے۔

غزل کا مطلع پیش خدمت ہے۔ خوبصورت آواز، خوبصورت موسیقی اور شاہکار غزل
کھل کے گل بن گئی کلی چپ چاپ
اک قیامت گزر گئی، چپ چاپ
ڈاکٹر وزیر آغا اردو ادب بالخصوص تنقید، انشائیہ اور شاعری کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ (جاری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments