امریکی جیو پالیٹکس کے تناظر میں پاکستان کی نئی مقتدرہ کے چیلنجز


امریکی سلامتی کے ماہر، بروس ریڈل نے ایک بار بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کے لیے اپنی بریفنگ میں کہا تھا کہ ”پاکستان کی سیاست کمزور منتخب سویلین حکمرانی کے ادوار کے ساتھ متبادل فوجی آمریتوں کی تاریخ کی عکاسی کرتی ہے“ ۔ اگرچہ پاکستان میں 2008 ء کے بعد سے مسلسل جمہوریتی حکومتیں قائم ہو رہی ہیں تاہم طاقت کا حقیقی مرکز جی ایچ کیو ہی مانا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی طاقت ور فوج کے نئے سربراہ کی تبدیلی کے دوران امریکی و یورپی ریاستوں کی گہری دلچسپی دیکھنے کو ملی۔ جنرل عاصم منیر، پاکستان کی بری فوج کے نئے آرمی چیف ہیں، ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی امیدوں کا محور جنرل عاصم ہے، روز اول سے مقتدرہ کو حاصل طاقت اس کا بنیادی موجب ہے۔

پاکستان کی داخلی اور خارجہ پالیسی پر اپنے زبردست اثر و رسوخ کی وجہ سے، آرمی چیف اس حیثیت میں سب سے زیادہ طاقتور شخص تصور کیے جاتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سالہ دور حکومت میں، سول ملٹری تعلقات شدید تنزلی کا شکار ہوئے، اور کیا جنرل عاصم منیر فوج کو تنقید سے بچانے اور اس کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے ”بیرکوں میں واپسی“ کی حکمت عملی اپنا کر، فوج سے متعلق عوامی تاثر بہتر کرتے ہیں یا نہیں، یہ آئندہ عام انتخابات میں فوج کی سیاسی پوزیشن اور شمولیت پر منحصر ہو گا۔

مختلف امریکی میڈیا ہاؤسز اور تھنک ٹینکس کے تحت پاکستان میں فوجی کمان کی تبدیلی کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے، پاکستان کے بارے میں عام طور پر تمام تجزیوں میں اتفاق ہے کہ 1947 ء سے ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کے ذریعے پاکستان میں حکومت کی جا رہی ہے اور جمہوری حکومتیں ملک کی خارجہ پالیسی طے کرنے میں آزادانہ فیصلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہیں۔ پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران کے تناظر میں، نئی مقتدرہ اور آئندہ آنے والی نئی سیاسی حکومت کو امریکی تناظر میں مختلف چیلنجز درپیش ہوں گے، امریکہ کے نشریاتی و تجزیاتی اداروں کے ذریعے سے ان چیلنجز کو مختلف تناظر میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز، بروکنگ انسٹیٹیوٹ، وال سٹریٹ جرنل، نیو یارک ٹائمز، فنانشل ٹائمز، دی اٹلانٹک سمیت دیگر ادارے پاکستان کی اندرونی سیاست پر تبصرے اور مستقبل کے اعشاریوں کو بیان کر رہے ہیں۔

پاکستان اپنے جغرافیائی حدود اربع کی بناء پر، روز اول سے ہی عالمی سیاست میں اہمیت رکھتا ہے۔ برطانوی ایمپائر کے خاتمہ کے بعد جب دنیا کی حکمرانی کا تاج امریکہ نے پہنا تو امریکی خارجہ پالیسی میں روس تگڑا دشمن تصور کیا گیا اور اس دشمن کو زیر کرنے کے لیے پاکستان کو بہ طور ریاست استعمال کیا گیا۔ امریکا، روس کے خلاف جنگی حکمت عملیوں میں مصروف رہا تو ایشیاء میں ہی چین اقتصادی طور پر ایک نئی قوت کے طور پر امریکا کے مقابلے پر کھڑا ہو گیا۔

80 برس سے عالمی سیاست یونی پولر تھی اب بائی پولر یا پھر ملٹی پولر کی جانب بڑھنے لگی ہے اور امریکا کا حریف اب روس نہیں چین ہے۔ اس نئی جنگ میں پاکستان، امریکہ و چین کے درمیان ایک تزویراتی مخمصہ کے سینگوں پر ہے، یہ سینگ ریاست پاکستان کی بقاء کے لیے خطرے سے بھرے ہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک ”احاطہ بندی“ کی ضرورت ہے، بیجنگ کی پالیسی میں خطرے سے متعلق ہنگامی منصوبہ بندی کے ذریعے بڑی طاقتوں کے غلبہ و برتری کو مغلوب کرنے کی حکمت عملی وضع کی جاتی ہے۔

ریاست کی پارلیمان، مقتدرہ اور ماہرین سیاسیات و عالمی امور کی مشترکہ مشاورتوں سے ”احاطہ بندی“ کی پالیسی کو تشکیل دینا ناگزیر ہو گیا ہے، اگر یہ پالیسی چند افراد نے بنائی تو پھر جہاد افغانستان کی سنگین غلطی دہرانے کا خدشہ برقرار رہے گا۔ امریکہ کی انڈوپیسفک پالیسی میں، 2019 ء میں پاکستان کی حیثیت کا تعین کر دیا گیا تھا، اس پالیسی کے باعث، چین اور پاکستان کے درمیان پاکستان سینڈوچ بن کر رہ گیا ہے۔

افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد ، امریکا کی پوری توجہ انڈوپیسفک پر ہے، نئے آرمی چیف کو پاکستان کی قومی سلامتی کے ساتھ امریکی مفادات کے ٹکراؤ کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے کیونکہ انڈوپیسفک پالیسی چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے تناظر میں تشکیل دی گئی ہے اور اس پالیسی پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے امریکا نے افغانستان سے ایمرجنسی ایگزٹ لیا، اس ایمرجنسی اخراج میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ یہاں کی مقتدرہ سے امریکا نے مدد حاصل کی تھی اور مقتدرہ کے نمائندوں کی موجودگی میں ہی طالبان کے ساتھ ڈیل آف دی سنچری پر دستخط کیے گئے تھے، اس معاہدے میں ریاست پاکستان کی نمائندہ پارلیمان کے برعکس، امریکا نے یہاں کی مقتدرہ کو نمائندہ تصور کیا تھا اور نیٹو کے انخلاء کے مکمل ہونے تک طے شدہ ٹاسک پر عمل درآمد کرایا گیا۔

اب نئی مقتدرہ کے لیے صورتحال یکسر مختلف ہے۔ چین کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے لیے پاکستان کو سیکیورٹی رسک سے نکالنا بڑا چیلنج ہے، پاکستان کی فوجی طاقت کا انحصار امریکی امداد پر منحصر رہا ہے۔ نئی مقتدرہ اگر فوجی تعلقات چین کے ساتھ بڑھاتی ہے تو چین پاکستان سے فوجی رسائی کے لیے اجازت بھی مانگ سکتا ہے جس سے انڈوپیسفک پراجیکٹ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جو امریکا کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہو گا۔

انڈوپیسفک کے میگا پراجیکٹ میں امریکا علاقائی معاہدوں کے اتحاد کو اپنے تزویراتی مقاصد کے تابع رکھنا چاہتا ہے۔ آسٹریلیا، جاپان، کوریا، بھارت، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، سنگا پور، تائیوان سمیت آسیان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا اہم ترجیحات میں شامل ہے۔ اس پالیسی کے تحت امریکا، ہندوستان کو علاقائی قیادت میں بڑا حصے دار بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

یہ امر قابل غور ہے، امریکا نے پاکستان کو انڈوپیسفک منصوبے میں اپنا پارٹنر نہیں بنایا، حتی کہ علاقائی اتحاد کی تنظیموں میں بھی پاکستان کو نمائندگی نہیں دی تاہم اس کے باوجود پاکستان کی نئی مقتدرہ پر یہ دباؤ ہے کہ وہ چین کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کرنے سے گریز کرے جس سے امریکا کے تزویراتی مقاصد متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان میں ترقیاتی پراجیکٹس کو روکنا امریکی منصوبے کا حصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ انڈسٹریل زونز میں کمپنیوں کو ٹیکس فری و ڈیوٹی فری سہولیات مہیا کرنے پر آئی ایم ایف نے اعتراضات لگا دیے ہیں اور آئی ایم ایف نے ان سہولیات کو ختم کرنے کے لیے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے۔

اسی طرح، بلوچستان میں ریکوڈک بل کے ذریعے سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو صوبے میں رسائی دی جا چکی ہے اور یہی ملٹی نیشنل کمپنیاں چین کے مقابلے پر مستقبل میں امریکی مفادات کی ضامن بننے کو تیار ہوں گی۔ دوسری جانب چین مسلسل اپنی اقتصادی طاقت کو پھیلا رہا ہے، انڈوپیسفک پالیسی نے امریکا کی مکمل توجہ بحرالکاہل پر مرکوز کر دی ہے تو چین کے صدر نے سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی معاہدہ کر کے مشرق وسطیٰ میں اپنا نیا سٹرٹیجک پارٹنر بنانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ سعودی عرب نے گزشتہ 80 برس میں ہمیشہ امریکی تزویراتی مفادات کا تحفظ کیا ہے، تاہم اب سعودی عرب نے اپنی ریاستی بقاء کے لیے پالیسی شفٹ لے کر روس اور چین کے ساتھ الائنس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چین و امریکا کی سرد جنگ کے ساتھ پاکستان کو افغانستان بارڈر پر بھی سخت چیلنجز کا سامنا ہے، طالبان حکومت ریاست پاکستان پر بھروسا نہیں کرتی اور دونوں ملکوں کے درمیان کی سرحد کو بفر زون کے طور پر استعمال کرنا امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ہمیشہ آسان طریقہ رہا ہے، یہاں ہم آرڈر پر ہونے والے حالیہ واقعات کو بہ طور دلیل پیش کر سکتے ہیں۔ انڈوپیسفک پالیسی کے باعث، پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، فوج کی تکنیکی و مالی معاونت بند رہی، پی ٹی آئی کے رجیم چینج آپریشن میں امریکی مداخلت کے سیاسی بیانیہ کو بھی مقتدرہ کے ذریعے سے ہی مسترد کرایا گیا ہے۔ جنرل باجوہ کا آخری دورہ امریکا 2019 ء میں ہوا اور پھر آخری دورہ رجیم چینج آپریشن کے بعد ، نئے چیف کی تقرری سے دو مہینے قبل ہوا۔

یہ امر قابل تشویش ہے پاکستان داخلی طور پر سن 70 ء کی دہائی کے سیاسی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف، تینوں سیاسی جماعتوں کے پاس وفاقی و صوبائی حکومتیں ہیں تاہم اس کے باوجود ریاست کے اقتصادی و خارجہ پالیسی سازی کے اختیارات ان تینوں جماعتوں کے پاس نہیں ہیں۔ پاکستانیوں کو یہ وہم و گمان نہیں رہنا چاہیے کہ قومی ثالثی کی بنیاد پر نئی مقتدرہ ایسی پالیسی کا نفاذ کرے گی جس سے ملک اقتصادی طور پر ترقی کر سکے اور امریکا و چین کی گماشتہ ریاست بننے سے محفوظ رہ سکے کیونکہ مقتدرہ کی اپنی بقاء کالونیل عہد کی پالیسی ڈیوائیڈ اینڈ رول پر منحصر ہے۔

بہ طور پاکستانی، ہمیں یہ بالکل واضح رہنا چاہیے کہ موجودہ ریاستی ڈھانچے میں پاکستان کی بقاء مقتدرہ کی پالیسیوں کی مرہون منت ہوگی، ریاستی ستون میں سیاسی جماعتوں یا پارلیمان کی حیثیت محض علامتی ہے، قومی قسمت پر اثر انداز ہونے والے فیصلوں کا مرکز کبھی بھی پارلیمان نہیں رہی، پارلیمانی جمہوریت کے نمائندوں کے پاس صرف سڑکیں گلیاں بنانے یا پھر بہ حیثیت وڈیرہ و جاگیردار غریب کسان و ہاری پر کتے چھوڑنے کا اختیار ہے اس کے علاوہ قومی فیصلوں میں ان کی حیثیت صرف ربڑ سٹیمپ تک محدود ہے۔

یہ ریاستی خمیر کا نتیجہ ہے کہ ملک مسلسل اقتصادی بحران کا شکار ہے، معیشت ڈالرز کی اسیر ہے اور یہی ڈالرز پاکستان کے تجارتی سسٹم پر حاوی ہیں، روپے کی گراوٹ قومی قرضوں میں اربوں روپے کا اضافہ کر چکی ہے اور ڈالرز کی فنانشل مارکیٹ میں بالادستی کے ختم ہونے کے فی الحال مستقبل میں کوئی اثرات واضح نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی چیرہ دستیوں سے وجود پانے والی پی ڈی ایم کے اتحاد سے وجود پانے والی وفاقی حکومت کے پاس اقتصادی بحران سے نمٹنے کا کوئی ٹھوس پالیسی پیپر نہیں ہے، کوئی ویژن نہیں ہے، ان کے پاس بیان داغنے کے لیے صرف میڈیا برگیڈ ہی ہے۔

پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں، جمہوری جدوجہد میں پارلیمان سے بالا قوتوں کی بیساکھیاں جب تک اپنے سینے سے لگا کر رکھیں گی اس وقت تک ریاست پاکستان کی کشتی ہچکولے لیتی رہے گی اور یہ ہچکولے قومی آزادی کو سلب کرنے میں معاون و مددگار بنتے رہیں گے۔ جز وقتی رد مقتدرہ کا بیانیہ کبھی بھی سیاسی جماعتوں کے ڈسکورس کا حصہ نہیں بن سکا یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کا رد مقتدرہ کا بیانیہ زمین بوس ہوا، زرداری کا بلے کے دودھ پی جانے کی دھمکی گیدڑ بھبکی ثابت ہوئی اور عمران خان کے بیانیہ کا بھی دھڑن تختہ ہو گا اور باقی کھیل یونہی چلتا رہے گا۔ جب تک ان سیاسی جماعتوں کی تنظیمی ساخت سے شخصیت پرستی، خاندان کی اجارہ داری کا خاتمہ نہیں ہو گا پاکستان کی ریاستی بقاء خطرے سے دوچار رہے گی، پاکستان امریکا و چین کی طرف کبھی بھی قومی مفادات کے تحت ہاتھ بڑھانے سے قاصر رہے گا اور یہاں کی معیشت قرض کی جکڑ بندیوں کا شکار رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments