میرے بچپن کے دن؟


تہذیب اپنے زوال کی اتھاہ گہرائی تک پہنچ چکی۔ وہ معصوم کلیاں اور پھول جو گلشن ہستی کا ساماں تھے آج ہوس پرست درندوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ وہ نازک کونپلیں جو ابھی تنے سے نکلی ہی ہوتی ہیں کاٹ لی جاتی ہیں۔ لاشے بکھرے پڑے ہیں جس گلی میں جاؤ جس محلے میں جاؤ، جس شہر کا رخ کرو ہر طرف یہی وحشت نظر آتی ہے۔ انسان انسان کو ڈھونڈ رہا ہے کہ وہ کہاں گیا۔ کبھی بچپن بھی ہوا کرتا تھا اور لڑکپن بھی یہ دونوں ادوار حیات نہایت پاکیزہ گردانے جاتے تھے مگر آج بچپن کا دوسرا نام خوف ہے مائیں جلدی سے جلدی اپنے نازک پھولوں کو تناور درخت دیکھنا چاہتی ہیں کہ کہیں یہ ان بھیڑیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں جو ہر گلی کے موڑ پر اپنی خونی نظریں گاڑھے پاگل ہوئے جاتے ہیں۔

یہ جو ظالم ہیں یہ بھی تو کسی نے جنم دیے ہیں اور جنم دے کر شاید کوڑے دان میں پھینک دیے، بھوک اور ہوس کے کوڑے دان میں۔ یہ اپنے ہی گھروں میں شاید ایسا تماشا دیکھتے رہے ہیں۔ شاید ان کے سامنے ان کی ماں بہن کی عزت بے معنی رہی ہے شاید ان کے ہاں عزت کا تصور ہی نہ رہا ہو تبھی تو وہ عمر کی تفریق بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے تقسیم ہوئے ہیں کہ بس گناہ ہی جمع کیے جا رہے ہیں۔ اور آخر لاکھ چھپنے کے بعد تختہ دار پر مصلوب ہو ہی جاتے ہیں۔

یہ درندے اس ہمارے شکستہ معاشرے کے جنگل کے بادشاہ ہیں۔ یہ ہمیں ہمارا ہی آئینہ دکھاتے ہیں، ہم انہیں کوستے ہیں انہیں گالیاں دیتے ہیں انہیں معاشرے کا ناسور سمجھتے ہیں مگر یہ ہماری ہی پیداوار ہیں۔ ہم نے ہی انہیں پالا ہے۔ ہم نے ہی انہیں اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب یہ سانپ اپنے ہی بچوں کو کھائے جا رہے ہیں۔

انہیں کس نے پناہ دی؟ ضرور کسی صاحب ثروت اور صاحب جاہ و حشمت نے اپنی پیٹھ پیچھے انہیں چھپایا۔ انہیں شہ ملی اور یہ اور آگے بڑھے۔ اس ناہنجار مقتدر کو انہوں نے اپنا آلہ کار بنایا اسے کچھ پرچیاں دیں یا اس کے لئے کوئی دوسرا جرم کیا، اس کا جرم اپنے سر لیا اور اس نے انہیں سر پر بٹھا لیا کہ یہ پاگل کتے ماؤں کے آنگن اجاڑتے پھریں۔ کہیں کوتوال نے اپنے بھتے کے لئے انہیں نظر انداز کر دیا اور کہیں عزت کے مارے والدین خاموشی اختیار کر گئے۔

اب معصوم بچے گھر سے نکلتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں۔ انہیں اب یہ عود بلائیں نظر آنے لگی ہیں انہیں ماں باپ نے ان سے خوفزدہ کر دیا ہے۔ ان کے کھیل کود کے دن اب خوف کے سائے میں بند کمروں میں کٹتے ہیں۔ اب وہ باہر نکلنے سے پہلے پوچھتے ہیں کہ امی کس گلی میں جا کر کھیلنا ہے؟ وہ محلہ جو ان کا بہت بڑا کھیل کا میدان تھا وہ گاؤں جو ان کی جاگیر تھا جہاں چاہتے تھے وہیں جاتے تھے سب ان کے ماں باپ تھے بہن بھائی تھے اب وہ سارے انہیں اپنے دشمن اور شیطان نظر آتے ہیں۔ تبھی تو گھر سے نکلتے وقت اپنے والدین کو دو تین مرتبہ گلے لگاتے ہیں کہ پتہ نہیں کس گلی کی کس نکڑ پر بھیڑیا کھڑا ہو اور بعد میں گلے ملنے کا موقع ہی نہ ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments