Audiovisual war یا Sexth generation war


ابھی ففتھ جنریشن کے وار تھمے نہ تھے کہ سکستھ جنریشن کے سیاپوں کی طوطیاں اپنے طوطوں سمیت بولنے کے ساتھ ساتھ دکھنے بھی لگیں۔ لہٰذا اسے سیکستھ جنریشن وار کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ اردو سے محبت رکھنے والے اسے حریم شاہی یا ملک شاہی دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ سائنس کی بے پناہ بلکہ خدا پناہ ترقی سے ہر فرد کے ہاتھ جام جمشید لگ چکا ہے جس کے ذریعے دنیا و مافیا کی جملہ حرکات من و عن قابل سماعت و بصارت ہیں۔ یہ سب ویڈیو اور آڈیوکریسی کی ترقی و اخلاق باختہ شکلیں ہیں۔

اب خلوتوں کے آداب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہے ہیں۔ جلوتوں میں معاذ اللہ کہنے والوں کے خلوتی کرتوت ہائے سیاہ کا منظر عام پہ آنا معمول کی بات ہے۔ اب غزالان حرم سے صحبتوں کے ثبوتوں سے مکر ممکن نہیں رہا۔ جہاں ”اللہ دیکھ رہا ہے وہاں کیمرا بھی شریک ہے۔ گویا شہر کا شہر الٰہ دین کا چراغ لئے لوگوں کے عیوب ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ ان حالات میں نہ صرف شوگر ڈیڈیوں کی تشخیص کا معما حل ہوا ہے بلکہ شوگر ممیوں کی معقول تعداد بھی منصہ شہود پر آ چکی ہے۔

اب اطلاقی دل پھینک اور بوالہوسوں کی مٹی پلید ہونے کے وسیع اہتمام موجود ہیں۔ دفاتر، گھر، ریستوران، نیٹ کیفے، مدارس، دربار، شادی، غمی، ہسپتال، سکول اور نہ جانے کہاں کہاں کیمروں کی آنکھیں جھانک رہی ہیں اور ان میں لگے کان انہماک سے سب کچھ سن رہے ہیں۔ لوگ جمالیاتی اور منہ کالیاتی حس پھڑکنے کے موجب بغلیں بجا تے اور پھر جھانکتے ہیں۔ حال ہی میں اک بڑے عزت و لذت مآب اس رخ زیبا سے نا زیبا کلمات کا تبادلہ کرتے سنے گئے جو پرویزی دور میں بھی اسی طرح، مشرف بہ اقتدار، رہ چکی ہیں۔

دوسری طرف ان کے مخاطب و حظ کشیدہ وہ عظیم ہستی ہے جو پاکئی داماں کی حکایت بڑھا نے کے سرخیل ہیں مگر دامن اور بند قبا دیکھنے کے قائل ہرگز نہیں۔ ثابت ہوا کہ ایسے معاملات قومی مسئلے ہیں۔ قبل ازیں ان کی سیاسی، تجارتی اور مذہبی صوتیات بھی فضاؤں میں گونجتی رہیں۔ چند ماہ پہلے کراچی کے اک سیاسی ڈاکٹر اپنی بیگموں کو پیارے ہوتے ہوتے آڈیو کریسی سے غیرت کھا کر بالاآخر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس سے پہلے پچھلے برس اک اور سیاسی راہنما کسی ہوٹل میں بنا کچھ زیب تن کیمرے میں محفوظ ہو کر زیب داستاں بنے۔

کچھ لمحے غیر ملبوس ہوئے تو قیامت ٹوٹ پڑی۔ گاندھی جی بھی تو عمر بھر ایسے پھرتے گئے مگر پھر بھی قوم کے باپو ہیں۔ اصل میں موصوف نے اپنی جماعت کی ادھوری تنظیم سازی کی تکمیل میں یہ قدم اٹھایا مگر لوگوں نے غلط رنگ دیا۔ اسی طرح تین سال پہلے صاحب نیب کی خودی کا“ اقبال جاودانہ ”اتنا بلند ہو گیا کہ اپنے دفتر میں ہی اپنی رضا کھول کر بیان کردی۔ ایسی آنکھیں لگیں کہ پھر آنکھ کا لگنا دشوار ٹھہرا مگر کیمرے کی آنکھ نے یہاں بھی سب کچھ دیکھ لیا۔ ویڈیو کے افسانے سوشل میڈیا پہ پھیلے اور بات چل کر دور تک جا نکلی۔ مگر اوپر کی غیبی امداد آ پہنچی۔

اک اور بڑے ملک الاحتساب کو کیمرے کی آنکھ نے اس وقت دیکھ لیا جب وہ چل کر پینے گئے مگر اٹھا کر لائے جا رہے تھے۔ بس ذرا کم ظرفی سے اک جام میں لڑکھڑا کر جا گرے۔ کیا کرتے، ، کثرت دباؤ، سے گھبرا کے پینے پہ جا لگے۔ انہیں پینے کا شوق ہرگز نہ تھا بلکہ محض دباؤ کا غم بھلانے کے لئے پیتے رہے۔ ویڈیو اور آڈیوکریسی کے ظہور سے قبل کتنے مناظر ہوں گے جو منظر عام پہ آنے کی سعادت سے محروم رہ گئے اور دنیا ان کی زیارت بنفس نفیس نہ کر پائی۔

ایسا ہوتا تو 70 کی دہائی میں آغا جانی اور ان کی رانیوں کی حشر سامانیوں کا سمعی و بصری مواد تو سنبھالے نہ سنبھلتا۔ ازمنہ قدیمہ اور قرون وسطیٰ کے کروڑوں بصری مناظر بن دیکھے ہی سپرد خلا ہو گئے۔ جن کے بعد ان پر اپنی اپنی مرضی کی تواریخ رقم ہوئیں اور حقیقتیں یکسر اجنبی رہیں۔ ذرا چشم تصور سے دیکھیں تو اقوام عاد و ثمود اور نوح و لوط کیمروں کی آنکھ سے کتنے محفوظ تھیں۔ دنیا ان کے کارناموں کے بصری تجسس سے نا آشنا رہی۔

زلیخا کے الزامات کی قلعی بھی کھل جاتی۔ اموی، عباسی اور عثمانی خلفاء بھی اپنے درباری مورخین کے سبب خاصے معتبر ٹھہرے ہیں۔ کاش محمد شاہ رنگیلا کے دور میں 36 تصویروں والا کیمرہ ہی میسر ہوتا تو کیا تماشا لگتا۔ پھر ویڈیو کریسی کی صورت میں مغلوں، خلجیوں، غوریوں، لودھیوں اور ماضی قریب کے کچھ جنرلوں کے معاملات کیا ہوتے جبکہ بادہ خواری کی کثرت کے باعث غالب ہمیشہ مغلوب ہی رہتا اور ولی بننے کا ادنیٰ دعویٰ بھی نہ کر پاتا۔

ابراہیم ذوق کی فیس بک پہ غالب کی حالت کیا ہوتی۔ کیا الزامات، کیا دشنام اور کیا الم غلم کا سماں رہتا۔ ویڈیو کریسی کے بطن سے نکلی ”ٹک ٹاک“ تو روایتی میڈیا سے بھی چار قدم آگے جا نکلی ہے۔ ایوان صدر اور مینار پاکستان کے نام خوب روشن ہوئے۔ سچ پوچھئے تو پوری قوم ٹک ٹاک، سوشل میڈیا اور کیمروں میں بند ہو چکی ہے۔ مفتیان عظام بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور بدرجہ اتم شہرت پا رہے ہیں۔ اب سمجھے کہ علماء کیمروں کو حرام کیوں قرار دیتے ہیں۔ اب جان، مال اور عزت کیمروں کی مرہون منت ہیں۔ یادش بخیر لاہور کی خوبرو مغنیہ بھی، نقش بر آب، بنانے کے شوق میں اک موبائل والے کے ہاتھوں خود ہی وائرل ہو بیٹھی اور تائب ہوئیں۔ نہ جانے سیکستھ جنریشن وار کی وحشت ہمیں کہاں لے جا کر دم لے۔ بقول جان ایلیا،

اب نہیں کوئی بات خطرے کی۔ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments