رابی پیرزادہ ”نیک پروین سنڈروم“ کا شکار کیوں ہوئی


انتہائی دلکش اور دلفریب آواز میں اپنے من کی گہرائیوں میں اتر کر گانے والی ایک زبردست قسم کی سنگر اور سب سے بڑھ کر ایک خوبصورت انسان جو اپنی ذات کے سچ کے ساتھ انصاف کرتے کرتے باغی بن گئی۔ من کی راہوں پر چلتے ہو فیملی کے دباؤ کے باوجود سنگر بننے کا سپنا پورا کیا اور چاروں طرف ان کا طوطی بولنے لگا۔ سانپوں، شیروں اور مختلف پالتو جانوروں کے بیچ بے خوفی سے گھومنے والی رابی کے ساتھ زندگی میں آخر ایسا کیا ہو گیا کہ وہ ایک دم سے مذہبی بن گئی یا یوں کہہ لیں کہ اسے اپنے اندر کے حقیقی سچ کو قربان کرنا پڑ گیا؟

دھڑلے سے زندگی گزارنے والی ایک بہادر خاتون اتنی مجبور کیسے ہو گئی کہ اسے اپنی ذات کے متعلق صفائیاں دینا پڑیں؟ کیا کوئی انسان اتنا بھی مجبور ہو سکتا ہے کہ اسے اپنی اوریجنیلٹی یا پہچان جو اس نے معاشرے کے خلاف جا کر اور ایک بھرپور جدوجہد کر کے حاصل کی ہوتی ہے کو اچانک سے قربان کر کے ایک ”فیک“ یا مصنوعی پرسونا میں ڈھلنا پڑ جائے؟ کیا معاشرتی بندوبست اتنا مقدس ہو سکتا ہے کہ اس کی خاطر کسی کو بھی اپنی اصلیت یا اپنی ذات کے سچ کی قربانی دینا پڑے؟ آ خر رابی کو اپنی ذات کے حوالے سے یہ سب بتانے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے کہ

”میں نے زندگی میں کبھی ڈانس پارٹی نہیں کی، شراب نہیں پی، سگریٹ نہیں پی اور کبھی بوائے فرینڈ نہیں بنایا وغیرہ وغیرہ“

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کی ذاتی نوعیت کی باتیں ان سے کسی نے پوچھی ہیں یا معاشرتی جبر کا شاخسانہ ہے؟ جو من کی راہوں پہ چلتے ہوئے باغی کہلائی وہ آخر بزدل بننے پر مجبور کیوں ہوئی؟ ذاتی نوعیت کی یہ سب باتیں جو انہوں نے اپنی ذات کے حوالے سے بتائی ہیں وہ سب تو ہمارے معاشرے کے مرد بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں اور کبھی کوئی صفائی پیش کرنے نہیں آتے، ڈانس پارٹی انجوائے کرتے ہیں، شراب پیتے ہیں اور سگریٹ پینے کے ساتھ ساتھ کئی گرل فرینڈ کے ساتھ وقت گزاری بھی کرتے ہیں۔

اب یہ معاشرے کا سچ ہے بھلے تسلیم کریں یا نہ کریں کیا فرق پڑتا ہے ویسے بھی کسی کی نجی زندگی میں تانک جھانک کرنا کوئی دانشمندانہ رویہ نہیں ہوتا اور مہذب معاشرے ”انفرادیت“ کا احترام کرتے ہیں۔ اب آتے ہیں رابی پیرزادہ کے اس حادثے کی طرف جس کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا سے غائب ہو گئی، پردہ کرنے کے علاوہ حج و عمرہ کی تصاویر بھی شیئر کرنا پڑیں تاکہ کسی طرح سے سماجی تال میل بحال ہو سکے۔ سماجی تال میل کے ڈسٹرب ہونے کی بنیادی وجہ ایک اسکینڈل تھا، ان کی ایک انتہائی نجی ویڈیو کسی طرح سے منظر عام پر آ گئی جو بعد میں بہت زیادہ وائرل بھی ہوئی۔

انتہائی تکلیف دہ بات تھی اور اس ویڈیو کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنے کے بعد پھیلانے والے بھی اسی غیرت بریگیڈ کے کرتا دھرتا تھے جو ایک دن ”یوم حیا“ منا کر مکت ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں جہاں رابی نے اور دوسری باتیں کیں وہیں انہوں نے اسکینڈل کے بعد لوگوں کے تبصرے اور خود کو دیے جانے والے بے ہودہ القابات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت رنجیدہ ہو گئی تھی یہاں تک کہ کئی بار خود کشی کرنے کا بھی سوچا۔

ظاہر ہے جس طرح کا منافق معاشرہ ہم نے بنا لیا ہے اس میں ایک خاتون کا کردار کیا حیثیت رکھتا ہے وہ خواتین سے زیادہ کون جانتا ہو گا اور یہ بھی معاشرے کا تضاد یا منافقت ہے کہ یہاں دامن تو داغ دار مردوں کے بھی ہوتے ہیں مگر وہ نظروں میں نہیں آتے لیکن خواتین کے واضح طور دکھائی دے جاتے ہیں اسی لئے تو وہ کردار کی بلندیوں کو چھوتے چھوتے قبروں میں اتر جاتی ہیں اور جو زندہ بچ جاتی ہیں وہ رابی پیرزادہ کی طرح نیک پروین بننے کی تگ و دو میں اپنے تمام مشاغل قربان کر کے معاشرتی بندوبست کے حساب سے خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوششوں میں مگن رہتی ہیں۔

نجانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب وینا ملک اسکینڈل کی زد میں تھیں تو انہیں بھی ”در جمیلیہ“ پر جا کر مشرف بہ طارق جمیل ہونا پڑا تھا تب جا کے معاشرتی ایڈجسٹمنٹ ہوئی تھی۔ دوسری طرف قندیل بلوچ کو لے لیں جسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا وہ جو کرتی تھی بڑے دھڑلے سے کرتی تھی اور اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتی تھی اور ہمارے معاشرے کے یہی مرد جو عورت کو باحیا کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں مزے لے کر ان ویڈیوز کو دیکھتے تھے اور دوست احباب میں گناہ جاریہ کے طور پر شیئر کر دیتے تھے۔

قندیل ایسا کیوں کرتی تھی کیا اسے اپنا جسم دکھانے کا شوق تھا؟ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ معاشرے میں یہی کچھ بکتا ہے اسی لیے وہ اپنی پرائیویسی معاشرتی پاکبازوں کو بیچ کر اپنے گھر کا چولہا جلاتی تھی۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اس بیچاری کے پاس جسم کے علاوہ کچھ نہیں تھا جسے بیچ کر کے وہ اپنے غریب والدین کی دوا دارو کا بندوبست کیا کرتی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ویڈیوز سیاستدانوں کی لیک نہیں ہوتیں؟

یا مختلف فیلڈ سے تعلق رکھنے والے دوسرے مردوں کی نہیں ہوتیں؟ بالکل ہوتی ہیں مگر وہ تو کبھی بھی سوشل میڈیا پر آ کر اپنی ذات کے متعلق صفائیاں نہیں دیتے تو آخر خواتین ہی کیوں؟ رابی پیرزادہ نے تو بڑے آرام سے کہہ دیا کہ اس کی زندگی میں ایک پوائنٹ آف ریئلائزیشن یا لمحہ ادراک آن پہنچا تھا اور وہ تبدیل ہو گئیں مگر یہی لمحہ یا موڑ اس وقت کیوں نہیں آیا جب وہ بطور سنگر اپنا اسٹارڈم انجوائے کر رہی تھی؟ ان کی گفتگو کے چار پوائنٹ بہت اہم ہیں جن کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے رابی کہتی ہے کہ

جو خواتین مرد کی بات نہیں مانتی وہ گناہ کی مرتکب ٹھہرتی ہیں۔
مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے خواتین کو بالکل نہیں۔
خواتین مردوں سے کمتر ہیں۔ ویمن ایمپاورمنٹ میں خواتین بہت آگے نکل چکی ہیں ایسا لگتا ہے کہ مردوں کے حقوق بھی سلب ہو رہے ہیں۔

اب یہ سب کچھ انہوں نے شخصی ڈیمج کنٹرول کے تناظر میں کہا ہے یہ ان کا ذاتی نقطہ نظر تو ہو سکتا ہے مجموعی بالکل نہیں۔ مگر ذاتی حادثہ کی بنیاد پر خواتین کی ایک طویل جدوجہد اور فیمنزم پر لکھے جانے والے ادب کو بیک جنبش قلم نظرانداز کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔ جو آپ کو اب سمجھ میں آ یا ہے اسے اپنے تئیں رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر اس ”ذاتی ماحصل“ کی تبلیغ کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔ آپ خود کو ”ثابت“ کرنے کے چکر میں بہت آگے نکل کر اس قسم کے معاشرے میں یہ سب باتیں کر رہی ہو جہاں کے مرد اداکاراؤں او ماڈل کے چھوٹے چھوٹے کپڑوں میں ملبوس جسم کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنے کے بعد نیچے گھٹیا زبان میں رنڈی یا طوائف لکھ رہے ہوتے ہیں۔

غیرت بریگیڈ کے یہی مہان میا خلیفہ یا دوسرے پورن اسٹار کو انجوائے کرتے کرتے رینکنگ میں سرفہرست پر پہنچ چکے ہیں۔ مذہبی ہونا یا نہ ہونا یا کسی فلسفے یا سوچ کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا چوائس ہونا چاہیے جبر نہیں، جبر سے فلسفے سکڑتے ہیں پھیلتے نہیں۔ رابی اس اسکینڈل کے بعد اپنا پرنسپل اسٹینڈ لے سکتی تھی کیونکہ وہ وکٹم تھی اور اس کی ذاتی نوعیت کی ویڈیو ان کی اجازت کے بغیر لیک کی گئی تھی اور شیئر کیا گیا تھا۔

رابی ”شیم آن یو“ کی مہم چلا کر ایک بولڈ قدم بھی اٹھا سکتی تھی مگر اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا جو کہ پاپولر تھا۔ میں رابی کے اس اینگل پر غور کر رہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ خواتین ایک دوسرے کو سپورٹ نہیں کرتیں اور خود کو کمتر سمجھتی ہیں؟ میری نظر سے ایک چارٹ گزرا میں اس کے نکات شیئر کرنا چاہوں گا۔

سب آرڈینیشن سنڈروم

یعنی خود کو کمتر سمجھنے کی ذہنی کیفیت۔ خواتین کو بچپن سے ہی سماجی سطح پر اس طرح سے برین واش کیا جاتا ہے کہ وہ مردوں سے کمتر ہیں اور وہ اس قسم کا رویہ اپنے اردگرد مشاہدہ کرتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر اس معاشرتی حقیقت کو تسلیم کرچکی ہوتی ہیں کہ مرد برتر ہوتے ہیں اور خواتین کم تر اور وہ ساری زندگی احساس کمتری کا شکار رہتی ہیں۔

مائنارٹی مائنڈ سیٹ۔

اقلیتی ذہنیت۔ ائرپورٹ، اسمبلی، آفس، پولیس، فوج یا کسی بھی محکمے یا جگہ کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو آپ کو خواتین کی تعداد مردوں سے بہت کم نظر آئے گی یا چند ہوں گی۔ تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے بجائے اس کے کہ وہ اپنی افادیت و انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا آپ منوانے کی کوشش کریں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اسی مردانہ اکثریت کے زیراثر چلی جاتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں بہت سارے کمپرومائزز کرنا پڑتے ہیں اور وہ ایک طرح سے ایسے ماحول میں ”زیر اثر“ رہتی ہیں۔

کنسیکوانشنل کنفیوژن۔

فیصلہ سازی کا المیہ یا مسئلہ۔ خواتین عام طور پر مردوں کے مقابلے میں ”لیس رسک ٹیکر“ ہوتی ہیں ایسا سمجھا جاتا ہے اور وہ کوئی بھی ایسا کام کرنے سے اجتناب برتتی ہیں جن میں ان کو خطرہ محسوس ہو۔ ظاہر ہے یہ ڈر معاشرے کا دیا گیا ایک تحفہ ہوتا ہے، خود کو معاشرتی مطابقت میں فٹ رکھنے کے لیے وہ کوئی خطرہ مول نہیں لیتیں اور ایک طرح سے کمپرومائزنگ رہتی ہیں۔ معاشرتی جبر کے آگے وہ اسی لئے بے بس رہتی ہیں کہ انہیں ایک فرد کی بجائے محض کمتر عورت سمجھا جاتا ہے۔

ڈیزائر ایبیلٹی ڈائلیما۔

مخالف جنس کے لیے کشش یا دل پسندی کا مخمصہ۔ معاشرے کی نظروں میں وہ چونکہ صنف نازک کہلاتی ہیں اسی اسٹینڈرڈ کو برقرار رکھنے کے لیے خواتین کا من پسند، اطاعت گزار، شائستہ اور نرم گو نظر آنا بہت ضروری ہوتا ہے اسی وجہ سے بہت ساری خواتین اس ڈر سے کہ کہیں ان کی شخصیت میں مردانہ مشابہت نہ آ جائے وہ خود کو نسائی مشابہت میں رکھنا چاہتی ہیں۔ اسی ذہنی کیفیت کا ثبوت رابی پیرزادہ کا انٹرویو ہے جس میں وہ انتہائی عاجزی سے دوسری خواتین کو تبلیغ فرما رہی ہیں کہ
”وہ مردوں سے کم تر ہیں اور انہیں اپنی وقعت اور اوقات پر نظر رکھنی چاہیے“

میری نظر میں یہ وہ مکروہ سائیکل ہے جو خواتین کو اوپر اٹھنے نہیں دیتا اور وہ کوئی بھی آزادانہ فیصلہ لینے میں دقت یا ہچکچاہٹ محسوس کرتی رہتی ہیں۔ خواتین کو اپنے اندر فہمیدہ ریاض، کشور ناہید عاصمہ شیرازی اور ملالہ یوسفزئی کو ڈھونڈنا ہو گا جو جبر کے ہر ضابطے کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور انہیں اپنے درمیان پلیٹ فارم کی طرز پر ایک ”آؤٹ لیٹ“ یعنی ڈسکشن کی صورت میں ذریعہ نکاس کا بندوبست کر کے اپنا ایک ”ایکو چیمبر“ قائم کرنا پڑے گا جہاں انہی کے مسائل اور ان کے حل کی گونج ہو۔

معاشرہ خواتین کو اتنا دبا دیتا ہے کہ بہت ساری خواتین تو اپنے مسائل کو واضح طور پر آرٹی کیولیٹ ہی نہیں کر پاتیں کیونکہ ان کے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں ہوتا، انہیں گھر داری میں اتنا الجھا دیا جاتا ہے کہ ان کے پاس سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ذرا سی بھی بریدنگ سپیس میسر نہیں ہوتی۔ خواتین کو اپنے اندر رول ماڈل پیدا کرنے کی ضرورت ہے خلیل الرحمان قمر، اوریا مقبول جان یا باحیا عورت کے ٹائٹل کی مالا جپنے والے بہروز سبزواری جیسے کردار ہمارے رول ماڈل نہیں ہوسکتے۔ جوانی کو اپنے حساب سے گزارنے کے بعد لمحہ موجود میں بزرگی کے سانچے میں ڈھل جانے والے یہ جنسی بد نہاد وہ چاہے کوئی بھی ہو یہ سب کردار خواتین کو زیر تسلط دیکھنا چاہتے ہیں ابھرتے ہوئے نہیں، اسی لئے ان کی گفتگو کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments