سولہ دسمبر۔ جزا و سزا


یوں لگتا ہے شہادت کی انگلی شہید ہو چکی یا اس درجہ فگار ہے کہ موبائل کی اسکرین پر قلم کی نوک بننے سے قاصر ہے۔ آنکھوں میں گویا وہی لہو اترتا ہے جس سے اس سر زمین پر آج کے دن کی سفاک ترین تاریخ لکھی گئی تھی۔ ذہن منتشر ہے ان معصوم لاشوں کی طرح جو آج کے دن بکھیری گئی تھیں۔ اور لغت ہاتھ جوڑے میرے سامنے ان ماؤں کی طرح کھڑی ہے کہ جن کی ممتا کو وہ زخم دیا گیا جسے اپنے نونہالوں سے دوبارہ وصل ہی بھر سکتا ہے۔ آج کے دن کی اذیت بیان کرنے کے لیے الفاظ قاصر و معذور ہیں۔

ہم روز اپنے بچوں کو سکول سے لینے جاتے ہیں۔ راقم سکول کے سامنے کھڑے اپنے بچوں کا انتظار کرتا ہے۔ ایک ایک کر کے بچوں کو باہر نکلتے دیکھتا ہے تاآنکہ اپنے بچے سامنے آتے ہیں۔ آپ ایک لمحے کو تصور کیجیے کہ وہ قیامت بھی کیا قیامت تھی وہ حشر بھی کیا حشر تھا کہ ماں باپ آرمی پبلک سکول پشاور کے سامنے چیختے، چلاتے، دھاڑتے، روتے سسکتے اور ہچکیاں بھرتے پہنچ رہے ہیں۔ خدا سے بچوں کی سلامتی کے لیے گڑگڑا رہے ہیں لیکن زمین کے خدا ان کی دعائیں آسمان تلک پہنچنے نہیں دیتے۔

ایک باپ ہونے کے ناتے چشم تصور کو بھی گھائل و بے نور ہوتا محسوس کرتا ہوں جب یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت ان ماں باپ کی کیا کیفیت تھی جب وہ باہر کھڑے منحوس گولیوں کی ہیبت زدہ آوازیں سن رہے تھے۔ او خدایا کیسے لکھوں کہ بچوں کے کٹے پھٹے لاشے دیواروں کے اوپر سے پھینکے جانے کے دل کیا روح کو چیرتے مناظر دیکھ رہے تھے۔

کیا حالت ہو گی ان معصوموں کی جو صبح بستے کھیلتے بستے لے کر آئے اور وہ ان کے تابوت بن گئے۔ ماؤں کے ہاتھوں استری کی گئی سفید قمیضیں کفن بن گئیں اور ان معصوم فرشتوں کو غسل ان کے ہی لہو سے دے دیا گیا۔

خدا کی قسم سانسیں اور دھڑکنیں شمار کرنا موت و حیات کے خالق خدا کی طرف سے امر ہے ورنہ ایک باپ ہونے کے ناتے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ماں باپ وہیں زندہ درگور ہو گئے۔

سوچتا ہوں شاید انسان کا دل اتنا سفاک کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ درندے وہ بھیڑیے وہ کائنات کے سفاک ترین بد صفت وحشی کتنے سنگدل تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی آخری وقت کی چیخوں سسکیوں کراہوں اور آہوں نے ان کے دل نما انسانیت کی قبر کے کتبوں پر کچھ تو اثر کیا ہو گا یہ سفاکیت کی انتہا کو پہنچتے ان کے مکروہ ہاتھ ذرا بھی نہ کانپے۔ وہ کیا تھا جس نے انہیں بنیادی انسانی وصف رحمدلی کے آخری درجے سے بھی گرا دیا؟

16 دسمبر 2014 سے پہلے ہم 16 دسمبر 1971 کی یاد منایا کرتے تھے۔ دیکھا جائے تو دونوں کی وجوہات کے احاطے میں آپ کو ایک ہی قدر مشترک ملے گی اور وہ ہے افراد کا بندوق کے زور پر خود کو ریاست اور اپنے افکار کو آئین کے طور پر منوانا۔

16 دسمبر 1971 میں سقوط ڈھاکہ ہوا جو کہ پہلے جنرل ایوب خان اور پھر جنرل یحیی خان کی آمریت کا پیش خیمہ تھا۔ اس کے بعد مرد مومن مرد حق جنرل ضیاالحق نے پاکستان کو افغان وار میں ڈالر جہاد کے زیر اثر فسادستان بنایا اور پھر 9 / 11 کے بعد اپنی قوم کو مکے دکھاتے جنرل مشرف نے ضیاالحق کے جہادیوں کو ایک بار پھر ”ڈالر وار“ میں دہشتگرد قرار دے کر انتہائی ناعاقبت اندیشی سے پاکستان کو بارود اور لاشوں کا ڈھیر بنا دیا اور اپنے نعرے ”سب سے پہلے پاکستان“ کو کم ازکم اس ضمن میں سچ کر دکھایا کہ جس پاکستان کا 9 / 11 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملے سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا وہ اس کے بارودی ملبے میں دبنے والا واقعی پہلا ملک بنا۔

مگر دکھ یہ ہے کہ 1971 سے 2014 اور وہاں سے آج 2022۔ اس آدھی صدی کے بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں۔ 1971 سے 2014 تک کے سانحات کے ذمہ داروں کو سزا تو کیا ملنی تھی۔ آج 2022 میں آدھی صدی بعد پاکستان پر 6 سال حکومت کرنے کے بعد پاکستان کے بادشاہ سلامت ریٹائرمنٹ خطاب میں فرماتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ سیاسی ناکامی تھی فوجی ناکامی نہیں۔ جبکہ شمال میں قومی نمائندے پھر سے چیخ چیخ کر اے پی ایس کے قاتلوں کے سرغنہ گروپ کی پھر سے آمد کا ماتم کر رہے ہیں۔

پاکستان کی بقا ایک ہی صورت میں ہے اور وہ ہے قانون کی حکمرانی۔ مگر یہاں پچھتر برسوں سے حکمران کا قانون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آمر حکمران آتا ہے تو مادر ملت ہی کو غدار قرار دے دیتا ہے آج تک ملت یہ ہی نہیں پوچھ پائی کہ یا تو وہ قوم کی ماں تھی یا غدار۔ اگر وہ قوم کی ماں تھی تو انہیں غدار کہنے والے کو کیا سزا ملی؟

اگلا آمر آتا ہے تو وہ اپنی مطلق العنانیت و آمریت کے نتیجے میں ملک ہی دو لخت کر دیتا ہے۔ اس سے اگلا آمر کروڑوں کے ایک قوم نما ریوڑ کو بندوق سے ہانک کر امریکی آشیرباد پر عسکری تفہیم دین پر ڈال دیتا ہے۔ ملت اس کے اثرات ہی سے نہیں نکل پاتی تو اگلا آمر آ کر پھر اسی امریکہ کے حکم پر ان پر بارود کی بارش کر دیتا ہے اور ان میں انتقام کی آگ میں جلنے والے وحشی درندے اس ملت کے سینے پر اے پی ایس پشاور جیسے وہ چرکے لگاتے ہیں کہ جس سے لہو تاقیامت رستا رہے گا۔

انسانی معاشرے جزا و سزا کے نظام کے تحت چلتے ہیں یہاں سانحات بیت جاتے ہیں حمود الرحمان کمیشن کی طرح رپورٹس ہی منظر عام پر نہیں آتی سزا کیا ملے ہاں جزا ضرور مل جاتی ہے جب اے پی ایس کے ماسٹر مائنڈز سے ریاست مذاکرات کرتی ہے اور جب پاکستان سے آزادی پا کر بنگلہ دیش انسانی ترقی کی منزلیں طے کرنے لگتا ہے۔

خدا اے پی ایس پشاور کے معصوم مقتولین کے ماں باپ کو صبر ہی دے۔ کہ تیسری دنیا سے خدا کے در پر سب سے زیادہ دعائیں صبر ہی کی پہنچتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments